یہ کوئی بلا ہے کیا ہے آخر؟ ( مفعول مفاعلن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
دل ہے کہ دِیا ہے، کیا ہے آخر؟
کچھ جل تو رہا ہے، کیا ہے آخر؟

شاید یہ کمال ہجر کا ہو
کیوں درد اٹھا ہے، کیا ہے آخر؟

کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے
اُس کو جو دِکھا ہے کیا ہے آخر؟

زنجیر ہے، دام ہے، کہ شب ہے؟
وہ زلف گھٹا ہے، کیا ہے آخر؟

دیکھو تو سہی کبھی مِرا دل
یہ کوئی بلا ہے کیا ہے آخر؟

یہ درد ہے؟ دکھ ہے؟ غم ہے کوئی؟
مجھ کو جو ملا ہے کیا ہے آخر؟

قصہ تو نوید کا ہے کوئی
ہم نے بھی سنا ہے، کیا ہے آخر؟
 
دل ہے کہ دِیا ہے، کیا ہے آخر؟
کچھ جل تو رہا ہے، کیا ہے آخر؟

شاید یہ کمال ہجر کا ہو
کیوں درد اٹھا ہے، کیا ہے آخر؟

کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے
اُس کو جو دِکھا ہے کیا ہے آخر؟

زنجیر ہے، دام ہے، کہ شب ہے؟
وہ زلف گھٹا ہے، کیا ہے آخر؟

دیکھو تو سہی کبھی مِرا دل
یہ کوئی بلا ہے کیا ہے آخر؟

یہ درد ہے؟ دکھ ہے؟ غم ہے کوئی؟
مجھ کو جو ملا ہے کیا ہے آخر؟

قصہ تو نوید کا ہے کوئی
ہم نے بھی سنا ہے، کیا ہے آخر؟
بہت خوب نوید بھیا، مجھے تو بہت لطف آیا، باقی رائے بھی آجائے گی۔
بہت بہت داد قبول فرمائیں۔ واہ واہ واہ
 
دل ہے کہ دِیا ہے، کیا ہے آخر؟
کچھ جل تو رہا ہے، کیا ہے آخر؟

شاید یہ کمال ہجر کا ہو
کیوں درد اٹھا ہے، کیا ہے آخر؟

کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے
اُس کو جو دِکھا ہے کیا ہے آخر؟

زنجیر ہے، دام ہے، کہ شب ہے؟
وہ زلف گھٹا ہے، کیا ہے آخر؟

دیکھو تو سہی کبھی مِرا دل
یہ کوئی بلا ہے کیا ہے آخر؟

یہ درد ہے؟ دکھ ہے؟ غم ہے کوئی؟
مجھ کو جو ملا ہے کیا ہے آخر؟

قصہ تو نوید کا ہے کوئی
ہم نے بھی سنا ہے، کیا ہے آخر؟
بہت خوب نوید بھائی۔
بس یہ دِکھا پر غور کر لیں۔ اتنا پسند نہیں کیا جاتا اس کا استعمال۔
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل۔ ’دکھا ‘ذرا بقول تابش گراں گزرتا ہے۔
کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے
اُس کو جو مِلاہے کیا ہے آخر؟
کہہ سکتے ہیں؟
 

نوید ناظم

محفلین
درست ہے غزل۔ ’دکھا ‘ذرا بقول تابش گراں گزرتا ہے۔
کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے
اُس کو جو مِلاہے کیا ہے آخر؟
کہہ سکتے ہیں؟
بہت شکریہ سر۔۔۔۔
اس کو یوں کر دیں تو؟
کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے
کیوں اُس کا ہوا، کیا ہے آخر؟
محمد تابش صدیقی بھائی؟
 
آخری تدوین:

نوید ناظم

محفلین

الف عین

لائبریرین
لیکن
کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے
کیوں اُس کا ہوا، کیا ہے آخر؟
یہاں بھی ’کیا‘ ماضی فعل کی شکل میں آ رہا ہے!! سوالیہ ’کیا‘ محض ’کا‘ تقطیع ہو گا۔
 

نوید ناظم

محفلین
لیکن
کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے
کیوں اُس کا ہوا، کیا ہے آخر؟
یہاں بھی ’کیا‘ ماضی فعل کی شکل میں آ رہا ہے!! سوالیہ ’کیا‘ محض ’کا‘ تقطیع ہو گا۔
او اوہ ۔۔ جی سر سمجھ گیا۔۔۔۔ ابھی دیکھا یہ تو غلطی ہو گئی۔۔۔ متبادل پیش کرتا ہوں اگر بن پڑا تو، نہیں تو یہ شعر نکال ہی دوں گا۔
 

نوید ناظم

محفلین
لیکن
کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے
کیوں اُس کا ہوا، کیا ہے آخر؟
یہاں بھی ’کیا‘ ماضی فعل کی شکل میں آ رہا ہے!! سوالیہ ’کیا‘ محض ’کا‘ تقطیع ہو گا۔
سر یہاں ٹائپو بھی ہوا۔۔۔۔ یہ مصرع یوں تھا

کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے
کیوں اُس کا ہوا ہے ، کیا ہے آخر؟
امید ہے کہ اب درست ہو گا؟
 
Top