’عرب حکومتوں کو فرقہ واریت کے طاعون سے خطرہ‘

111221124826_al-maliki_304x171_ap_nocredit.jpg

عراقی وزیر اعظم نے امن کی اپیل کی ہے

عراق کے وزیراعظم نوری المالکی نے متنبہ کیا ہے کہ عرب حکومتوں کو ایک شدت پکڑتے ’فرقہ واریت کے طاعون‘ سے خطرہ لاحق ہے۔
ان کا یہ بیان دو ہزار گیارہ کے آخر میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد سے عراق میں تشدد کے بدترین ہفتے کے بعد سامنے آیا۔
ایک ٹی وی پر نشر کیے گئے خطاب میں وزیراعظم مالکی نے کہا کہ منگل کے بعد سے اس تشدد کے نتیجے میں دو سو کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اس تشدد کی لہر کی واپسی کو شام میں جاری تشدد سے بظاہر جوڑنے کی کوشش کی۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز کے آٹھ اہلکار دو حملوں میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
اس تشدد کے نتیجے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عراق میں فرقہ وارانہ تشدد دوبارہ شروع نہ ہو جائے۔
پچیس اپریل کو عراق کے شہر موصل میں دس پولیس اہلکار اور تیس بندوق بردار افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ملک بھر کے سنی اکثریت کے علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔
سنی اکثریت کے علاقوں میں مظاہرے منگل کے دن شروع ہوئے جب عراقی فوج نے کرکوک کے قریب ہویجا کے علاقے میں ایک کیمپ پر چھاپہ مارا۔
اس سے قبل حکومت مخالف مسلح افراد نے سنی اکثریت کے علاقے سلیمان بیگ پر حکومتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی کے بعد قبضہ کر لیا۔
عراقی وزارتِ دفاع نے بتایا تھا کہ مسلح افراد نے پولیس تھانے پر قبضہ کیا جس کے بعد بدھ کو تشدد کی مزید کارروائیوں میں چار فوجی اور بارہ دوسرے افراد ہلاک ہو گئے۔
وزیر اعظم نوری المالکی نے اس سے قبل کہا تھا کہ ’اگر فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں کوئی جیتنے یا ہارنے والا نہیں ہو گا۔ ہم سب ہارنے والے ہوں گے چاہے وہ جنوبی عراق ہو یا شمالی یا مغربی یا مشرقی عراق ہو۔‘

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 

سید ذیشان

محفلین
متفق ہوں، اس آگ میں سب جلیں گے۔ لبنان کی سول وار سے ہی عربوں کو سبق سیکھنا چاہئے تھا۔ اور عراق تو اب تھوڑا سٹیبل ہوا ہے، اب لگتا ہے کہ حالات مزید خراب ہونگے۔
 
یہاں دو سال پہلے کا کیا تذکرہ ہےo_O
دو سال پہلے کا ؛)

111221124826_al-maliki_304x171_ap_nocredit.jpg

عراقی وزیر اعظم نے امن کی اپیل کی ہے

عراق کے وزیراعظم نوری المالکی نے متنبہ کیا ہے کہ عرب حکومتوں کو ایک شدت پکڑتے ’فرقہ واریت کے طاعون‘ سے خطرہ لاحق ہے۔
ان کا یہ بیان دو ہزار گیارہ کے آخر میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد سے عراق میں تشدد کے بدترین ہفتے کے بعد سامنے آیا۔
ایک ٹی وی پر نشر کیے گئے خطاب میں وزیراعظم مالکی نے کہا کہ منگل کے بعد سے اس تشدد کے نتیجے میں دو سو کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اس تشدد کی لہر کی واپسی کو شام میں جاری تشدد سے بظاہر جوڑنے کی کوشش کی۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز کے آٹھ اہلکار دو حملوں میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
اس تشدد کے نتیجے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عراق میں فرقہ وارانہ تشدد دوبارہ شروع نہ ہو جائے۔
پچیس اپریل کو عراق کے شہر موصل میں دس پولیس اہلکار اور تیس بندوق بردار افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ملک بھر کے سنی اکثریت کے علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔
سنی اکثریت کے علاقوں میں مظاہرے منگل کے دن شروع ہوئے جب عراقی فوج نے کرکوک کے قریب ہویجا کے علاقے میں ایک کیمپ پر چھاپہ مارا۔
اس سے قبل حکومت مخالف مسلح افراد نے سنی اکثریت کے علاقے سلیمان بیگ پر حکومتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی کے بعد قبضہ کر لیا۔
عراقی وزارتِ دفاع نے بتایا تھا کہ مسلح افراد نے پولیس تھانے پر قبضہ کیا جس کے بعد بدھ کو تشدد کی مزید کارروائیوں میں چار فوجی اور بارہ دوسرے افراد ہلاک ہو گئے۔
وزیر اعظم نوری المالکی نے اس سے قبل کہا تھا کہ ’اگر فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں کوئی جیتنے یا ہارنے والا نہیں ہو گا۔ ہم سب ہارنے والے ہوں گے چاہے وہ جنوبی عراق ہو یا شمالی یا مغربی یا مشرقی عراق ہو۔‘

بہ شکریہ بی بی سی اردو

اب سمجھ آیا :) کہ مجھے غلط سمجھ آیا :)
 

ساجد

محفلین
عجب بے خبر بندے ہیں نورالمالکی صاحب ۔ ان کو ابھی تک خطرہ ہی محسوس ہو رہا ہے کہ عربوں میں فرقہ بازی کا طاعون پھیل سکتا ہے۔ حالانکہ کم و بیش 30 برس قبل ایران عراق جنگ اس طاعون کے بد ترین ثبوت کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی تھی۔ یہ وہی طاعون ہے جس نے نسلی عصبیت کے روپ میں پہلے تو خلافت کا خاتمہ کیا اور اب تک رنگ بدلتے بدلتے عرب ریاستوں کو برادرانِ یوسف کے مقام پر لا کھڑا کیا ہے ۔ حیرت ہے کہ مالکی صاحب کتنے بے خبر ہیں۔
 
Top