’’حصول علم کا اصل مقصد عرفانِ خداوندی‘‘

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
’’حصول علم کا اصل مقصد عرفانِ خداوندی‘‘ ۔ سید بلال احمد کرمانی ۔
الحمد للہ ،الحمد للہ رب العالمین ،والصلٰوۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین و علیٰ اٰلہ و اصحابہ اجمعین
اما بعد!فقد قال اللّٰہ تعالیٰ فی الکتاب المبین ،فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
’’ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ‘‘ صدق اللّٰہ العظیم و صدق رسولہ النبی الکریم و نحن علیٰ ذالک من الشٰھدین و الشاکرین والحمد للہ رب العالمین۔
و قال النبی ﷺ طلبُ العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم،و قال اللہ تعالیٰ فی شان حبیبہ، اِنَّ اللّٰہ و ملٰءِکتَہ‘ یصلُّون علی النبی یا ایھا الذین اٰمنوا صلوا علیہ و سلِّموا تسلیما۔اللھم صلِّ علی سیدنا محمد و علیٰ اٰل سیدنا محمد و اصحاب سیدنا محمد و بارک و سلم علیھم
چوں شمع از پئے علم بائد گداخت

کہ بے علم نتواں خدا را شناخت
علم را بر تن زنی مارے بود

علم را بر دل زنی یارے بود
پڑھ پڑھ کے گیا پتھر لکھ لکھ کے گیا چور جس پڑھنے سے صاحب ملے وہ پڑھنا ہے اور
صدر کانفرنس ،اراکین ’’الاخلاص فاؤنڈیشن‘‘،خواتین و حضرات ،طلبائے کرام السلام علیکم!
بعد حمد و ثنائے رب العالمین و بے شمار درود و سلام بر ذات سید المرسلین ،حبیب رب العالمین ﷺ ،یہ آپ حضرات کی ذرہ نوازش ہے کہ کشمیر کے رہنے والے ایک طالب علم جو آپ کی زبان بھی نہیں جانتا ہے ،جو آپ کی تہذیب سے بھی نا آشنا ہے ،کو آپ حضرات نے یاد کیا ۔اللہ تعالیٰ اس فقیر کو حق کہنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ حضرات کو صحیح سننے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کے سامنے جو قرآن پاک کے سورۃ الذاریات کی ایک آیت تلاوت کی ،جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقصد تخلیق کو بیان فرمایا ہے،کہ کیوں میں نے اِنسان کو تخلیق کیا ،کس بات کے لیے تخلیق کیا ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے’’وَ مَا خلقتُ الجنَّ والانسَ الّا لِیَعبدون‘‘نہیں بنایا میں نے جنوں اور انسانوں کو فقط اپنی عبادت کے لیے۔
جنوں کی عبادت :اللہ تعالی نے بے شمار مخلوقات بنائے مگر ان بے شمار مخلوقات میں فقط اپنی عبادت کے لیے جنوں اور انسانوں کو چنا،حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ جب آپ ایک دن مدرسہ کی طرف نکل رہے تھے تو اچانک آپ زمین کے نیچے جنات کی دنیا میں پہنچے ۔آپ نے دیکھا کہ عدالت لگی ہوئی ہے۔ جنوں میں ایک مفتی صاحب کے سامنے کوئی مسئلہ پر بحث چل رہی ہے۔ ایک جگہ یہ لوگ اٹک گئے ہیں تو اب حضرت شاہ صاحب سے اس مسئلہ کے متعلق مزید جانکاری چاہتے ہیں ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کا صحیح جواب عطا فرمایا۔ سب جنات اس فیصلے سے خوش ہوئے ایک جن وہاں پر بڑا بزرگ تھا تو اس نے اس مسئلے میں حضرت شاہ صاحب کے فتویٰ کی یوں تصدیق کی کہ بھائی میں نے بالکل حضور اکرم ﷺ کی مجلس میں حضور ﷺ سے یہ مسئلہ اسی طرح سنا ہے جیسے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا،تو اس صحابی جن کا دیدار کرنے کے بعد حضرت شاہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ بھائی ہم تو تابعی ہوگئے کیونکہ ہم نے صحابی جن کو دیکھا ،
