یوں زہر زندگی کا پیئے جا رہا ہوں میں ۔۔۔

ظفری

لائبریرین

یوں زہر زندگی کا پیئے جا رہاہوں میں
جیسے کوئی گناہ کیئے جا رہا ہوں میں

اپنوں سےکوئی شکوہ نہ ، غیروں سے کچھ گلہ
میری خطا تھی جس کی ملی ہے مجھے سزا
مرنے کی آرزو میں جیئے جارہا ہوں
؎
جیسے کوئی گناہ کیئے جا رہا ہوں میں

دل کے چمن میں اب نہ کبھی آئے گی بہار
ویران راستوں پر کرے کس کا انتظار
دل کو مگر فریب دیئے جا رہا ہوں
؎
جیسے کوئی گناہ کیئے جا رہا ہوں میں

دنیا کو دل کے داغ دکھانے سے فائدہ
بربادیوں کا جشن کا منانے سے فائدہ
اپنے لبوں کو خود ہی سیئے جارہا ہوں
؎
یوں زہر زندگی کا پیئے جا رہاہوں میں
جیسے کوئی گناہ کیئے جا رہا ہوں میں​
 
Top