’کیانی ہچکچاتے رہے، آپریشن کو ٹالتے رہے جس سے بہت نقصان اٹھایا‘

صائمہ شاہ

محفلین
درست۔ تو اس بات کی ضمانت کیا ہے کہ فوج انٹیلی جنس کی اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں پر حملہ کرے گی اور وہ وہاں سے بھی فرار نہیں ہو جائیں گے؟ آپ کی ہی بات کے مطابق اگر ٹھکانوں کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں تو فوج کے علم میں آئے ہوئے لشکر جھنگوی اور طالبانی ٹھکانوں کا کیا مصرف؟ اور اگر دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں سے ختم نہیں کرنا تو کہاں سے ختم کرنا ہے؟
طاقت کے زور پر طالبان و دیگر انتہا پسند عناصر کی فزیکل باڈی کو شکست دی جا سکتی ہے جس کی مدد سے وہ دہشت گردی کی مذموم کاروائیاں کرتے رہے ہیں۔
باقی یہ کہ انتہا پسند طالبانی سوچ کو طاقت سے ختم نہیں کیا جا سکتا صرف نظریے سے شکست دی جا سکتی ہے اور ایسے پر امن نظریے کے پرچار کیلئے حکومت کو علماء دین سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ تا کہ عوامی شعور بیدار ہو سکے۔ میری نظر میں معاشرے کی انتہا پسندی آنکھ جھپکتے ہی مکمل تبدیل نہیں ہو سکتی اور اس کے لیے کچھ وقت تو درکار بہرحال ہو گا ۔ اس وقت میں عوام اور قوم کی سلامتی کیلئے دہشت گردوں کی کمر توڑنا بہرحال ضروری ہے جس کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس اہتمام پر تنقید ہونی چاہئے لیکن برائے تنقید کا کوئی مفید مصرف اگر کوئی ہے تو میری سمجھ میں نہیں آتا۔
جو حملہ 2011 میں ہونا چاہیے تھا وہ 2014 میں کر کے دہشت گردوں کو وقت نہیں دیا گیا کیا ؟ اہتمام پر تنقید اس لئے کہ اہتمام واز ٹو لیٹ ، پھر بھی مجھے اس بات کی دلی خوشی ہوئی کہ آخر کوئی تو قدم اٹھایا گیا مگر اتنے سارے بے گھر بچے اور غریب لوگ دیکھ کر خوشی ماند پڑ گئی طالبان اب صرف وزیرستان تک محدود نہیں ہیں طالبانی سوچ ہر جگہ پائی جاتی ہے اور کمر توڑنے کا اہتمام بہت دیر سے کیا گیا اب تو ان کی جڑیں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔
 
جو حملہ 2011 میں ہونا چاہیے تھا وہ 2014 میں کر کے دہشت گردوں کو وقت نہیں دیا گیا کیا ؟ اہتمام پر تنقید اس لئے کہ اہتمام واز ٹو لیٹ ، پھر بھی مجھے اس بات کی دلی خوشی ہوئی کہ آخر کوئی تو قدم اٹھایا گیا مگر اتنے سارے بے گھر بچے اور غریب لوگ دیکھ کر خوشی ماند پڑ گئی طالبان اب صرف وزیرستان تک محدود نہیں ہیں طالبانی سوچ ہر جگہ پائی جاتی ہے اور کمر توڑنے کا اہتمام بہت دیر سے کیا گیا اب تو ان کی جڑیں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔

دراصل یہی وقت درست تھا اپریشن کا۔ اس وقت امریکی فوج افغانستان سے باہرجارہی ہے اور اس کو ایک محفوظ ایکزٹ چاہیے ۔ اس تحفظ کے لیے ضروری تھا کہ پاکستانی افواج اپنے علاقے میں دھشت گردوں کی پناہ گاہیں تباہ کریں اور طالبان کو کنٹرول کریں تاکہ افغانستان میں استحکام اسکے۔
6 لاکھ سے زائد بے گھر افراد کی وجہ سے ہم لوگ اس طرح کے اپریشن کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اس قسم کے اپریشن کے اثرات دوررس ہیں ۔
طالبانی سوچ اگر ہر جگہ پائی جاتی ہے تو کیا کیجیے؟ کیا ہر جگہ اپریشن کریں گی پاکستانی افواج؟ یہ ممکن نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ پاکستان میں ایک جہموری حکومت کو استحکام دیا جائے تاکہ ملک میں استحکام ائے۔ ملک میں معاشی ترقی ائے اور ملک میں امن ہے۔
اپریشن سے ممکن ہے فوری طور پر فوجی غلبہ حاصل ہوجائے اور امریکی افواج کو نکلنے کاراستہ مل جائے مگر مکمل استحکام صرف جہموری اور سیاسی طریقے سے ہی اسکتا ہے
 
pic-02.jpg

پختونوں کو صرف اسلام پسندی کی سزا مل رہی ہے یا پاکستانی ریاست کا ساتھ دینے کی
 
" پہلے جنرل اطہر عباس آپریشن نہ کرنے کی درجنوں وجوہات بیان کرتے تھے،مگر آج وہ وہی بات کررہے ہیں جس کے خلاف وہ ( دوران نوکری ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو) دلائل دیا کرتے تھے - ہمارے یہاں یہ روایت نہ جانے کب دم توڑے گی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہر اچھا کام اپنے نام منسوب کردیا جاتا ہے اور ہر ناکامی (اور خامی) کی ذمہ داردی دوسروں پر ڈال دی جاتی ہے" طلعت حسین
 