انسان جنوں سے اکرم :تو عرض یوں کررہا تھا کہ جنات بھی عبادت کے لئے ہی منتخب کیے گئے ہیں، انسان کو بھی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے لیکن ’’و لقد کرَّمنا بنی آدم کی آیت مبارک کے تحت انسان کو اکرم بنایا گیا یعنی اس کے سر پر تاج خلافت سجایا گیا تو پتہ چلا کہ انسان اظہار بندگی کرنے میں جنوں سے بھی اکرم ہے ۔اسلئے انسان پر بندگی کی ذمہ داری بھی اپنے مقام کے اعتبار سے اکرم و اشرف ہے۔
بعضے مفسرین نے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون میں لیعبدون یعنی’’ عبادت کے لئے بنایاہے ‘‘کو اہم مفہوم لیعرفون سے بیان فرمایا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان کرانے کے لئے بنایا ہے یعنی بندگی ایسی ہو کہ انسان ’’عبد‘‘بن کراپنے معبود کو پہچانے۔
پہچاننے کیلئے جاننا ضروری:پہچاننے کے لئے پہلے جاننا یعنی علم حاصل کرنا ضروری ہے یہاں پر ایک واقعہ سناؤں گا جسے پتہ چلے کہ پہچاننے کے لئے جاننا بہت ضروری ہے۔
سیدنا عمرؓ کا واقع:مشہور واقعہ ہے کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں راتوں کو گشت کے دوران ایک رات دور پہاڑوں میں روشنی دیکھی آپ نزدیک پہنچے تو ایک میاں بیوی ہیں بیوی کو درد زہ ہورہا تھا سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص سے حال معلوم کیا تو وہ بڑا غصہ ہورہا تھا کہ دیکھئے ہم مدینہ پہنچے اور امیر المؤمنین کا کوئی بندو بست نہیں ہے ہماری بیوی بیچاری درد سے کراہ رہی ہے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموشی سے چلے گئے کچھ ہی دیر بعد اپنی اہلیہ کو ساتھ لائے وہ اس عورت کو دیکھنے چلی گئی اور سیدنا عمر سے پانی گرم کرنے کے لئے کہا ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی گرم کررہے ہیں اور وہ شخص تو بڑا آگ بگولہ ہورہا تھا آپ کی اہلیہ نے خیمہ کے اندرسے پانی مانگا آپ نے دیدیا ،تو جب بچہ تولد ہوا تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انکی اہلیہ نے آواز دی کہ اے امیر المؤمنین اپنے بھائی کو خوشخبری دیدیجئے کہ اسکے ہاں لڑکا تولد ہوا ہے،اس شخص نے جب سنا کہ یہی امیر المؤمنین ہیں تو اسکے تو پسینے چھوٹ گئے کہ اب میں کیا کروں ؟میں نے تو امیر المؤمنین کی ایسی ویسی سنائی،خیر سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کچھ نہ کہا کیونکہ اسلام میں خلیفہ خادم ہوتا ہے ،تو کہنا میں یہ چاہتا تھا کہ پہلے وہ شخص جانتا نہیں تھا کہ آپ امیر المؤمنین ہیں اب جب جان گیا تو اسکی بولی ہی بدل گئی۔کیونکہ جاننے کے بعد ہی پہچان ہوتی ہے ۔تو ثابت ہوا کہ لیعبدون سے جب لیعرفون مراد ہے تو اس کے لئییعلمون یعنی علم حاصل کرنا ضروری ہے
اب اللہ تعالیٰ نے انسان کے حصولِ علم یعنی جانکاری دلانے کا کیا انتظام کیا ہے؟خود ہی تو پہچان کیلئے بنایا ہے تو جانکاری دلانے کا بھی انتظام کیا ہی ہوگا۔
پہلاانتظام: یہ کہ قدرتی طور پر ہر انسان خالق کو ڈھونڈتا ہے ،انسانوں کی اکثریت کائنات کو بنانے والے کو مانتی ہے اور اس کی تلاش میں ہے وہ لوگ بالکل کم ہیں بلکہ چند ہیں جو منکر خدا یعنی کیمونیسٹ ہیں کسی شاعر نے کیو خوب کہا ہے ؂
مسجدیں لاکھوں بنیں اور سیکڑوں مندر بنے ایک ہر جائی کی خاطر دیکھو کتنے گھر بنے
ہر مخلوق میں طلب خدا کا یہ جوہر کیسے موجود ہے؟