یو ایس بائیو لوجیکل وار

جاسم محمد

محفلین
ابھی کچھ دنوں پہلے چینی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ٹویٹس میں بھی اس جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ جو بہت اہم ہے۔
2/2
پچھلی تمام عالمی وبائیں چین سے پھوٹیں لیکن اس والی کا ذمہ دار امریکہ ہے۔
ES68gSOU8AAvzRI.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
امریکہ کے وجود میں آنے سے قبل بھی عالمی وبائیں فطرتی طور پر پھوٹتی رہی ہیں۔ معلوم نہیں ان کا الزام کس کو دینا ہے۔
History-of-Pandemics-Deadliest-1-scaled.jpg
 

سید ذیشان

محفلین
یو ایس بائیولوجیکل وار
عوامی جمہوریہ چین کے شہرووہان سے شروع ہونے والا کورونا وائرس اپنے ساتھ جہاں خوف اور دہشت کی نہ ختم ہونی والی جو نت نئی کہانیاں لے کرآیا ہے‘ وہیں یہ دو بڑی عالمی قوتوں کی باہمی سیا ست اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کے نت نئے منصوبوں کے متعلق افواہوں کو بھی جنم دے رہا ہے۔ مغرب کے نقطۂ نظر کے مطا بق ‘سوشل میڈیا پر یہ کہانی پھیلائی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس کے جراثیم پھیلانے میں کسی دوسرے ملک کا ہاتھ نہیں‘ بلکہ یہ چین کا اپنا پیدا کردہ ہے‘ جس نے اس بھونچال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کو دھوکے میں رکھ کر اب تک بیس ارب ڈالر کما لیے ہیں اور تیس فیصد سے زائد سٹاک ایکسچینج کی وہ ادائیگیاں‘ جو ایسی کمپنیوں اورا داروں کے کھاتوں سے یورپی یونین اور امریکیوں کو ادا کی جانی تھیں‘ محفوظ کر لی ہیں۔
مذکورہ بالا اس کہانی کو تقویت دینے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس سے جس تیزی سے چینی یوان نیچے کی جانب گرنا شروع ہو ا‘ اسے سب دیکھ رہے تھے‘ لیکن حیران کن طور پر چین کے سنٹرل بینک نے اپنی کرنسی کی گراوٹ کی جانب رتی بھر بھی توجہ دینے کی کوشش نہ کی‘ بلکہ یہ تک سننے میں آرہا ہے کہ چین کے پاس تو کورونا وائرس سے بچائو کیلئے ماسک بھی ضرورت کے مطا بق‘ موجود نہیں تھے اور یوان کے گرنے سے سٹاک ایکسچینج کی وہ ا دائیگیاں‘جو چین کا دردسر تھیں‘ وہ چینی کرنسی گرنے سے اس حد تک سمٹ کر رہ گئیں کہ الٹا اسے فائدہ پہنچنا شروع ہو گیا‘ جبکہ روس کے کچھ اشاعتی ادارے یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ یہ بائیولوجیکل وار امریکی پلان کا حصہ ہے ‘جس سے اس نے چند دنوں میں چین کی معیشت اور دنیا بھر سے امڈنے والے سیاحتی طوفان کو منجمد کرکے اب تک چین کو پانچ ارب ڈالر سے محروم کر دیا ہے ۔
