۔۔۔ ۔۔ کتب کا مطالعہ ؟!

باذوق

محفلین
معذرت گر میری گفتگو سے آپکو کوفت اٹھانا پڑی مگر میرا نقطہ یہ تھا کہ جب احباب بھی اس موضوع سے عدم دلچسپی کا اظہار کرچکے ہیں اور زمینی حقائق بھی یہی ہیں کہ جن ممالک میں جنسی مسائل پر باقاعدہ تعلیم کا رواج ہے وہاں بھی باوجود اس کہ کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں تو پھر آپ احباب دیگر تمام ضروری معاشرتی مسائل کو چھوڑ کر فقط اسی مسئلہ کہ کیوں در پے ہیں کیا یہ مسئلہ ہماری سوسائٹی کا سب سے سنگین مسئلہ بن چکا ہے؟
باقی شمشاد بھائی آپ کہ لیے فقط اتنا ہی کہ علم کی افادیت سے میں ہرگز انکاری نہیں ہوں ۔
اس
یہ آپ نے اچھے نکات اٹھائے۔
واقعی یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ : جن ممالک میں جنسی مسائل پر باقاعدہ تعلیم کا رواج ہے وہاں کوئی مثبت تبدیلی کیوں رونما نہیں ہوئی؟
ظاہر ہے کہیں نہ کہیں کوئی فاش غلطی ان کے ہاں راہ پا گئی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اگر ہم مذہب کی قائم کردہ پابندیوں کا بھی خیال رکھ کر گفتگو کو آگے بڑھائیں تو کوئی نہ کوئی مثبت راہ نکلنی چاہئے۔
یہاں کی گفتگو میں چند لوگ ہی حصہ لے رہے ہیں لہذا ایسا کہنا تو ذرا نامناسب ہے کہ :
احباب دیگر تمام ضروری معاشرتی مسائل کو چھوڑ کر فقط اسی مسئلہ کہ کیوں در پے ہیں

اور ہاں ! یہ بیٹھکِ مردانہ ہے :handshake:
لہذا کچھ وہ مردانہ معاشرتی مسائل بھی پیش کریں جنہیں آپ کی نظر میں "ضروری" سمجھا جاتا ہو :smile:
 

طالوت

محفلین
ویسے بھی اس " بخار " کو کہاں کہاں بیان کیا گیا ہے اور کس کس طرح بیان کیا گیا اگر بیان کر دیا جائے تو ۔ ۔ ۔ ۔
مثلا صرف ایک مثال : ہمارے یہاں ایک معروف عالم صاحب نے حوروں سے متعلق جو کتاب لکھی اور جو نقشہ کھینچا ہے قدیم علماء کے حوالے سے وہ تو "بخار" نہیں ہو گا کیونکہ موصوف کی ترسرے بٹن تک جاتی داڑھی اور ٹخنوں سے اونچی شلوار انھیں سب کچھ کہنے کا لائنسنس دیتی ہے ۔۔ اگرچہ اس جنسی تعلیم قرار نہیں دیا جا سکتا مگر حور کا جس طرح نقشہ کھینچا گیا ہے خاصہ "دلچسپ" ہے ۔۔
"ریلیونٹ" مثالیں پھر کبھی ۔۔۔
وسلام
 
میری چھوٹی سی بیمار دیہاتی سوچ سے جو چیز نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ جنسی تعلیم برائے تعلیم ہی عام کرنا مقصد ہو تو بات اور ہے اور اگر اس کا مقصد کسی قسم کی معاشرتی اصلاح ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ بچے (اور بچیاں) جب بالغ ہو جائیں تو زیادہ انتظار نہ کرکے ان کی شادی کر دی جائے۔ اس طرح وہ اپنی فطری تبدیلوں کے سبب کسی الجھن کا شکار ہونے کے بجائے اپنی فطری ضرورتوں کو محفوظ طریقے سے پورا کر سکیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ فطرت از خود ایک بہترین معلمہ ہے۔

اس کے بالمقابل خواہ دوستوں کی صحبت/بازاری لٹریچر/الیکٹرانک میڈیا سے حاصل گیان خواہ جنسی عالم/صحت کے سنہرے اصولوں پر مبنی کتابیں/بڑے بزرگوں سے حاصل شدہ محفوظ علم ہر دو صورت میں وہ تجربے ضرور کریں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ فطری ضرورت کی پکار پر لبیک ضرور کہیں گے خواہ یہی دیکھنے کے بہانے کہ کیا واقعی زہر چکھنے سے آدمی مر جاتا ہے۔