یاد رکھئے خالق نے سب سے پہلے جناب حضور اکرم ﷺ کے نورکو اپنے نورقدرت سے بنایا ،یعنی اللہ کا نور، نور قدِم ہے اور حضرت محمد ﷺ کا نورنور قیم ہے جسکو حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے وظیفہ کبریت احمر شریف میں حضور کے صفات بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا ’’ نور ک القدیم، و صراطک المستقیم ،محمد عبدک و رسولک و حبیبک،وہ قدیم نور یعنی نور اول وہی صراط مستقیم ہے اللہ تعالیٰ خود نورقدم اور حبیب کو نور قدیم بنایایہ بات قرآن سے پوچھئے سورۃ الانعام قل ان صلٰوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذالک اُمرت و انا اول المسلمین‘‘کہہ دیجئے (یا محمد )بے شک میری نماز ،اور میری قربانی ،اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کیلئے ہے جو عالمین کا پالنہار ہے اسکا کوئی شریک نہیں،اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا اور میں پہلا تسلیم کرنے والا ہوں،مولینا شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے تفسیر عثمانی جو سعودی عرب کی حکومت نے شائع کیا تھااس آیت کی شرح میں لکھا ہے کہ مسلم اول جناب حضور اکرم ﷺ ہیں کونکہ وہی مخلوق اول ہیں ۔پھر حدیث مبارکہ ترمذ ی شریف کی بطور دلیل لائی ہے کہ پہلے جو بنایا گیا وہ میرا نور تھا۔ اولَ ما خلقَ اللّہُ نورِی۔
تو کہنا یہ ہے کہ نور قدیم کو سب سے پہلے رب نے یعنی نورِ قِدم نے اپنی کبریائی،ربوبیت،اور وحدانیت کا سبق پڑھایا اور تسلیم کروایااب اس نور کے چار حصے کئے پھر انہی حصوں سے تخلیق کائینات ہوئی یعنی ہر مخلوق میں حضور اکرم ﷺ کے نور کا حصہ ہے اور اُس نور مصظفوی کاحصہ جس نے سب سے اول اللہ کے خالق ہونے کا اقرار کیا ہے ،تو یہی وجہ ہے کہ سب انسان خود بخود کسی نہ کسی مذہب کے ذریعے اس خالق کے ہونے کا اقرا ربغیر کسی کے سکھائے کر رہا ہے کیونکہ کہ خالق کی کبریائی کاجوہر اس کے اندر موجود ہے بلکہ انسان ہی نہیں ہر مخلوق اس کے ہونے کی گواہی کسی نہ کسی طرح دے رہا ہے اب جو چند منکرین ہیں وہ صرف لا علمی اور جہالت کی وجہ سے ایساکررہے ہیں کل مخلوقات عالم کہہ رہے ہیں ؂
’’کوئی تو ہے جو نظام قدرت چلا رہا ہے وہی خدا ہے‘‘
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دہریہ کا واقع: حضرت امام اعظمؓ کے دور میں ایک دہریہ جو منکر خدا تھا کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ وہ بادشاہ کے پاس آکر اس سے کہنے لگا کہ خدا تو ہے نہیں اور میرے پاس ا س کی دلیل ہے چند علما سے وہ مل بھی چکاتھا کہ مجھے خدا دکھائیے ،شائد وہ اسکو مطمئن نہ کر سکے تھے تو آخر کار امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باری آئی تو تاریخ طے ہوئی وقت طے ہوا ،لیکن مقررہ تاریخ کے آنے پر مقررہ وقت آیا ۔مگرامام صاحب نہیں آئے ،وقت گذر رہا ہے امام صاحب نہیں آئے دہریہ نے ڈنکا بجانا شروع کردیا کہ بھائی میں نے تو کہا تھا کہ امام صاحب نہیں جواب دے سکتے ہیں، جواب دیتے تو پھر آجاتے ،اتنے میں امام صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو بادشاہ نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو آپ نے وجہ بتادی کہ دریا ئے دجلہ میں کشتی نہ تھی ،اب میں سوچ رہا تھا کہ کیا کروں؟ کونکہ بڑی دیر ہوئی تو چند لکڑی کے ٹکڑے پانی سے نکلے ،یکایک آپس میں جُڑ گئے،پانی سے ہی کیل بھی نکل آئے اور کشتی بن گئی ،بن کر میری طرف آنے لگی میں سوار ہوا پھر وہ کشتی خود بہ خود ہی چلی اور مجھے دوسرے کنارے پر پہنچا دیابس ایسا نہ ہوتا تو شائد میں یہاں آنہ پاتا ، اس لئے تاخیر کیلئے معذرت خواہ ہوں،دہرئے نے فوراً اعتراض کیا کہ بادشاہ سلامت یہ بالکل بہانہ ہے ،سفید جھوٹ ہے ،کیا ایسا ہوسکتا ہے جو امام صاحب بتا رہے ہیں؟سبھوں نے کہا بھائی بالکل ایسا ہونا تو محال ہے؟امام صاحب نے دہریہ سے کہا کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس نے صاف کہا کہ بھائی بالکل نہیں ہوسکتا کیونکہ کوئی بنانے والا تو ہو ،خود بخود کیسے ایسا ہوسکتا ہے؟حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تو جب ایک کشتی خود بہ خود نہیں بن سکتی اور مجھے دوسرے کنارے پر چھوڈ نہیں سکتی تو پھر یہ کائینات اتنی وسیع اور اتنی منظم پھر اس میں آپ کا اور میرا آنا کیسے کسی خالق کے بغیر ہوسکتا ہے،بس اسی پر ذرا غور کرو ،پورا ایوان اس عقلی دلیل پر دھنگ رہ گیا حتیٰ کہ دہریہ نے اسی وقت کلمہ پڑھا اور ایمان لایا۔