اگر امریکا پر اٹھنے والے شکوک سامنے رکھیں تو اس وقت یہ شک اس لئے بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ سے امریکا اور چین کے باہمی تجارتی حجم سے امریکی پریشان ہو چکے تھے اور امریکی صدر ٹرمپ نت نئی پابندیوں کا سہارا لینے کے با وجود اپنے مقاصد حاصل نہیں پا رہے تھے ۔ دریں اثناء بڑی چالاکی سے یہ تاثر دیاجا رہا ہے کہ کیمیکل و بائیولوجیکل وار فیئر میں امریکا کی قوت اور صلاحیت باقی دنیا سے بہت کم ہے۔ اگر امریکا میں بائیولوجیکل وار فیئر کا کھوج لگایا جائے اور امریکی رپورٹس اور مشہور محقق Larry Romanoff کے اس تناظر میں پیش کئے تجزیئے کو سامنے رکھیں تو تمام شکوک و شبہات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں‘ کیونکہ امریکا کے سرکاری اداروں‘ یونیورسٹیوں اور اس کے بہت سے دیگر تعلیمی ا داروں میں کئی دہائیوں سے بائیولوجیکل ہتھیاروں کیلئے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کیلئےRace-Specific pathogens پر سب سے زیا دہ توجہ سی جا رہی ہے اور مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔
1956ء میں امریکی افواج کو ان کے کسی بھی جنگی پلان کیلئے واضح اور غیر مبہم حکم کے ذریعے بتا دیا گیا تھاکہ بائیولوجیکل اور کیمیکل وار کو مستقبل کی کسی بھی جنگ کا بنیادی جزو سمجھا جائے اور اس کیلئے کسی بھی قسم کی مزید تشریح یا احکامات کی ضرورت نہیں‘ یہاں تک کہ کانگریس نے امریکی افواج کو First strikeکی اجا زت دے دی‘ پھر شاید کانگریس کے نئے آنے والے ارکان کو کچھ احساس ہوا اور1959ء میں اس نے فرسٹ سٹرائیک کیپشن ختم کرنے کی کوشش کی‘ لیکن وائٹ ہائوس نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے پینٹاگان کو بائیولوجیکل ہتھیاروں کیلئے مختص کئے گئے فنڈز75 ملین ڈالرسے بڑھا کر سالانہ350 ملین ڈال کر دئیے‘ جو دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کیلئے حیران کن تھا۔اس سے قبل 1948 ء میں پینٹاگان کمیٹی کی پیش کی جانے والی رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ اگر امریکا کسی بھی جگہ کوئی میزائل یا راکٹ وغیرہ گراتا ہے‘ تو اس کا صاف پتا چل سکتاہے کہ یہ کہاں سے اور کس نے پھینکا ہے ‘ لیکن اگر راکٹ اور میزائل حملوں کی بجائے کسی شہر میں اچانک وبائی امراض پھوٹ پڑیں تو کسی کا بھی دھیان نہیں جا سکتا کہ یہ کسی دوسرے کی وجہ سے پھیلی ہے اور یہ پیراگراف اس ڈی کلاسیفائیڈ رپورٹ کا حصہ ہے‘ جس میں بتایا گیا کہ امریکاNon-Fatal Viruses کیلئے کام کر رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ میکنا مارا نے1960ء کی دہائی کے آخر اوراوائل1970ء میں ایک سو پچاس سے زائد انتہائی خفیہ بائیولوجیکل ہتھیارتیار کرتے ہوئے ان کے تجربات کئے‘ جن میں کچھ امریکیوں پرآزمائے گئے تو بہت سے ویران جگہوں پر تو کچھ بیرونی ممالک میں ان کے فیلڈ ٹیسٹ کئے گئے۔ میکنا مارا نے پینٹاگان کے جائنٹ چیف آف سٹاف کو اختیار دے دیا کہ وہ ان کیمیکل ہتھیاروں اور تجربات کو امریکا کے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کیلئے وہ تمام وسائل اور طریقہ کار اختیار کرے اور اس کیلئے یہ اندازہ بھی کرنا ہو گا کہ اس کی امریکا کیلئے سیا سی قیمت اور اس کے فوائد کہاں تک جا سکتے ہیں۔