’عورتوں سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک‘

منقب سید

محفلین
141203125636_india_human_rights_watch_640x360_shantharaubarrigahumanrightswatch_nocredit.jpg

ایچ آر ڈبلیو نے بھارتی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ خواتین کی ریاستی اور نجی سہولیات کا معائنہ کرے
حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بھارت میں معذور خواتین اور لڑکیوں کو ذہنی معذوروں کے اداروں میں زبردستی داخل کروایا جاتا ہے جہاں ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ یہ خواتین گندے ماحول میں رہتی ہیں اور انھیں ہر وقت جسمانی اور جنسی تشدد کا خطرہ رہتا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو نے بھارتی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ خواتین کی ریاستی اور نجی سہولیات کا معائنہ کرے۔

حکومت نے اب تک اس رپورٹ کے نتائج کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے کیونکہ اپنی پالیسی کے طور پرحکومت ایسی رپورٹوں کا جواب نہیں دیتی۔

رپورٹ میں دسمبر سنہ 2012 سے لے کر سنہ 2014 نومبر تک بھارت کے چھ شہروں میں قائم معذور خواتین اور لڑکیوں کی زندگی کی تفصیل پیش کی گئی۔

اس رپورٹ کا نام ’جانوروں سے بھی بدتر سلوک‘ ہے اور یہ 52 خواتین اور لڑکیوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے جو ذہنی معذوروں کے ان اداروں میں رہ چکی ہیں یا رہتی ہیں۔

میرا سکول میں بھی رونے کا دل کرتا ہے۔ میں اس جگہ کو چھوڑنا چاہتی ہوں۔
ان کے ساتھ ساتھ 150 ڈاکٹر اور خاندانوں سے بھی بات کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق،گنجائش سے زیادہ خواتین کو ریاستی اداروں میں پھینک دیا جاتا ہے جو بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جہاں ذہنی طور پر بیمار اور معذور لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور بدنام کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کی مصنف کریتی شرما کا کہنا ہے کہ: ’ایک دفعہ ان لوگوں کو اندر بند کر دیا جاتا ہے تو ان کی زندگی اکثر تنہائی اور خوف میں گزرتی ہے اور ان کے پاس اس سے نکلنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ہوتا۔‘

بھارت میں معذور خواتین اور مردوں کی دیکھ بھال اکثر لاپرواہی سے کی جاتی ہے لیکن خواتین پر تشدد ہونے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں ایک 11 برس کی بچی کا کہنا تھا کہ جس ادارے میں وہ رہتی تھی وہاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ: ’مجھے سکول لے جانے والی آنٹی مجھے مارتی ہیں۔ وہ مجھے اس ادارے میں بھی مارتی ہیں اور مجھے زور سے تھپڑ مارتی ہیں۔ جب وہ مجھے مارتی ہیں تو میرا رونے کو دل چاہتا ہے اور میں اداس ہو جاتی ہوں۔ مجھے سکول میں بھی رونا آتا ہے۔ میں اس جگہ کو چھوڑنا چاہتی ہوں۔‘
لنک
 

منقب سید

محفلین
141203125636_india_human_rights_watch_640x360_shantharaubarrigahumanrightswatch_nocredit.jpg

ایچ آر ڈبلیو نے بھارتی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ خواتین کی ریاستی اور نجی سہولیات کا معائنہ کرے
حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بھارت میں معذور خواتین اور لڑکیوں کو ذہنی معذوروں کے اداروں میں زبردستی داخل کروایا جاتا ہے جہاں ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ یہ خواتین گندے ماحول میں رہتی ہیں اور انھیں ہر وقت جسمانی اور جنسی تشدد کا خطرہ رہتا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو نے بھارتی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ خواتین کی ریاستی اور نجی سہولیات کا معائنہ کرے۔

حکومت نے اب تک اس رپورٹ کے نتائج کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے کیونکہ اپنی پالیسی کے طور پرحکومت ایسی رپورٹوں کا جواب نہیں دیتی۔

رپورٹ میں دسمبر سنہ 2012 سے لے کر سنہ 2014 نومبر تک بھارت کے چھ شہروں میں قائم معذور خواتین اور لڑکیوں کی زندگی کی تفصیل پیش کی گئی۔

اس رپورٹ کا نام ’جانوروں سے بھی بدتر سلوک‘ ہے اور یہ 52 خواتین اور لڑکیوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے جو ذہنی معذوروں کے ان اداروں میں رہ چکی ہیں یا رہتی ہیں۔

میرا سکول میں بھی رونے کا دل کرتا ہے۔ میں اس جگہ کو چھوڑنا چاہتی ہوں۔
ان کے ساتھ ساتھ 150 ڈاکٹر اور خاندانوں سے بھی بات کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق،گنجائش سے زیادہ خواتین کو ریاستی اداروں میں پھینک دیا جاتا ہے جو بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جہاں ذہنی طور پر بیمار اور معذور لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور بدنام کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کی مصنف کریتی شرما کا کہنا ہے کہ: ’ایک دفعہ ان لوگوں کو اندر بند کر دیا جاتا ہے تو ان کی زندگی اکثر تنہائی اور خوف میں گزرتی ہے اور ان کے پاس اس سے نکلنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ہوتا۔‘

بھارت میں معذور خواتین اور مردوں کی دیکھ بھال اکثر لاپرواہی سے کی جاتی ہے لیکن خواتین پر تشدد ہونے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں ایک 11 برس کی بچی کا کہنا تھا کہ جس ادارے میں وہ رہتی تھی وہاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ: ’مجھے سکول لے جانے والی آنٹی مجھے مارتی ہیں۔ وہ مجھے اس ادارے میں بھی مارتی ہیں اور مجھے زور سے تھپڑ مارتی ہیں۔ جب وہ مجھے مارتی ہیں تو میرا رونے کو دل چاہتا ہے اور میں اداس ہو جاتی ہوں۔ مجھے سکول میں بھی رونا آتا ہے۔ میں اس جگہ کو چھوڑنا چاہتی ہوں۔‘
لنک
وطن عزیز میں موجود کچھ سرکاری اور غیر سرکاری ایسے اداروں میں بھی یہی صورتحال جاری ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی فقط ٹی آر پی کی خاطر ایسے ایشوز وقتی طور پر اٹھاتا ہے اور بعد میں پیسے یا دباؤ میں آ کر بات کو گول کر دیا جاتا ہے۔ خیراس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ حکومتی سطح پر قوانین تو موجود ہیں لیکن پیچیدہ نظام عدل کے باعث مجبوروں کی انصاف تک رسائی موجود نہیں ہے۔
 
Top