یہ اور بات ہے کہ کم عمری میں شادی کرنا ممکن نہیں دکھتا کیوں کہ تعلیمی مصروفیات حارج ہوتی ہیں۔ پر مجھے لگتا ہے کہ معاشرہ تشکیل دینے کی بات ہے۔ جب بغیر شادی کیئے بچون کی تعلیم جاری رکھی جا سکتی ہے اور اس دوران وہ اخبارات کی سرخیاں بننے کے لئے وقت نکال لیتے ہیں تو شادی کرنے کے بعد تعلیم جاری رکھنے میں کیا ہرج ہو سکتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک دو افراد ایسا کریں گے تو یقیناً معاشرہ غیر معتدل ہو جائے گا۔ اس کے باوجود مجھے لگتا ہے جنسی تعلیم عام کرنے والے پروجیکٹ میں جتنا وقت، افرادی قوت اور مواد تیار کرنے کے لئے جتنے انٹلیکچول درکار ہیں اس سے کہیں سستا آسان اور بہتر نتیجہ اس طرح تبدیلی بلکہ واپسی سے ممکن ہے۔

یہ میرا تجزیہ ہے اس کو کلی یا یا جزئی طور پر قبول کرنے پر کوئی اصرار نہیں۔ اور اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ میری سوچ میں تبدیلی نہیں آ سکتی یا میں اس کے مخالف رائے کو یکسر خارج کر دوں گا۔
 

باذوق

محفلین
اس میں بلاشبہ کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بہترین مقولہ ہے کہ : فطرت از خود ایک بہترین معلمہ ہے۔

دور حاضر میں شادی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ایک تو مناسب رشتوں کی تلاش ، دوسرے جہیز و دیگر ضروریات کے تحت اخراجات کی لمبی فہرست ، تیسرے ازدواجی ذمہ داریوں کو صحیح طور نبھانے کے حوصلے میں کمی ۔۔۔ اور بھی مزید کئی فیکٹرز ہیں۔
میری سوچ یہ ہے کہ جنسی تعلیم کو جگہ جگہ عام کرنے کی بہ نسبت ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جو نوجوان لاعلمی یا کم علمی کے سبب غلط راہ پر چل نکلتے ہیں ان کو کیسے روکا جائے؟ ان تک صحیح علم کیسے پہنچایا جائے؟ مذہب و تہذیب کے دائرے میں ان کی رہنمائی کیسے ہو؟ جیسا کہ پچھلے کسی مراسلے میں انفرادی طور پر طالوت نے اپنا تجربہ بیان کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ طالوت نے جن ویب سائیٹ/کتب کے حوالے دئے ہونگے وہ انگریزی کے ہوں گے۔ بس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہی باتیں اردو میں کیوں نہیں؟

ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی ہم "اردو" کی بات کرتے ہیں فوراً ہی اذہان "مذہب" کی طرف دوڑ جاتے ہیں۔
 
ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی ہم "اردو" کی بات کرتے ہیں فوراً ہی اذہان "مذہب" کی طرف دوڑ جاتے ہیں۔

باذوق بھائی مزیدار بات یہ ہے کہ میں نے ایک بار بھی مذہب، دین، اسلام، اللہ، رسول کا نام اپنے پچھلے مراسلے میں نہیں لیا جو کہ میری دین سے دوری کے سبب بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے جو بھی کہا وہ معاشرہ کو دماغ میں رکھ کر کہا۔ اب اگر میرے خیالات کسی مذہبی تعلیم سے کلی یا جزوی طور پر مل رہے ہوں تو اسے محض اتفاق گردانا جائے۔ ویسے بات پہونچانے کا کیا ہے کسی کو بھی کان میں بتا کر کسی اور کو نہ بتانے سے منع کر دیجئے۔ :grin:

اس کا ایک سنجیدہ طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایسے لٹریچر چھپا کر رکھنے کا ایکٹ کیجئے اور کبھی کبھار تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے کہیں چھوڑ کر اعلانیہ چار گھنٹے کے لئے باہر نکل جائیے۔ یا لائبریری کے کسی گوشے کی کتابیں پڑھنے سے منع کر کے رکھئے خود بخود پڑھ لی جائیں گی۔ برقی روابط دینے ہوں تب تو آنکھ بند کرکے ای میل کر سکتے ہیں کسی بھی اجنبی آئی ڈی سے۔ یہ سب طریقے ہو سکتے ہیں انفرادی طور پر بچوں تک ایسی باتیں پہونچانے کے۔ اور اگر آپ کو لگے یہ باتیں صیغہ راز کی ہیں ہی نہیں تو ڈنر کا وقت بہترین ہو سکتا ہے مکمل فیملی کے ساتھ پوری طرح کھل کر بات کرنے کے لئے۔

