’’حسینہ معین‘‘ کے ساتھ ایک عہد تمام ہوا

سیما علی

لائبریرین
’’حسینہ معین‘‘ کے ساتھ ایک عہد تمام ہوا۔

MARCH 27, 2021


903371_5954923_12_updates.jpg

سب کو پیسا چاہیے۔ ہم یہ بُھول گئے ہیں کہ آرٹسٹ کبھی امیر نہیں ہوتا۔ چاہے وہ مصور ہو، گلوکار ہو، ڈراما نگار ہو، اداکار ہو۔ فن کارکبھی اتنا امیر نہیں تھا، جتنا اب ہو گیا ہے، کیوں کہ وہ صرف پیسے کے لیے کام کر رہا ہے۔ تو اب ڈراما بھی اسی قطار میں کھڑا ہو گیا ہے۔ آج کل کے ڈراما نگار چاہتے ہیں کہ 6 دن میں ڈراما سیریل لکھ کر ختم کریں اور دوسری سیریل لکھنا شروع کر دیں۔
چراغ بُجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار ۔

’’حسینہ معین‘‘ بھی دُنیا سے چلی گئیں۔ ان کے جانےسےخُوب صورت ڈراموں کا ایک عہد تمام ہوا۔ اُن کے لکھے ہوئے ڈراموں میں رشتوں کےتقدس کی عکاسی کی جاتی تھی۔ جمعے کو سویرے اطلاع ملی کہ ’’حسینہ آپا‘‘ ہم سب کو اُداس کرگئیں۔ ان کی عمر 78 برس تھی، وہ لاہور جانے کے لیے تیار ہورہی تھیں کہ اچانک دل کا دورہ پڑا، جو جان لیوا ثابت ہوا۔

بر صغیر پاک و ہند میں جب بھی ٹیلی ویژن ڈرامے کی تاریخ رقم کی جائے گی، مورخ ممتاز ڈراما نگار حسینہ معین کا نام فراموش نہیں کر سکے گا۔ ہمارا ٹیلی ویژن ڈراما ان کی دل کو چُھو لینے والی تحریروں کی وجہ سے دنیا بھر میں راج کرتا رہا ہے۔ حسینہ معین نے نہایت شان دار اور کام یاب ڈرامے لکھے۔ ان میں شہ زوری، ان کہی، تنہائیاں، کرن کہانی، دھوپ کنارے، آہٹ، انکل عُرفی، آنسو، کسک، پرچھائیاں، دھندلے راستے، پڑوسی، پل دو پل اور جیو سے ٹیلی کاسٹ ہونے والے ڈرامے سارے موسم اپنے ہیں اور میری بہن مایا شامل ہیں۔ ان کا شوبزنس کیریئر ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامے سے سجا ہوا تھا۔انہیں پڑوسی ملک بھارت سے بھی پزیرائی ملی۔ نام ور پروڈیوسر،ڈائریکٹر اور اداکار راج کپور نے بھارت بُلایا اور فلم ’’حنا‘‘ کے ڈائیلاگ لکھوائے۔ اس فلم کی ہیروئن زیبا بختیار تھیں۔

اس کے علاوہ بھارتی چینلز کے لیے بھی دو ڈرامے تحریر کیے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی رائٹر کا ڈراما بھارت کے قومی چینل پر ٹیلی کاسٹ کیا گیا ۔ حسینہ معین کا لکھا ہوا بھارتی ڈراما ’’کش مکش‘‘ کا ٹائٹل سونگ ٹینا ثانی نے گایا تھا اور اس کی موسیقی ارشد محمود نے دی تھی۔ حسینہ معین نے ٹیلی ویژن انڈسٹری میں درجنوں فن کاروں کو متعارف کروایا تھا۔ وہ فن کار آج شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہے ہیں۔ حسینہ معین تقسیمِ ہند سے قبل کانپور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا کچھ عرصہ راول پنڈی میں گزرا اور انہوں نے راول پنڈی کے ماڈل اسکول سے میٹرک پاس کیا اور پھر کراچی آگئیں۔ گورنمنٹ کالج فار وومن فریئر روڈ سے گریجویشن اور کراچی یونی ورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

903371_5058759_drama_updates.jpg

حسینہ معین کو ڈراما نگاری کے شعبے میں حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن سمیت مختلف اداروں سے بہترین ڈراما نگاری پر ایوارڈ حاصل کر چکی تھیں۔ علاوہ ازیں، حسینہ معین نے فلم ’’کہیں پیار نہ ہوجائے‘‘ کی کہانی سمیت کئی مقبول فلموں کے مکالمے بھی تحریر کیے، جن میں ’’نزدیکیاں‘‘ اور ’’یہاں سے وہاں‘‘ تک شامل ہیں۔ان کی خواہش تھی کہ ’’شہ زوری‘‘ اور ’’ان کہی‘‘ تھیٹر پر پیش کیے جائیں، مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔’’ان کہی‘‘ کو تھیٹر پر پیش کرنے کی تیاریاں مکمل ہوگئی تھیں، اس کی ریہرسلز بھی ہوئیں، مگر کورونا کی وجہ سے وہ تھیٹر پر پیش نہیں کیا جاسکا۔ حسینہ آپا جیسی لکھنے والی اب دُور دُور تک نظر نہیں آتیں۔میرا رب ان کی مغفرت کرے۔آمین