2000 ء میں امریکا کیلئے نئی صدی کیلئےRe-building America's defences نام سے ایک رپورٹ تیار کی گئی‘ جس کے ایک پیرا گراف میں یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں:(ترجمہ) ''بائیولوجیکل وار فیئر کے جدید اور تیز ترین طریقے جس سے امریکا کیلئے وقتی طور پر فوجی فوائد کی بجائے سیا سی اور معاشی فائدے حاصل کئے جا سکیں گے‘‘۔
24 ستمبر2005 ء کو شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکی افواج بہت بڑی تعداد میںAnthrax ( جانوروں کو لگنے والی انتہائی مہلک بیماریوں کے جراثیم جو جانوروں سے انسانوں میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں)کی خریداری میں دلچسپی لے رہی ہے اور اس کا اقرار ڈائریکٹر آف سن شائف ڈیوڈ ہیمنڈ نے بھی کیا تھا اور اس کے ذریعے مختلف کمپنیوں سے رابطے کرتے ہوئے انہیں بڑی مقدار میں ''انتھراکس‘‘ کی فراہمی کے آرڈر دیئے گئے اور اس سلسلے میں ایک کمپنی کو دیا جانے والا کنٹریکٹ پندرہ سو لیٹر کا تھا۔ اب‘ اگر امریکا یہ تان لگاتا رہے کہ اس کا بائیولوجیکل وار فیئر سے کوئی تعلق نہیں یا وہ اس قسم کے کسی بھی پلانٹ یا تیاری میں مصروف نہیں تو اس سے ایک سیدھا سا سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ '' آپ اگر بائیولوجیکل وار میں دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی ہتھیاروں کی تیاری کر رہے ہیں تو پھر'' انتھراکس‘‘ کی اس قدر بھاری مقدار کن مقاصد کیلئے خریدی جا رہی ہیں اور امریکی صدر کینیڈی نے آج سے ساٹھ برس قبل اس مد میں بجٹ میں تین سو پچاس ملین ڈالر تک منظور کرایا‘ وہ کن مقاصد کیلئے اور تھا؟ چلیں‘ اگر امریکی یہ توضیح بھی نہیں مانتے تو پھر ان کو1994 ء کی اکائونٹ ایبلٹی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس رپورٹ کے ایک پیراگراف میں یہ کیوں پوچھا گیا ہے کہ ''یو ایس ملٹری بائیولوجیکل ڈیفنس پروگرام‘‘ جس کے کئی درجن شعبے ‘ ریسرچ سینٹرز ‘ بائیولوجیکل انٹیلی جنس جیسے ادارے ہیں‘ ان سب کے ہوتے ہوئے کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ امریکا نے اب تک کسی بھی جگہ کبھی بائیولوجیکل حملہ نہیں کیا‘ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ میری لینڈ ‘فورٹ ڈیٹرک میں امریکی افواج کا چھوت کی بیماریوں کیلئے میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم ہے‘ جہاں بائیولوجیکل اور کیمیکل وار فیئر کیلئے کام ہوتا ہے ۔
آخر میں سوالات‘ جو تاحال جواب طلب ہیں کہ کیا امریکا نے شمالی کوریا کی زراعت تباہ کرنے کی کوشش نہیں کی؟ اور کیا یہ غلط ہے کہ Plum Islandمیں امریکا برڈ فلو اور سوائن فلو جیسے وائرس کی تیاریوں میں ایک عرصے سے مصروف عمل نہیں رہا ہے؟
Extraordinary claims require extraordinary evidence.

