طارق شاہ

محفلین

غزل
فِراقؔ گورکھپُوری

یہ تو نہیں کہ غم نہیں!
ہاں میری آنکھ نم نہیں

تم بھی تو تم نہیں ہو آج!
ہم بھی تو آج، ہم نہیں

نشّہ سنبھالے ہےمجھے
بہکے ہُوئے قدم نہیں

قادرِ دو جہاں ہے، گو !
عشق کے دَم میں دَم نہیں

موت، اگرچہ موت ہے
موت سے زیست کم نہیں

کِس نے کہا یہ تُم سے خضر!
آبِ حیات سم نہیں

کہتے ہو دہر کو بَھرم
مُجھ کو تو یہ بَھرم نہیں

اب نہ خوشی کی ہے خوشی
غم بھی تو، اب وہ غم نہیں

میری نشست ہے زمِیں
خُلد نہیں اِرم نہیں

اور ہی ہے مقامِ دِل
دیر نہیں حرم نہیں

قیمتِ حُسنِ دو جہاں
کوئی بڑی رقم نہیں

عہدِ وَفا ہے حُسنِ یار
قول نہیں، قسم نہیں

لیتے ہیں مول دو جہاں
دام نہیں، درم نہیں

صُوم و صلٰواۃ سے فِراقؔ
میرے گُناہ کم نہیں

فِراقؔ گورکھپوری
(شری رگھوپتی سہائے)
 
Top