ڈرامے لکھنے کا آغاز کیسے کیا

یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میں گورنمنٹ کالج فار ویمن فریئرروڈ، کراچی میں پڑھ رہی تھی۔ ہماری اردو کی ٹیچر، معروف ادیب، ماہرِ لسانیات، شان الحق حقّی کی اہلیہ، سلمیٰ شان الحق حقّی، انتہائی وضع دار اور بہت پیاری خاتون تھیں، ایک روز انہوںنے مجھ سے کہا کہ ’’ریڈیو پاکستان، کراچی سے ایک سرکلر آیا ہے، جس میں تمام کالجز کے درمیان ڈرامے لکھنے کا مقابلہ ہے، اور ہر کالج سے پچیس منٹ دورانیے کا ایک ڈراما بھیجنے کو کہا گیا ہے، تم ایک ڈراما لکھ دو۔‘‘ یہ بات انہوںنے مجھ سے اس لیے کی کہ میں اُس زمانے میں ’’وال پیپرمیگزین‘‘ کے لیے طنز و مزاح پر مبنی نگارشات وغیرہ لکھا کرتی تھی، جب انہوںنے مجھے ڈراما لکھنے کو کہا، تو میںنے کہا کہ ’’میں کیسے لکھ سکتی ہوں، میں نے تو آج تک کوئی ڈراما نہیںلکھا۔‘‘

انہوںنے کہا کہ ’’جو سمجھ میںآئے، لکھ دو، بھیجنا تو ہے۔‘‘ پھر میں نے وہیںبیٹھ کر جیسے تیسے ایک ڈراما ’’پٹریاں‘‘ لکھ دیا، جو غیریقینی طور پر بہت اچھا ہوگیا اور یہ میری خوشنصیبی تھی کہ میرا لکھا ہوا اسکرپٹ آغا ناصر صاحب کے ہاتھ لگا۔ انہوں نے جب پڑھا، تو انہیں بہت پسند آیا۔ کہنے لگے، مَیں اسے خود پروڈیوس کروں گا۔ بہرحال، جب ڈراما مکمل ہوا اور ریڈیو پر نشر کیا گیا، تو اس قدر پسند کیا گیا کہ اُسے ایوارڈ بھی ملا۔

وہ کہتی تھیں کہ ہمارا ڈراما گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا

ہمارا ڈراما اپنے پائوں پر نہیں کھڑا، بلکہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ہے،کیوں کہ ہم نے ڈرامے کو اتنا زیادہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ 90ء میں ہم سال میں دو تین ڈرامے لکھا کرتے تھے۔ ایک ڈراما ایک دن میں تو نہیں بن جاتا۔ اس کے لیے بہت محنت درکار ہوتی ہے۔ آج ہمارے یہاں اتنے سارے ڈرامے ہو رہے ہیں، تو ان کا انجام تو یہی ہو گا کہ ان کا معیار ختم ہو جائے گا۔ بد قسمتی سے ہم سب کو پیسے کا لالچ زیادہ ہو گیا ہے۔

903371_5941296_classic_updates.jpg

سب کو پیسا چاہیے۔ ہم یہ بُھول گئے ہیں کہ آرٹسٹ کبھی امیر نہیں ہوتا۔ چاہے وہ مصور ہو، گلوکار ہو، ڈراما نگار ہو، اداکار ہو۔ فن کارکبھی اتنا امیر نہیں تھا، جتنا اب ہو گیا ہے، کیوں کہ وہ صرف پیسے کے لیے کام کر رہا ہے۔ تو اب ڈراما بھی اسی قطار میں کھڑا ہو گیا ہے۔ آج کل کے ڈراما نگار چاہتے ہیں کہ 6 دن میں ڈراما سیریل لکھ کر ختم کریں اور دوسری سیریل لکھنا شروع کر دیں۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ آج کے ڈراما نگار مسلسل 50,50 قسطیں لکھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ممکن نہیں ہے، لیکن ایسا ممکن ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے ڈراما خراب ہو رہا ہے۔ ایک زمانے میں صرف ایک ٹی وی چینل تھا۔ اس زمانے میں سب نے بہت اچھا کام کیا۔

