’مسئلہ خوراک کی دستیابی نہیں بلکہ رسائی ہے‘

نایاب

لائبریرین
’مسئلہ خوراک کی دستیابی نہیں بلکہ رسائی ہے‘
قیصر محمود
سینیئر صحافی، کراچی

پاکستان دنیا کے ان خوش نصیب ملکوں میں ہے جو اقتصادی مشکلات کے باوجود خوراک کی ضروریات میں خودکفیل ہے مگر دیگر عوامل نے عوام کی بڑی تعداد کو بھوک مٹانے کے لیے وسائل سے محروم کر رکھا ہے۔
نیشنل نیوٹریشن سروے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں تقریباً نصف گھرانے مناسب خوراک تک رسائی سے محروم ہیں۔آخری جامع سروے دو ہزارگیارہ میں کیا گیا تھا جس میں بتایا گیا ہے کہ افراط زر، گرتی ہوئی آمدنی، قدرتی آفات اور ملکی پیداوار میں جمود اٹھارہ کروڑ آبادی کے لیے فوڈ سکیورٹی فراہم کرنے میں حائل ہیں۔
اس کے علاوہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی، ملک کے شمالی علاقوں اور جنوبی پنجاب میں شدت پسندی، بلوچستان میں بڑھتی ہوئی باغیانہ سرگرمیاں بھی صورتحال پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک یعنی ورلڈ فوڈ پروگرام نے اپنی سال دو ہزار بارہ کی رپورٹ میں پاکستان میں اجناس مثلاً گندم، چاول وغیرہ کی دستیابی اور قیمتوں میں استحکام کو تو تسلیم کیا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں ان کی قیمتیں زیادہ ہیں اور ایسے میں جب حکومت نے اس سال گندم کی امدادی قیمت بڑھا دی ہے مزید اضافہ ناگزیر ہے۔
حالیہ ہفتوں میں گندم اور آٹے کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ اس رجحان کا آئینہ دار ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافے کا اثر پاکستان میں بھی پڑے گا اورآنے والے دنوں میں مقامی قیمتیں مزید بھی بڑھ سکتی ہیں۔
مقامی میڈیا ایسی خبروں سے بھرا رہتا ہے جن میں بتایا جاتا ہے کے غربت سے تنگ شہری کس طرح اپنے بیوی، بچوں سمیت خودکشی کر رہے ہیں یا غریب اپنے بچًے فروخت کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ تو اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لیے ایدھی جیسے اداروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
ایدھی ویلفیئر سینٹر کے انوار کاظمی کہتے ہیں غربت کے مارے لوگ اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لیے ہمارے سینٹر میں چھوڑ جاتے ہیں۔
دنیا میں بھوک مٹانے اور فوڈ سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے عالمی ادارہ خوراک پیداوار بڑھانے پر زور دیتا ہے مگر پاکستان کے لیے اس کا کہنا ہے کہ یہاں مسئلہ خوراک کی دستیابی نہیں بلکہ خوراک تک رسائی کا ہے کیونکہ ملک گندم، چاول اور دیگر اجناس کی پیداوار میں خودکفیل ہے۔
سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے چیف اکنامسٹ صائم علی کا کہنا ہے کے قیمتوں کے اشاریے کو دیکھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ پانچ سال میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں نوے تا سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف عام آدمی کی آمدنی میں اس مدت میں حکومت کے مطابق صرف ایک فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
عالمی بینک کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے صائم علی نے کہا ملک کی پچیس فیصد آبادی مطلوبہ مقدار میں کیلوریز سے محروم ہے، یعنی ناکافی کیلوریز پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔
فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے رپورٹ کہا گیا ہے کہ اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر عورتیں، بچے اور ضعیف العمر لوگ ہو رہے ہیں۔ بچوں کی غذائی ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نشوونما متاثر ہو رہی ہے۔ عمر کے لحاظ سے ان کا وزن اور قد نہیں بڑھ رہا جبکہ عورتیں بھی صحت کے سنگین مسائل کا شکار ہیں۔
حالت یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ زراعت سے وابستہ چھوٹا کاشتکار بھی اپنی غذائی ضروریات خرید کر پوری کرنے پر مجبور ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کے پاکستان موجودہ صورتحال میں موثر انتظامی اقدام کے ذریعہ خوراک کی دستیابی اورخوراک تک عوام کی رسائی بہتر اور عوام کو غذائی تحفًظ ممکن بنا سکتا ہے۔
صائم علی کہتے ہیں ملک میں مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے پیش نظر حکومت کو سبسڈی دینی چاہیے تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت واپڈا، ریلوے اور پی آئی اے جیسے اداروں کو پانچ سو ارب روپے امداد دے سکتی ہے تو عوام کو بھوک سے بچانے کے لیے بھی یہ کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ ملک کے غریب ترین طبقے کی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے نقد رقم سے امداد کر رہی ہے۔اس پروگرام کے ذریعے ملک بھر میں پچپن لاکھ خاندانوں کی مدد کی جا رہی ہے جس پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔
پروگرام کے حامی اسے ضرورت مند کی براہ راست مدد قرار دیتے ہیں مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے اور ہر پاکستانی کی خوراک تک پہنچ یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہیے ورنہ غریب اور غریب ترین طبقات کی زندگی کی مشکلات برداشت سے باہر ہو جائیں گی۔
بشکریہ بی بی سی اردو
 

عسکری

معطل
آبادی کم کروووووووووووووووووووووو کیوں نہیں سمجھتے یہ لوگ جنجال پورہ کو کھلانا بہت مشکل کام ہے
 
Top