یہ نہیں ہے کہ خواب ٹوٹ گئے ٭ راحیلؔ فاروق

یہ نہیں ہے کہ خواب ٹوٹ گئے
خود بھی خانہ خراب ٹوٹ گئے

تم تو ٹوٹے نہ لا کے غم کی تاب
لوگ لا لا کے تاب ٹوٹ گئے

توڑتے توڑتے کسی کا دل
خود نزاکت مآب ٹوٹ گئے

اس قدر تو ستم نہ ٹوٹے تھے
جس قدر آں جناب ٹوٹ گئے

رکھتے رکھتے شکستِ دل کا حساب
اہلِ دل بےحساب ٹوٹ گئے

ہاتھ رہتے ہیں ٹوٹنے ساقی
کاسہ ہائے شراب ٹوٹ گئے

نغمہ شاید زبور ہو جاتا
جھنجھنا کر رباب ٹوٹ گئے

بیٹھے دیوان جوڑنے راحیلؔ
کر کے شعر انتخاب ٹوٹ گئے

راحیلؔ فاروق​
 
Top