تو عرض یہ کر رہا تھا کہ ہر انسان کادل خالق کو تسلیم کر رہا ہے۔ اب اگر کوئی منکر ہے تو وہ اس کی جہالت اور لا علمی ہے۔یہ وہ طریقہ بتا رہا تھا کہ انسانوں کے اندر خالق کے تسلیم کرنے کا جوہر منجانب اللہ ہی ودیعت کیا گیا ہے۔
دوسرا طریقہ معبود کو پہچاننے کا: مخلوقات کے اندر غور کرنے سے ،خالق کا عرفان ہوجائیگا یعنی مخلوقات اللہ تعالیٰ کی پہچان دلانے میں سبب ہیں۔اسی لئے قراٰن پاک میں جا بجا انسان کو مخلوقات عالم میں غور کرنے کی تلقین ہے جیسے دوسرے سپارہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
انَّ فی خلق السمٰوت والارضِ ،واختلافِ اللّیلِ والنھار، والفلک ،التی تجری فی البحر، بما ینفع الناسَ، وما اَنزل اللہُ من السماءِ مِن مّاء، فاحیا بہ الارضَ بعدَ موتِھا، و بثَّ فیھا من کلِّ دابۃ ،و تصریف الریاح، و السحاب المسخر بین السماء والارض، لایٰت لقوم یعقلون، ترجمہ:بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں)میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے سالی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس (بارش)کے پانی میں جسے اللہ آسمان کی طرف سے اتار تا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کرتا ہے (وہ زمین) جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دئے ہیں اور ہواؤں کے رخ بکلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان(حکم الٰہی کا)پابند (ہو کر چلتا)ہے (ان میں)عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیا ں ہیں اس آیت میں مختلف ساینسز کا بیان ہے مثلاً Veternerysciences,agriculture&watercycle ,transportation ,jeo graphyاسی طرح سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یُنْبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُونَ وَ النَّخِیْلَ وَالْاَعْنَابَ وَ مِنْ کُلِ الثَّمَرَاتِ ط اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوم یَتَفَکَّرُون(اُسی پانی سے تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) لگاتا ہے ،بیشک اس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہے۔) اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے agriculture ,Horticultur وغیرہ ساینسز کا ذکر کرکے آخر میں فرمایا اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوم یَتَفَکَّرُون بیشک اس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے’’ نشانی ‘‘ ہے
ان سارے علوم کو حاصل کرنے سے آپ کودنیاوی فوائد ملیں گے مگر دنیاوی فوائد کا حصول ان علوم کا جُز ہیں کل نہیں ،جُز دنیا کا فائدہ اور نقصان ہے لیکن کل اللہ تعالیٰ کا عرفان ہے ان علوم کا کل یہ ہے کہ ہم خالق کائنات کو پہچاننے والے بن جائیں۔ ان اسباب سے مسبب الاسباب کو کیوں نہیں پہچانتے یعنی میرے بندے کیوں نہیں بنتے ہوتو عرض یوں کررہا تھا کہ علم کے ذریعے اللہ کو پہچاننا اصل علمی کارنامہ ہے
