یہ بھول جا کہ ہیں تیرے بھی غم گسار بہت ٭ ریئس نیازی

یہ بھول جا کہ ہیں تیرے بھی غم گسار بہت
بنانا کاغذی پھولوں کے خشک ہار بہت

جو چشم یار ہے ہوش و خرد شکار بہت
دل و نظر پہ ہمیں بھی ہے اختیار بہت

ہم اپنے وقت کی تصویر مسخ صورت ہیں
دکھائے ہم کو نہ آئینہ روزگار بہت

خدا وہ وقت نہ لائے کہ آزمائش ہو
تعلقات تمہیں سے ہیں استوار بہت

کسی بھی شاخ پہ جب میرا آشیاں نہ ملا
چمن میں آج پھری برق بے قرار بہت

دل تباہ کی نیرنگیوں کا حال نہ پوچھ
گہے قرار بہت گاہ بے قرار بہت

حیات نازش کونین ہو تو کیا غم ہے
وہ چار دن کی سہی عمر مستعار بہت

ہمیں تو اپنی وفاؤں کا مل رہا ہے صلہ
جفا و جور پہ وہ کیوں ہیں شرمسار بہت

بہت دنوں سے اب اپنی تلاش میں گم ہیں
رئیسؔ چھان چکے خاک کوئے یار بہت

رئیس نیازی
 
Top