ثبوت ندارد!
 

محمد سعد

محفلین
Extraordinary event requires extraordinary investigation of possible suspect.
سامنے تاریخی ڈیٹا موجود ہونے کے باوجود اس کو ایکسٹرا آرڈینری ایونٹ کہہ رہے ہیں جو کہ فطرت کے نظام میں ایک معمول کی بات ہے۔
ہاں اگر آپ وائرسز اور بیکٹیریا میں قدرتی طور پر ہونے والے ارتقاء سے ہی سراسر انکاری ہوں تو اور بات ہے۔
امریکہ کے وجود میں آنے سے قبل بھی عالمی وبائیں فطرتی طور پر پھوٹتی رہی ہیں۔ معلوم نہیں ان کا الزام کس کو دینا ہے۔
History-of-Pandemics-Deadliest-1-scaled.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
سامنے تاریخی ڈیٹا موجود ہونے کے باوجود اس کو ایکسٹرا آرڈینری ایونٹ کہہ رہے ہیں جو کہ فطرت کے نظام میں ایک معمول کی بات ہے۔
تاریخی ڈیٹا موجود ہونا کیا بائیو لاجیکل ویپن استعمال نہ ہونےکی دلیل ہے؟

ہاں اگر آپ وائرسز اور بیکٹیریا میں قدرتی طور پر ہونے والے ارتقاء سے ہی سراسر انکاری ہوں تو اور بات ہے۔
یہ بات میں نے کہی نہیں لہذا آپ فرض نہ کیجیے۔
 

محمد سعد

محفلین
کسی بھی دعوے کی حیثیت تب بنتی ہے جب اسے کسی طریقے سے پرکھا جا سکے۔ اس دعوے کو ہم کیسے پرکھیں گے کہ یہ درست ہے یا غلط؟
امریکہ اور چین کی باہمی کشیدگی ہی ہمارا واحد "ثبوت" نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اس سے زیادہ کی ضرورت پڑے گی۔
 

سید ذیشان

محفلین
کسی بھی دعوے کی حیثیت تب بنتی ہے جب اسے کسی طریقے سے پرکھا جا سکے۔ اس دعوے کو ہم کیسے پرکھیں گے کہ یہ درست ہے یا غلط؟
امریکہ اور چین کی باہمی کشیدگی ہی ہمارا واحد "ثبوت" نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اس سے زیادہ کی ضرورت پڑے گی۔
دوسری اور اہم بات یہ کہ بالفرض ایسا مان لیا جائے کہ یہ وائرس امریکہ کی سازش ہے، تب بھی یہ سوال اٹھتا ہے چینی اس سازش کو کیوں چھپا رہے ہیں۔ ان کو تو بہت شور مچانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا کچھ بھی چینی حکومت کی جانب سے نہیں دیکھا گیا۔ یا تو ہم پاکستانی بہت جینیس ہیں کہ چین میں ہونے والی سازش کو کمپیوٹر پر بیٹھے بیٹھے بے نقاب کر دیا یا پھر مان لیں کہ بونگیاں مارنا ہمارا مشغلہ ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
Ahmed, S. F., Quadeer, A. A., & McKay, M. R. (2020). Preliminary Identification of Potential Vaccine Targets for the COVID-19 Coronavirus (SARS-CoV-2) Based on SARS-CoV Immunological Studies. Viruses, 12(3), 254.
Preliminary Identification of Potential Vaccine Targets for the COVID-19 Coronavirus (SARS-CoV-2) Based on SARS-CoV Immunological Studies

3. Results
3.1.
Structural Proteins of SARS-CoV-2 Are Genetically Similar to SARS-CoV, but Not to MERS-CoV
SARS-CoV-2 has been observed to be close to SARS-CoV—much more so than MERS-CoV—based on full-length genome phylogenetic analysis [9,12]. We checked whether this is also true at the level of the individual structural proteins (S, E, M, and N). A straightforward reference-sequence-based comparison indeed confirmed this, showing that the M, N, and E proteins of SARS-CoV-2 and SARS-CoV have over 90% genetic similarity, while that of the S protein was notably reduced (but still high) (Figure 1a). The similarity between SARS-CoV-2 and MERS-CoV, on the other hand, was substantially lower for all proteins (Figure 1a); a feature that was also evident from the corresponding phylogenetic trees (Figure 1b). We note that while the former analysis (Figure 1a) was based on the reference sequence of each coronavirus, it is indeed a good representative of the virus population, since few amino acid mutations have been observed in the corresponding sequence data (Figure S1). It is also noteworthy that while MERS-CoV is the more recent coronavirus to have infected humans, and is comparatively more recurrent (causing outbreaks in 2012, 2015, and 2018 ), SARS-CoV-2 is closer to SARS-CoV, which has not been observed since 2004.