اسلام آباد (تبصرہ: انصار عباسی) یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل (ر) اطہر عباس نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے متعلق بیان کیوں دیا لیکن جنرل کیانی اور ان کی قیادت کے حوالے سے ان کے بیان کی وجہ سے فوج کے ادارے کو فائدہ ہوگا اور نہ ہی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن میں کوئی مدد ملے گی۔ انہوں نے ایک ایسے آرمی چیف کے متعلق بیان دیا جس کا جمہوریت، قانون اور آئین کی بالادستی کیلئے کردار بے مثال رہا ؛ سابق آرمی چیف نے نہ صرف فوج کو سیاست سے پاک کیا بلکہ موثر انداز سے عالمی اور علاقائی دشمنوں کے پاکستان مخصوص عزائم کو ناکارہ بنایا۔ میجر جنرل (ر) اطہر عباس نے پیر کو انکشاف کیا تھا کہ پاک فوج تین سال قبل شمالی وزیرستان میں آپریشن کیلئے تیار تھی لیکن ایسا اسلئے نہیں ہوسکا کہ جنرل کیانی اس معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں اطہر عباس نے کہا تھا کہ فوجی قیادت نے 2010 میں اس آپریشن کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا جس کے بعد ایک سال فوجی کارروائی کی تیاری کی گئی لیکن عین موقع پر جنرل کیانی کی جانب سے فیصلہ کرنے میں تذبذب کے باعث یہ آپریشن نہیں ہو سکا۔فوج میں یہ اصولی فیصلہ ہو چکا تھا کہ 2010 سے 2011 تک شمالی وزیرستان میں آپریشن کی تیاری کی جائے گی اور اسی سال یہ آپریشن کر لیا جائے گا اور اس علاقے کو شدت پسندوں سے صاف کر دیا جائے گا۔ یہ بڑی ہی عجیب بات ہے کہ فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ کیا تھا لیکن آرمی چیف تذبذب کا شکار تھے۔ فوج اپنے آرمی چیف کی مرضی کے بغیر کیسے فیصلہ کرسکتی ہے؟ فوج میں حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ فوج یا پھر ’’علاقے میں تعینات فوجی افسران‘‘ کے پاس؟ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ 11/9 کے بعد جنرل پرویزمشرف کے بھیانک یو ٹرن کی وجہ سے جس وقت پاکستان اپنے علاقائی اور بین الاقوامی دشمنوں کا ہدف بنا ہوا تھا اس وقت پاکستان اور اس کی فوج پر شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کیلئے امریکا کا زبردست دبائو تھا۔ پاکستان پر دبائو تھا کہ وہ پاکستان نواز حقانی نیٹ ورک اور دیگر طالبان گروپس کے خلاف کارروائی کرے حالانکہ ان گروپس کا ریاست پاکستان کے خلاف کارروائیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ اُن دنوں اُس وقت کی سویلین حکومت نے بھی واشنگٹن کے دبائو کے سامنے شکست تسلیم کرلی تھی اور فیصلے کے معاملے میں سب کچھ جنرل کیانی پر چھوڑ دیا تھا۔ جنرل کیانی نے اس وقت سوات اور دیگر قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع کر رکھا تھا اور انہوں نے اس وقت وضح طور پر بتا دیا تھا کہ وہ واشنگٹن کی خوشنودی کیلئے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع نہیں کریں گے اور یہ آپریشن صرف اسی صورت کیا جائے گا جب یہ اقدام پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔ اُن برسوں کے دوران نہ صرف امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا تھا بلکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی واضح کوششیں بھی ہو رہی تھیں۔ فوج کے ایک میجر جنرل کو شاید پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات کی واضح تصویر کا علم ہی نہ ہو لیکن آرمی چیف کے ذہن میں یہ سنجیدہ نوعیت کی معلومات ضرور ہوگی کہ انہوں نے امریکی صدر کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا: یعنی کہ امریکا پاکستان کو غیر مستحکم اور جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنا چاہتا ہے۔ اتنی بصیرت کے حامل آرمی چیف کس طرح یہ حقیقت کو نظرانداز کردیں گے کہ 11/9 کے بعد پاکستان کی زبردست قربانیوں کے باوجود افغانستان کو پاکستان مخالف عناصر کے ہاتھوں میں دیدیا گیا۔ زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے افغانستان میں بھارتی اثر رسوخ بھی بڑھنے دیا گیا۔ جب جنرل کیانی نے آرمی چیف کی حیثیت سے کمان سنبھالی تو انہیں متعدد چیلنجز کا سامنا تھا۔ انہیں پاک فوج کے وقار کو بحال کرنا تھا۔ انہیں فوج کو سیاست سے پاک اور جمہوری عمل کی حمایت کرنا تھی۔ سب سے اہم یہ کہ واشنگٹن کے اثر رسوخ اور اس کی پاکستان کے معاملات میں مداخلت کو روکنا تھا کیونکہ مشرف کے دور میں یہ سب بے مثال انداز سے ہو رہا تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں امریکا کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ پاکستانی فضائی اڈے امریکیوں کے حوالے کردیئے گئے تھے۔ پاکستان بھر میں کئی خفیہ ایجنٹس پھیل چکے تھے۔ جنرل کیانی کے تحت پاک فوج اور آئی ایس آئی نے تقریباً ان تمام چیزوں کو ختم کیا۔
 

x boy

محفلین
ایک اور کھیل شروع،، معرکہ صلاح الدین، طالبان کا بدلہ اور ری ایکشن شروع ہونے والا ہے، طالبان کا اعلان
یہ تو ہم پاکستانیوں کو بہت بھاری پڑجائے گا۔ عمران خان تبھی کہہ رہے تھے کہ بات چیت سے مسئلہ حل کیا جائے
اللہ امن دے ہم سب کو، آمین
 
ایک اور کھیل شروع،، معرکہ صلاح الدین، طالبان کا بدلہ اور ری ایکشن شروع ہونے والا ہے، طالبان کا اعلان
یہ تو ہم پاکستانیوں کو بہت بھاری پڑجائے گا۔ عمران خان تبھی کہہ رہے تھے کہ بات چیت سے مسئلہ حل کیا جائے
اللہ امن دے ہم سب کو، آمین
صلاح الدین ایوبی تو یہود و نصاری کے خلاف جہاد کرتے رہے، یہ طالبان ہم پاکستانیوں کو یہودی سمجھتے ہیں؟
 
