الف نظامی

لائبریرین
یہ پرچمِ جاں
(تحریک آزادی کشمیر کی نذر)​
جنت میں بھڑک رہے تھے شعلے
پھولوں کی جبیں جھلس گئی تھی

شبنم کو ترس گئی تھی شاخیں
گلزار میں‌آگ بس گئی تھی

نغموں کا جہاں تھا ریزہ ریزہ
اک وحشتِ درد کُو بکُو تھی

ہر دل تھا بجھا چراغ گویا
ہر چشمِ طلب لہو لہو تھی

میں اور میرے رفیق برسوں
خاموش و فسردہ دل کھڑے تھے

پر جاں کا زیاں قبول کس کو
منزل کے تو راستے بڑے تھے

لیکن یہ سکوتِ مرگ آسا
تا دیر نہ رہ سکا فضا میں

اک شور سا چار سمت اٹھا
کچھ مشعلیں جل اٹھیں ہوا میں

اک رقصِ جنوں ہوا ہے جاری
یہ رقصِ جنوں نہ رُک سکے گا

یہ شمعِ نوا نہ بجھ سکے گی
یہ پرچمِ جاں نہ جُھک سکے گا

شب خون از احمد فراز سے لیا گیا کلام
 

زیک

مسافر
پاکستان ہماری امیدوں کا مرکز ہے اور اس کی محبت ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے 1947 سے ہم اس کے ساتھ الحاق کے لیے تڑپ رہے ہیں ، قربانیاں دے رہے ہیں۔
سید علی گیلانی
بار بار ایک ہی متن درجن بھر لڑیوں میں اکٹھا پوسٹ کرنے کو سپیم کہتے ہیں۔
 
Top