ایک وائرس پہلے آ چکے سارس وائرس سے لگ بھگ پوری مشابہت رکھتا ہے۔ قدرتی ماحول میں وائرسز میں اس حد تک میوٹیشنز آنا معمول کی بات ہے۔ وائرس انسانوں میں پھیلتا بھی اسی خطے میں ہے جہاں سارس کی ابتداء ہوئی تھی۔ قدرتی طور پر ایک ایسے واقعے کا ہونا اچھی طرح سمجھ آتا ہے۔ اس پر اصرار کرنا کہ یہ ایک قدرتی واقعہ ہو ہی نہیں سکتا اور لازمی اس کے پیچھے کوئی "خفیہ ہاتھ" ہے، وہی بات ہے کہ یا تو ہم بڑے جینیس ہیں کہ ریسرچ سے واقفیت پیدا کیے بغیر ہی بیٹھے بیٹھے ایک عظیم سازش کو بے نقاب کر دیا یا پھر اس کی حیثیت بونگیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔

سارس کوروناوائرس کے متعلق مزید
Lau, S. K. P., Li, K. S. M., Huang, Y., Shek, C.-T., Tse, H., Wang, M., … Yuen, K.-Y. (2010). Ecoepidemiology and Complete Genome Comparison of Different Strains of Severe Acute Respiratory Syndrome-Related Rhinolophus Bat Coronavirus in China Reveal Bats as a Reservoir for Acute, Self-Limiting Infection That Allows Recombination Events. Journal of Virology, 84(6), 2808–2819.
https://doi.org/10.1128/jvi.02219-09

The present study revealed that recombination events are common between different SARSr-Rh-BatCoV strains from different species of bats and geographical locations, which may account for the emergence of a civet SARSr-CoV capable of cross-species transmission from bats to civets and from civets to humans.
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ایک وائرس پہلے آ چکے سارس وائرس سے لگ بھگ پوری مشابہت رکھتا ہے۔ قدرتی ماحول میں وائرسز میں اس حد تک میوٹیشنز آنا معمول کی بات ہے۔ وائرس انسانوں میں پھیلتا بھی اسی خطے میں ہے جہاں سارس کی ابتداء ہوئی تھی۔ قدرتی طور پر ایک ایسے واقعے کا ہونا اچھی طرح سمجھ آتا ہے۔ اس پر اصرار کرنا کہ یہ ایک قدرتی واقعہ ہو ہی نہیں سکتا اور لازمی اس کے پیچھے کوئی "خفیہ ہاتھ" ہے، وہی بات ہے کہ یا تو ہم بڑے جینیس ہیں کہ ریسرچ سے واقفیت پیدا کیے بغیر ہی بیٹھے بیٹھے ایک عظیم سازش کو بے نقاب کر دیا یا پھر اس کی حیثیت بونگیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
باقی مراسلہ سے متفق ہوں۔ بس یہ خیار رکھیں کہ قدرتی ایک مذہبی اصطلاح ہے۔ اس کی جگہ سائنسی اصطلاح فطرتی یعنی نیچرل استعمال کر لیا کریں۔
 

