یہ جو قول و قرار ہے ، کیا ہے ۔ فراق گھورکھپوری

فرخ منظور

لائبریرین
یہ جو قول و قرار ہے ، کیا ہے
شک ہے یا اعتبار ہے، کیا ہے؟

یہ جو اٹھتا ہے دل میں رہ رہ کر
ابر ہے یا غبار ہے، کیا ہے؟

زیرِ لب اک جھلک تبسم کی
برق ہے یا شرار ہے، کیا ہے؟

کوئی دل کا مقام سمجھاؤ
گھر ہے یا رہ گزار ہے، کیا ہے؟

نہ کھُلا یہ کہ سامنا تیرا
دید ہے، انتظار ہے، کیا ہے؟

جس کو کہتے ہیں ہم بہارِ چمن
برگ ہے، گل ہے، خار ہے، کیا ہے

مجھ کو سب اختیار ہے لیکن
یہ جو سب اختیار ہے، کیا ہے؟

آدمی اس دیارِ ہستی میں
اک غریب الدیار ہے، کیا ہے

کاش سمجھیں اسے اگرچہ فراقؔ
یہی اک بادہ خوار ہے، کیا ہے

(رگھوپتی سہائے فراقؔ گھورکھپوری)

ونود سہگل کی آواز میں یہی غزل
 
Top