یہ بھی نہیں ہے لائی، وہ بھی نہیں ہے لائی

نوید اکرم

محفلین
یہ بھی نہیں ہے لائی، وہ بھی نہیں ہے لائی
طعنے ہی سن رہی ہے جب سے وہ گھر ہے آئی

آتی ہے شرم مجھ کو کہتے ہوئے اسے مرد
کھاتا ہو ڈھیٹ بن کر بیوی کی جو کمائی

بیگانے شخص کو تو اس تک کہاں پہنچ تھی!
عزت تو اس نے لوٹی سمجھی وہ جس کو بھائی

سمع و بصر سے قاصر جو سنگ و مثلِ ایں ہیں
ان کو پکارنا ہے کتنی عجب گدائی!

مسجد کو چھوڑ کر وہ بیٹھے ہیں مقبروں پر
کیونکر یوں ہو سکے گی اللہ تک رسائی!

---------

اس کے سوا تو کوئی صورت نظر نہ آئی
جب وہ نہیں ملی تو رہ بس دعا میں پائی

بھولا ہوا تھا کب سے میں تو خدا کو اپنے
یہ ہجر ہی تھا جس نے کی میری رہنمائی

حسن و جمالِ زن سے دنیا بھری پڑی ہے
پھر میرے دل میں آخر اک وہ ہی کیوں سمائی

ہے عشق کتنا آساں! وہ سامنے ہے منزل
میں پل صراط پر ہوں، نیچے ہے گہری کھائی

لگ جا گلے سے میرے اے میری جانِ جاناں!
دوری سے میرے دل میں جمنے لگی ہے کائی

اب قیدِ با مشقت کاٹیں گے عمر بھر ہم
زندانِ عشق سے تو ممکن نہیں رہائی
 

کاشف اختر

لائبریرین
عمدہ کاوش کے لئے بہت سی داد ! اچھے اشعار ہیں ! اصلاحی تبصرے تو اساتذہ ہی کریں گے ، انتظار کریں !
 

الف عین

لائبریرین
بیگانے شخص کو تو اس تک کہاں پہنچ تھی!
عزت تو اس نے لوٹی سمجھی وہ جس کو بھائی
۔۔یہاں بیگانے کی بہ نسبت اجنبی زیادہ بر محل لفظ ہو گا۔ پہلا مصرع مزید روانی بھی چاہتا ہے۔ اسے بدلیں

سمع و بصر سے قاصر جو سنگ و مثلِ ایں ہیں
ان کو پکارنا ہے کتنی عجب گدائی!
یہاں بھی اولیٰ رواں نہیں اس کے علاوہ بصر کا تلفظ بھی۔ یہ شعر نکال ہی دیا جائے تو اچھا ہے، گدائی بھی اچھا نہیں لگ رہا۔

اس کے سوا تو کوئی صورت نظر نہ آئی
جب وہ نہیں ملی تو رہ بس دعا میں پائی
۔رہ کی جگہ منزل کہو تو؟ منزل دعا میں پائی رواں ہو جاتا ہے۔

بھولا ہوا تھا کب سے میں تو خدا کو اپنے
یہ ہجر ہی تھا جس نے کی میری رہنمائی
۔۔وہی پہلے مصرعے کی نشست بدل کر رواں کرنے کی ضرورت۔

حسن و جمالِ زن سے دنیا بھری پڑی ہے
پھر میرے دل میں آخر اک وہ ہی کیوں سمائی
۔۔۔ ’وہ ہی‘ چست نہیں
کیوں پھر اسی کی صورت دل میں مرے سمائی
رواں مصرعے کی مثال


لگ جا گلے سے میرے اے میری جانِ جاناں!
دوری سے میرے دل میں جمنے لگی ہے کائی
۔۔۔ یہ محض قافئے کے استعمال کی وجہ سے کہا گیا ہے اس کو نکالا جا سکتا ہے

باقی درست ہی لگ رہے ہیں۔
 

نوید اکرم

محفلین
بیگانے شخص کو تو اس تک کہاں پہنچ تھی!
عزت تو اس نے لوٹی سمجھی وہ جس کو بھائی
۔۔یہاں بیگانے کی بہ نسبت اجنبی زیادہ بر محل لفظ ہو گا۔ پہلا مصرع مزید روانی بھی چاہتا ہے۔ اسے بدلیں

سمع و بصر سے قاصر جو سنگ و مثلِ ایں ہیں
ان کو پکارنا ہے کتنی عجب گدائی!
یہاں بھی اولیٰ رواں نہیں اس کے علاوہ بصر کا تلفظ بھی۔ یہ شعر نکال ہی دیا جائے تو اچھا ہے، گدائی بھی اچھا نہیں لگ رہا۔

اس کے سوا تو کوئی صورت نظر نہ آئی
جب وہ نہیں ملی تو رہ بس دعا میں پائی
۔رہ کی جگہ منزل کہو تو؟ منزل دعا میں پائی رواں ہو جاتا ہے۔

بھولا ہوا تھا کب سے میں تو خدا کو اپنے
یہ ہجر ہی تھا جس نے کی میری رہنمائی
۔۔وہی پہلے مصرعے کی نشست بدل کر رواں کرنے کی ضرورت۔

حسن و جمالِ زن سے دنیا بھری پڑی ہے
پھر میرے دل میں آخر اک وہ ہی کیوں سمائی
۔۔۔ ’وہ ہی‘ چست نہیں
کیوں پھر اسی کی صورت دل میں مرے سمائی
رواں مصرعے کی مثال


لگ جا گلے سے میرے اے میری جانِ جاناں!
دوری سے میرے دل میں جمنے لگی ہے کائی
۔۔۔ یہ محض قافئے کے استعمال کی وجہ سے کہا گیا ہے اس کو نکالا جا سکتا ہے

باقی درست ہی لگ رہے ہیں۔

میرے اشعار میں روانی کی مسئلہ کافی زیادہ نکلتا ہے۔ اس کو کس طرح بہتر کیا جا سکتا ہے؟ اشعار کی روانی پر تھوڑی روشنی ڈال دیں تو نوازش ہو گی۔
 

الف عین

لائبریرین
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کی باوبھرتی کے الفاظ، یعنی جن کو محض عروض اور بحر کی ضرورت کوپورا کرنے کے لئے شامل کیا جائے، غیر ضروری حروف کو گرانا یا ان کو طویل کھینچنا (جیسے تمہارے ایک مصرعے میں ’ہو تو‘ کا استعمال ہے)، جب کہ اس قسم کی خامیوں کو الفاظ کی نشست بدل کر یا الفاظ کو تبدیل کر کے درست کیا جا سکتا ہے۔، اس قسم کی غلطیاں ہیں جن سے کلام میں چستی نہیں رہتی۔ ’تو‘ کا فصیح تلفظ محض تُ ہے۔ جب کہ تو، بمعنی Thou کا ’تو‘ ۔
غالب
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے۔۔ تو Thou
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کی باتوں میں۔ تُ
 
Top