جہاں تک میرا ماننا ہے کہ بقول آپ کے اس کے اسباب میں مناسب رشتوں کے ملنے میں دقت، جہیز اور دوسرے مسائل تو ان سے لڑنا اور ان کا سد باب کرنا ہماری ترجیح ہونی چاہیئے اس کے بجائے ایک ایسی چیز جس کی افادیت غیر مصدقہ ہو اور کہیں اس کے کامیاب نتیجے کا کوئی ریکارڈ موجود نہ ہو اس کے لئے اپنی توانائیاں صرف کی جائیں۔ یہ تو ایک اور مصیبت کو گلے لگانا ہو جائے گا۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا معاشرہ ایسے تجربات کا متحمل ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ خطرناک بات یہ ہے کہ ایک بار دروازے وا ہو گئے تو اس مناسب حد کی حد مبندی کا کوئی معیار بنانے والا نہیں مل سکے گا۔
 

طالوت

محفلین
مذہب تو ہمیں کسی طور پر ان معاملات سے نہیں روکتا کیونکہ مذہب کی اساس عبادات و اخلاقیات ہیں ۔۔ اور یہ معاملہ اخلاقیات کا اہم جز ہے ۔۔ بنیادی طور پر ہم نے مذہب کو بھی اتنا "سزا پروف" بنا لیا ہے کہ کسی برائی کی سزا کا خوف ہی افراد پر باقی نہیں رہا ۔۔ ورنہ جنسی جرائم سے متعلق دنیاوی اور پھر اخروی معاملات اس قدر سخت ہیں کہ ان کا ہونا بزات خود اسے روکنے کی بہت بڑی وجہ بن سکتا ہے ۔۔
وسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
بھائی ! بات کے شروع کرنے یا نہ کرنے کے معاملے کو ہی لے کر ذرا سی گفتگو کیا ہوئی کہ آپ نے بخار میں مبتلا ہونے کا سرٹیفیکٹ جاری کر ڈالا۔ پہلے ہی احباب ہیبت کھائے ہوئے ہیں ، اب آپ کے جاری کردہ سرٹیفیکٹ کے بعد کون ایسی منفی 10 ڈگری سنٹی گریڈ میں باہر نکلنے کی ہمت کرے گا؟؟
وہ تو اس لیے کہ ابھی مردوں کی بیٹھک کو قائم ہوئے چند دن ہی ہوئے ہیں کہ یہاں پر ارسال شدہ زیادہ تر مراسلوں کا عنوان بلواسطہ یا بلاواسطہ جنس یا جنسیات سے ہے مثلا مراسلہ ہذا ۔ ۔ شادی کا لڈو اور آپ کا ارسال کردہ مراسلہ میاں بیوی اور وہ وغیرہ وغیرہ اب اسے بخار نہ کہوں تو کیا کہوں ؟ کیا مرد ہونے کا ایک ہی عنوان باقی بچا ہے کہ سر توڑ کوشش کرکے جنس پر گفتگو کی جائے ؟

جن ممالک کی آپ بات کر رہے ہیں ، ظاہر ہے اس قسم کا علم ہم فراہم نہیں کر سکتے کہ ہمارے قدموں میں مذہب اور مشرقی تہذیب و ثقافت کی زنجیریں بھی پڑی ہیں۔
اور ایک صحابی کا وہ قول تو شائد آپ کے بھی علم میں ہوگا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہم کو انسانی زندگی کے ہر مسئلہ کا علم دیا ہے۔
اس سوال کا بہترین جواب ابن سعید بھائی نے دے دیا ہے ۔ ۔ ۔



یہاں کی گفتگو میں چند لوگ ہی حصہ لے رہے ہیں لہذا ایسا کہنا تو ذرا نامناسب ہے کہ :
احباب دیگر تمام ضروری معاشرتی مسائل کو چھوڑ کر فقط اسی مسئلہ کہ کیوں در پے ہیں

اور ہاں ! یہ بیٹھکِ مردانہ ہے :handshake:

تو ہمارے مراسلے میں بھی زور آپ احباب پر تھا یعنی وہ احباب جو مصر تھے ۔ ۔ ۔۔ اور بقیہ ٹھری مرادنگی تو خدارا اسے جنسی گفتگو سے تو مشروط نہ ٹھرائیں آپ ۔ ۔ہاہاہاہاہاہا
 
Top