اللہ تعالیٰ نے اس علم کو پڑھانے کیلئے اپنی طرف سے استاد بھیجے ہیں جن کو انبیاء کرام علیھم السلام کہتے ہیں جیسا کہ حدیث مبارک میں آیا ہے کہ حضو ر ﷺ نے فرمایا بعثتُ معلماً مجھے استادِکائینات بنا کر بھیجا گیاہے دنیا میں استاد کو کینگ میکر کہتے ہیں لیکن انبیاء کرام بندۂ خدا میکر ہوتے ہیں یہ حضرات اسطرح پڑھاتے ہیں کہ انسان اس حد تک عرفان خدا وند ی کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے کہ پوری کائنات خادم ہوجاتی ہے اور انسان مخدوم ہوجاتا ہے ۔ انبیاء کرام نے علاقوں اورقوموں کو پڑھایا لیکن جتنے علوم پڑھائے ان سب علوم کو جاننے والا اکیلا ہمارا نبی ﷺ ہے کیونکہ ہمارا نبی ،نبئی کاینات ہے اسی لئے ہمارے نبی ﷺ کو النبی الامی کہتے ہیں،ان کو عطا کی گئی کتاب کو ام الکتاب کہتے ہیں جیسا کہ علامہ اقبال ؒ نے فرمایا ؂
وہ دانائے سبل ختم رسل مولائے کل جس نے

غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
معلم کائنات کے اولین شاگردوں کاکمال عرفان :حضرات صحابہ نے عرفان خداوندی کا سبق اسی دانائے سبل اور ختم رسل ﷺ سے لیا تھا تو مخدومیت کا عالم کیا تھا حضرت عمرؓ دریائے نیل کو خط لکھ رہے ہیں ،اور دریائے نیل خط کو پڑھ کر اس پر عمل کررہے ہیں ،یعنی انسانی قربانی کے بغیر ہی دریا جاری ہوتا ہے سبحان اللہ ،سفینہ صحابی کے پاس شیر آتا ہے اور حملہ کرنے کے لیے تیار ہے تو آپ نے شیر کو اپنا ایڈریس دے دِیا کہ میں معلم کائنات ،کا طالب علم ہوں تو شیر نے جان لیا کہ پھر تویہ بندہ عرفان خداوندی کے سمندر میں غوطے لگانے والا بندہ ہے اس کے ساتھ تو چھیڑ سکتے نہیں ہیں بلکہ اس کی غلامی میں ہمارے لیے خیر ہے تو شیر نے سفینہ کو گم شدہ منزل کی طرف راہنمائی کی،سیدنا غوث اعظمؓ کے پاس علی عرب نام کے ایک بزرگ آئے عرض کی حضرت مجھے اولاد نہیں ہے دعا تو کریں تو حضرت غوث نے فرمایا اے علی اپنی پشت میری پشت کے ساتھ کردو میری پشت میں ابھی ایک اولاد ہے وہ میں تمہیں دے دیتا ہوں اس کانا م محی الدین رکھنا ،تو ویسا ہی ہوا کہ علی عرب کے بطن سے ایک لڑکا ہوا وہی شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی کہلاتا ہے،غرض جب اِنسان بندگی میں کامل ہوکر عرفانِ خداوندی کی منازِل طے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کو کائنات میں مخدوم کرکے وعدۂ خلافت سے سرفراز کرتا ہے۔اس منزلِ عرفان تک پہنچنے کے لیے علم کا حصول ضروری ہے جس کے حصول کے لیے معلم اول ’’سرور کائنات ﷺ ہو اور کتاب اول قرآن مجید‘‘ ہوسب سے پہلے اسی مکتب میں نام درج کروائیں تو اس کے بعد آپ جہاں جہاں سے گزریں گے تو آپ کو ہر طرف سے خالق اور مالک کے جلوے نظر آئیں گے یہ سب امی نبی ﷺ اور امّ الکتاب کا فیضان ہے ۔یہ فیضان ہم پر آخری دم تک جاری رہے آمین۔اسی لیے حضور پر نور کا فرمان ہے طلبُ العلمِ فریضۃٌ علیٰ کل مسلم۔
اور حضرت شیخ سعدی کچھ یوں فرماتے ہیں ؂
چوں شمع از پئے علم بائد گداخت

کہ بے علم نتواں خدا را شناخت
دانائے راز علامہ اقبال ؒ نے فرمایا :
علم را بر تن زنی مارے بود

علم را بر دل زنی یارے بود
کشمیر کے ایک صوفی شاعر صمد میرصاحب مرحوم نے یو کہا ہے ؂
پڑھ پڑھ کے گیا پتھر ،لکھ لکھ کے گیا چور جس پڑھنے سے صاحب ملے وہ پڑھنا ہے اور
اللہ تعالیٰ ہمیں وہی پڑھنا نصیب کرے جس سے ہمیں معرفتِ اِلٰہیہ حاصل ہو اور دین و دنیا کی برکات سے بہر ہ ور فرمایے ہمارا خاتمہ بالخیر ہو و اٰخر دعوانا عن الحمد للہ رب العالمین اگر طالب علم سے کوئی غلطی ہوئی ہوگی تو امید ہے درگزر فرمائیں گے۔جزاک اللہ ۔ الاخلاص فاؤنڈیشن کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ذرہ نوازش فرمائی السلام علیکم۔
سید بلال احمد کرمانی،
----------@gmail.com
...............................................................................................................................
Back to Conversion Tool
Back to Home Page
 
Top