تمام ڈائریکٹرز، ایکٹرز اور رائٹرز کی باقاعدہ تربیت ہوتی تھی۔ ہر ڈرامے کی ریہرسل ہوتی تھی۔ اس کے بعد ڈراما ریکارڈ ہوتا تھا۔ اس کے بعد ایڈٹ ہوتا تھا۔ اس موقع پر ڈائریکٹر موجود رہتا تھا۔ اب لوگ اس بات کا خیال نہیں رکھتے۔ اب تو ایڈیٹر کو معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ ڈراما کہاں ریکارڈ ہوا ہے۔ اس کی نوعیت کیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ ڈراما نہیں رہا، جس پر سخت محنت کی جاتی تھی۔ ایک ٹیم ورک ہوتا تھا۔ تخلیقی کام ہمیشہ آہستہ اور توجہ سے کیا جاتا ہے۔ سوچ سمجھ کر اور پیار سے کیا جاتا ہے۔ جو بھی کام کیا جائے، اُسے لگن اور پیار سے کیا جانا چاہیے۔ آج کل تو صرف پیسے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ ڈراما لکھنا اور بنانا کوئی سودے بازی تو نہیں ہے، یہ کوئی پیاز کی دُکان تو نہیں ہے۔

ڈراموں کی کام یابی کا تناسب بہت کم ہے، جس طرح بھارت میں سیکڑوں فلمیں بنتی ہیں، لیکن دو چار ہی زبردست کام یابی حاصل کرتی ہیں، اسی طرح ہمارے سیکڑوں ڈراموں میں سے دو چار کام یاب بھی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ڈرامے والوں کو اس طرف خاص توجہ دینا چاہیے۔ آج کل چینل پر اسکرپٹ ایڈیٹر رکھنے کا رجحان نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈراموں کے اسکرپٹ کو کوئی چیک نہیں کرتا۔ اگر اسکرپٹ ایڈیٹر ہو تو وہ اس کی زبان دُرست کر سکتا ہے۔ اگر آپ ہماری اُردو زبان میں ڈراما کر رہے ہیں، تو اپنی اُردو صحیح کرو۔ ٹیلی ویژن پر ایک زمانے میں پڑھے لکھے دانش وروں کو اسکرپٹ ایڈیٹر بنایا جاتا تھا۔ افتخار عارف اور مدبر رضوی ایک ایک لفظ پڑھتے تھے۔ اس کے بعد ڈراما آگے بڑھتا تھا۔1999 کے بعد ڈراما خراب ہوا ہے۔ درجنوں ٹی وی چینل آگئے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔

راج کپور سے دل چسپ ملاقات کا احوال

اُس زمانے میں ہم ڈراما بندش یا دُھند کے لیے آڈیشن لے رہے تھے، ساحرہ کاظمی بھی میرے ساتھ تھیں۔ لڑکے لڑکیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں، جن سے مکالمے ادا کروائے جارہے تھے، جب کوئی آکے پرفارمنس دیتا، تو ہم مزاحاً کہتے کہ یہ دلیپ کمار آگئے، یہ سنجیو کپور آگئے یا ہیما مالنی آگئیں۔ ابھی ہم آڈیشن لے ہی رہے تھے کہ اسی دوران پروڈیوسر ظہیر خان کا چپراسی میرے پاس آیا اور کہا کہ ’’حسینہ بی بی! آپ کے لیے راج کپور کا فون آیا ہے۔‘‘ یہ سُنتے ہی ساحرہ نے قہقہہ لگایا کہ ’’لو بھئی، راج کپور بھی آگئے۔‘‘

ہم نے ہنسی مذاق میںبات اُڑادی، لیکن پھر ظہیرخان اپنے کمرے سے آئے اور سنجیدگی سے کہا کہ ’’حسینہ! ممبئی سے فون آیا ہے، تم سنو تو سہی۔‘‘ خیر میں نے ان کے کمرے میںجاکر فون اٹھایا، تو دوسری طرف راج کپور کے اسسٹنٹ،اشوک صاحب تھے، انہوںنے کہا کہ ’’حسینہ بی بی! ہم آپ کو دو سال سے تلاش کررہے ہیں، آج بڑی مشکلوں سے پی ٹی وی کا یہ نمبر ملا ہے، آپ اپنے گھر کا نمبر دیجیے، راج کپور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ خیر، میںنے اپنا نمبر دے دیا۔

پھر اسی روز رات کو راج کپور صاحب نے فون کیا اور کہا کہ ’’دیکھیے، میں نے خواجہ احمد عباس سے ایک کہانی لکھوائی ہے، ’’حنا‘‘۔ اور وہ اُس وقت تک نہیںبنے گی، جب تک آپ اس کے ڈائیلاگز نہیں لکھیں گی!!

’’حسینہ معین‘‘ کے ساتھ ایک عہد تمام ہوا
 
Top