یک شعر

حسان خان

لائبریرین
حسان بھائی وزن پورا کرنے کے لیے است کا الف حذف کیا ہے، کیا اہسا درست نہیں، بعض فارسی اشعار میں ایسا دیکھا تو ہے؟
الف حذف کر کے بھی تلفظ میں خاص فرق نہیں آتا۔ «عجب است» اور «عجبست» میں میری نظر میں صرف طرزِ املاء کا فرق ہے۔ بہر حال، است کا الِف حذف کر کے «سَت» نہیں کیا جا سکتا۔
 

نوید ناظم

محفلین
الف حذف کر کے بھی تلفظ میں خاص فرق نہیں آتا۔ «عجب است» اور «عجبست» میں میری نظر میں صرف طرزِ املاء کا فرق ہے۔ بہر حال، است کا الِف حذف کر کے «سَت» نہیں کیا جا سکتا۔
حسان بھائی اس شعر میں الف حذف نہیں؟ آپ جانتے ہیں میں فارسی سے نا آشنا ہوں اس لیے اس شعر کو دیکھ کر ایسے کیا۔۔
شبِ قدرست و طے شد نامہ ہَجر
سَلامُ ھیّ حتَّی مطلَعِ الفجر
 

نوید ناظم

محفلین
یہاں «شبِ قدر است» اور «شبِ قدرست» دونوں طریقوں سے لکھا جا سکتا ہے، تلفّظ یکساں رہے گا یعنی: şab-e qadrast
حسان بھائی مصرعے کو یوں کر دیتا ہوں ۔۔
ایں تماشا عجب است من دیدہ ام


ایک مہربانی اور کیجیے گا۔۔۔
اگر پہلے مصرعے کو من کی تکرار سے بچنے کے لیے ایسے کر دوں تو کیا اس میں شتر گربہ تو در نہیں آئے گا؟
یاِرِ ما از نگاہِ تو من زندہ ام
 

نوید ناظم

محفلین
یہاں «شبِ قدر است» اور «شبِ قدرست» دونوں طریقوں سے لکھا جا سکتا ہے، تلفّظ یکساں رہے گا یعنی: şab-e qadrast
حسان بھائی مصرعے کو یوں کر دیتا ہوں ۔۔
ایں تماشا عجب است من دیدہ ام


ایک مہربانی اور کیجیے گا۔۔۔
اگر پہلے مصرعے کو من کی تکرار سے بچنے کے لیے ایسے کر دوں تو کیا اس میں شتر گربہ تو در نہیں آئے گا؟
یاِرِ ما از نگاہِ تو من زندہ ام
 

حسان خان

لائبریرین
ایں تماشا عجب است من دیدہ ام
اِس طرح وہ معنی نہ آئے گا جو آپ لانا چاہ رہے ہیں۔ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ: 'جو تماشا میں نے دیکھا ہے، عجب ہے'۔ جبکہ اِس مصرعے کا یہ معنی نِکل رہا ہے: 'یہ تماشا عجب ہے۔ میں دیکھ چکا ہوں'۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر پہلے مصرعے کو من کی تکرار سے بچنے کے لیے ایسے کر دوں تو کیا اس میں شتر گربہ تو در نہیں آئے گا؟
یاِرِ ما از نگاہِ تو من زندہ ام
جس چیز کو اردو شاعری میں 'شُتُر گُربہ' پُکارا جاتا ہے، اُس کو فارسی شاعری میں عیب نہیں مانا جاتا۔ لیکن، ایک ہی مصرعے میں «ما» و «من» کا استعمال خوب محسوس نہیں ہو رہا۔ مُفرَد و جمع ضمیرِ مُتکلّم کا استعمال دو مختلف مصرعوں میں ہوتا تو نامُتَجانِس و نامُتَناسِب معلوم نہ ہوتا۔
 

نوید ناظم

محفلین
جس چیز کو اردو شاعری میں 'شُتُر گُربہ' پُکارا جاتا ہے، اُس کو فارسی شاعری میں عیب نہیں مانا جاتا۔ لیکن، ایک ہی مصرعے میں «ما» و «من» کا استعمال خوب محسوس نہیں ہو رہا۔ مُفرَد و جمع ضمیرِ مُتکلّم کا استعمال دو مختلف مصرعوں میں ہوتا تو نامُتَجانِس و نامُتَناسِب معلوم نہ ہوتا۔
حسان بھائی اب دیکھیے گا۔۔۔

یاِرِ من از نگاہِ تو من زندہ ام
خوب است ایں تماشا کہ من دیدہ ام
 

نوید ناظم

محفلین
حسان بھائی گزارش ہے کہ اس شعر پر بھی عنایت فرمائیں۔۔

با شرابِ تست پارسا من شدم
زُہد یابم تُرا میکدہ دادہ ام
 

حسان خان

لائبریرین
حسان بھائی گزارش ہے کہ اس شعر پر بھی عنایت فرمائیں۔۔

با شرابِ تست پارسا من شدم
زُہد یابم تُرا میکدہ دادہ ام
نادرست اور مُہمل ہے۔

آپ کی بیت کا یہ لفظی مفہوم بن رہا ہے (جو یقیناً آپ کا مقصود نہیں ہے):
تمہاری شراب کے ساتھ ہے، پارسا مَیں ہو گیا
زُہد پاؤں، تم کو میں نے میکدہ دے دیا ہے

«تست» کا تلفظ «تُسْت» ہے، جس کو نادرست باندھا گیا ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
نادرست اور مُہمل ہے۔

آپ کی بیت کا یہ لفظی مفہوم بن رہا ہے (جو یقیناً آپ کا مقصود نہیں ہے):
تمہاری شراب کے ساتھ ہے، پارسا مَیں ہو گیا
زُہد پاؤں، تم کو میں نے میکدہ دے دیا ہے

«تست» کا تلفظ «تُسْت» ہے، جس کو نادرست باندھا گیا ہے۔
-
 
آخری تدوین:

نوید ناظم

محفلین
نہیں۔

تمہاری شراب سے میں پارسا ہو گیا = از شرابِ تو/شرابت (من) پارسا شدم
بہت شکریہ، اس میں تست کا لفظ وزن سے بھی گر رہا تھا اس لیے تدوین کر دی تھی آپ نے محبت فرماتے ہوئے جواب ارسال فرما دیا۔۔۔ ممنون ہوں کہ آپ جس شفقت سے رہنمائی فرما رہے ہیں۔
 
Top