صلاح الدین ایوبی ہی کے زمانے میں ایک بہت بڑی دہشت گرد قوت تھی جسکا نام تھا "حشیشین" انکے فدائین بھی تھے، انکا شیخ الجبل اور انکا قلعہ الموت۔۔۔یہ بیک وقت مسلمانوں اور عیسائی حکومتوں کیلئے درد سر بنے ہوئے تھے اور بہت سی شخصیات کو انہوں نے قتل کیا بہت دہشت پھیلائی۔۔۔آخر کار ان سب کا قلع قمع کردیا گیا بڑی مشکل سے۔آجکے دور کے حشیشین پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مورچہ بند ہیں۔۔۔وہی انکا قلعہ الموت ہے جہاں سے انکے فدائین ، مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں، انکا بھی شیخ الجبل ہے۔۔۔امید ہے جلد ہی انکا بھی قلع قمع یہاں سے کردیا جائے گا۔۔۔۔تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔
 
متفق ان کا کوئی قصور نہیں لیکن گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے

گہیوں تو نہیں پس رہا البتہ گھن ہی پس رہا ہے

اپنے ارام دہ گھر میں انٹرنیٹ پر یہ بات کرنا بہت اسان ہے کہ گھن بھی پس جاتا ہے۔ جس پس رہا ہے اس کے دل سے پوچھیں کہ گھن پس رہا ہے تو کیا حالت ہوتی ہے
 

صائمہ شاہ

محفلین
گہیوں تو نہیں پس رہا البتہ گھن ہی پس رہا ہے

اپنے ارام دہ گھر میں انٹرنیٹ پر یہ بات کرنا بہت اسان ہے کہ گھن بھی پس جاتا ہے۔ جس پس رہا ہے اس کے دل سے پوچھیں کہ گھن پس رہا ہے تو کیا حالت ہوتی ہے
خان صاحب
میرا یہ ماننا ہے کہ مجھے دی گئی ہر نعمت اللہ کی دین ہے اور اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے خواہ وہ میرا آرام دہ گھر ہو یا انٹرنیٹ اب اس کا گلہ آپ چاہیں تو اللہ سے کر سکتے ہیں اور وہ جس حال میں بھی رکھے گا میں شکر گذار ہی رہوں گی
آپ ہی نے میرے مراسلے کو پرمزاح قرار دیا تھا جب میں نے گھن کے پسنے کی شکایت کی تھی میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ شکایت کس بات کی کر رہے ہیں فوجی آپریشن کی ، مجھے دی گئی نعمتوں کی یا گھن کے پسنے کی
 
خان صاحب
میرا یہ ماننا ہے کہ مجھے دی گئی ہر نعمت اللہ کی دین ہے اور اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے خواہ وہ میرا آرام دہ گھر ہو یا انٹرنیٹ اب اس کا گلہ آپ چاہیں تو اللہ سے کر سکتے ہیں اور وہ جس حال میں بھی رکھے گا میں شکر گذار ہی رہوں گی
آپ ہی نے میرے مراسلے کو پرمزاح قرار دیا تھا جب میں نے گھن کے پسنے کی شکایت کی تھی میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ شکایت کس بات کی کر رہے ہیں فوجی آپریشن کی ، مجھے دی گئی نعمتوں کی یا گھن کے پسنے کی

اللہ آپ کو اور ہم سبکو مزید نعمتیں عطا کرے

مدعا یہ تھا کہ ہم یہ اسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ بے گھر ہوگئے اور چلو کوئی بڑی بات نہیں۔ مگر ان کے دل سے پوچھیں جن پر یہ گزررہی ہے۔ اور ان کے کوئی گناہ بھی نہیں۔
میرے مراسلات کو کبھی بھی ذاتی نہ لیں
میں شکایت کررہاہوں تو ان معصوم لوگوں کی جنھیں مجرم سمجھ کر ہر کوئی لطف لے رہا ہے۔
 
Top