ایم اے

معطل
اس سے ایک بحث یاد آگئی۔ ایک سائنسدان نما صاحب ظاہر ہے پاکستانی ہی تھے، یہ بات ہضم نہ کرسکے کہ اسلام نے جن جانوروں کو حرام قرار دیا ہے، ان سے بیماریاں پھیل سکتی ہے، لہذا ایک قوی امکان یہی ہے کہ چوں کہ چینی لوگ ہر قسم کے حرام جانور دھڑلے سے کھاتے رہتے ہیں لہذا کورونا ان کے اس غیراسلامی فعل سے ہی پھیلا ہے۔ کہنے کو تو وہ بہت کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن اسی پر اکتفا کرلیا کہ اگر ایسا ہی ہے تو اس طرح کی وبائیں پہلے کیوں نہ پھیلی جو اب اسے حرام جانوروں کے کھانے سے جوڑا جارہاہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس سے ایک بحث یاد آگئی۔ ایک سائنسدان نما صاحب ظاہر ہے پاکستانی ہی تھے، یہ بات ہضم نہ کرسکے کہ اسلام نے جن جانوروں کو حرام قرار دیا ہے، ان سے بیماریاں پھیل سکتی ہے، لہذا ایک قوی امکان یہی ہے کہ چوں کہ چینی لوگ ہر قسم کے حرام جانور دھڑلے سے کھاتے رہتے ہیں لہذا کورونا ان کے اس غیراسلامی فعل سے ہی پھیلا ہے۔ کہنے کو تو وہ بہت کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن اسی پر اکتفا کرلیا کہ اگر ایسا ہی ہے تو اس طرح کی وبائیں پہلے کیوں نہ پھیلی جو اب اسے حرام جانوروں کے کھانے سے جوڑا جارہاہے۔
جب آنکھوں پر مذہب کی پٹی کس کر بندھی ہو تو آگے پیچھے کچھ نظر نہیں آتا۔
اوپر تمام عالمی وباؤں کا تاریخی چارٹ پیش کر دیا کہ کب کب، کہاں کہاں کس کس وجہ سے عالمی وبائیں پھوٹی اور پھیلی۔ لیکن یہاں آجا کر پھر وہی ڈھیٹ پناکہ فلاں فلاں غیر اسلامی کام کی ہی وجہ سے عالمی وبا پھیل سکتی ہے۔
History-of-Pandemics-Deadliest-1-scaled.jpg
 

ایم اے

معطل
جب آنکھوں پر مذہب کی پٹی کس کر بندھی ہو تو آگے پیچھے کچھ نظر نہیں آتا۔
اوپر تمام عالمی وباؤں کا تاریخی چارٹ پیش کر دیا کہ کب کب، کہاں کہاں کس کس وجہ سے عالمی وبائیں پھوٹی اور پھیلی۔ لیکن یہاں آجا کر پھر وہی ڈھیٹ پناکہ فلاں فلاں غیر اسلامی کام کی وجہ سے ہی سے وبا پھیلتی ہے۔
History-of-Pandemics-Deadliest-1-scaled.jpg
اسی سے تو وہ بحث یاد آگئی۔
پہلے تو مجھے صرف تین وباؤں کا علم تھا لیکن اب چار اور کا علم ہوا۔
تھرڈ پلیگ۔
سارس
کووِڈ۔
ایشیئن فلُو
ہانگ کانگ فلُو
آپ کے ویژول انفو کے مطابق:
اسپینش فلُو
رشیئن فلُو۔

یعنی کم از کم 60 ملین صرف چائنہ کی وباؤں سے۔

شکریہ۔
 

ایم اے

معطل
اگر چائنہ کی آبادی کا دنیا کی آبادی سے موازنہ کیا جائے تو تقریبا 18 فیصد بنتا ہے۔
جب کہ بیس وباؤں میں چین سے شروع ہونے والی 7 وباؤں کا پرسنٹیج 35 فیصد بنتا ہے۔ جو ظاہر ہے کافی زیادہ ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اسی سے تو وہ بحث یاد آگئی۔
پہلے تو مجھے صرف تین وباؤں کا علم تھا لیکن اب چار اور کا علم ہوا۔
تھرڈ پلیگ۔
سارس
کووِڈ۔
ایشیئن فلُو
ہانگ کانگ فلُو
آپ کے ویژول انفو کے مطابق:
اسپینش فلُو
رشیئن فلُو۔

شکریہ۔
ان تمام عالمی وباؤں میں سب سے خطرناک اور جان لیوا سیاہ طاعون ثابت ہوئی۔ جو 1347 میں یورپ میں پھوٹی اور جس نے چند سال کے اندر اندر اس وقت کے یورپ کی آدھی آبادی کا مکمل صفایا کردیا۔ یہ وبا کسی غیر اسلامی افعال سے نہیں بلکہ مردہ چوہوں کو لڑنے والے پسوؤں سے انسانوں میں منتقل ہوئی تھی۔
سیاہ موت - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
 
Top