یوں بے رخی اچھی نہیں، اچھا نہیں غصہ

اساتذہِ کرام جناب محمد یعقوب آسی صاحب و جناب الف عین صاحب اور دیگر صاحبانِ علم و محفلین سے درخواست ہے کہ غزل پہ اصلاحی نظر فرمائیں اور اپنی آرا سے زینت بخشیں
مت ہو تو پریشاں مری دزدیدہ نظر سے
میں شعلہ بد اماں ترے جلوے کے شرر سے

اے حسن کے شہکار ترا جائے ہی کیا ہے
دیکھے جو کوئی تجھ کو کھڑا راہگزر سے

اک حرف تسلی ہی تو کہنا ہے تجھے بس
گھائل ہوا جو کوئی ترے تیرِ نظر سے

یوں بے رخی اچھی نہیں، اچھا نہیں غصہ
اک بار تو دیکھا کرو جب گزرو ادھر سے

کٹتے ہیں مرے شام و سحر یاد میں تیری
اور شب ہو بسر گفتگو میں ساری، قمر سے
 
اساتذہِ کرام جناب محمد یعقوب آسی صاحب و جناب الف عین صاحب اور دیگر صاحبانِ علم و محفلین سے درخواست ہے کہ غزل پہ اصلاحی نظر فرمائیں اور اپنی آرا سے زینت بخشیں
مت ہو تو پریشاں مری دزدیدہ نظر سے
میں شعلہ بد اماں ترے جلوے کے شرر سے

اے حسن کے شہکار ترا جائے ہی کیا ہے
دیکھے جو کوئی تجھ کو کھڑا راہگزر سے

اک حرف تسلی ہی تو کہنا ہے تجھے بس
گھائل ہوا جو کوئی ترے تیرِ نظر سے

یوں بے رخی اچھی نہیں، اچھا نہیں غصہ
اک بار تو دیکھا کرو جب گزرو ادھر سے

کٹتے ہیں مرے شام و سحر یاد میں تیری
اور شب ہو بسر گفتگو میں ساری، قمر سے
یہ غزل اگر میری سابقہ گزارشات کے بعد کی کاوش ہے تو پھر میں خاموش ہوں؛ اگر پہلے کی ہے تو اس پر پہلے خود نظرثانی فرما لیجئے گا۔
چلئے یوں کرتے ہیں: آپ کے خیال کے مطابق اس غزل میں مَیں (یعنی محمد یعقوب آسیؔ) کہاں کہاں انگلی رکھ سکتا ہوں؛ مجھے یہی بتا دیجئے! تجربہ ہی سہی!
 
جناب سید عاطف علی صاحب، جناب مزمل شیخ بسمل صاحب، محترمہ ہما حمید ناز صاحبہ ، محترمی ادب دوست صاحب آپ کی آرا کا بھی بندہ منتظر ہے۔ شکریہ کا موقع عنائیت فرمائیں۔
جناب فاروق احمد صاحب ۔ یہ اچھی تخلیقی کاوش ہے ۔ کاوش کی داد تو بہر حال لازم ہے۔ سو داد قبول کیجئے ۔ آپ نے مجھے رائے پیش کرنے کا حکم دیاہے۔ تعمیل ِ ارشاد میں کچھ معروضات پیش کرتی ہوں ،
مطلع دو لخت ہے ۔ دزدیدہ نظر اور شعلہ بداماں ہونے کا باہمی تعلق واضح نہیں ہورہا۔ یہ تعلق پیدا کرنے کی ایک صورت یوں ہوسکتی ہے ۔
مت ہو تو پریشاں مری آشفتہ نظر سے
میں شعلہ بجاں ہوں ترے جلوے کے شرر سے
یا ۔ میں سوختہ جاں ہوں ترے جلوے کے شرر سے

دوسرے شعر کی زبان شستہ نہیں ۔ ایک تجویز یہ دیکھ لیجئے ؛
اے حسن کے شہکار بگڑتا ہے ترا کیا
دیکھے جو کوئی تجھ کو لب ِ راہگزر سے

تیسرے شعر میں پہلا مصرع مبہم ہے ۔ اس شعر کی روانی بھی بہتری چاہتی ہے ۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے ۔

اک حرف تسلی ہی کبھی ہم کو عطا ہو
گھائل ہوئے بیٹھے ہیں ترے تیرِ ِنظر سے

چوتھا شعر اچھا ہے ۔ ویسے اب آپ یہ راستے واستے میں بیٹھنا چھوڑ دیں اور راہ و رسم پیدا کرنے کا کوئی اور طریقہ نکالیں ۔:D

آخری شعر کا دوسرا مصرع ٹھیک نہیں ۔ الفاظ اپنی فطری ترتیب یعنی نثری ترتیب سے دور ہیں ۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے ۔
کٹتے ہیں مرے شام و سحر یاد میں تیری
رہتی ہے مری گفتگو تا صبح قمر سے

یا ۔ ۔ رہتی ہے مری گفتگو راتوں میں قمر سے

یہ میرا ناچیز تجزیہ اور تبصرہ ہے آپکی اس اچھی کاوش پر۔ امید ہے مثبت انداز میں لیں گے ۔ ڈرتے ڈرتے لکھا ہے ۔ کیونکہ میرا تجربہ رہا ہے کہ کچھ لوگ تبصرے پر یوں بدک جاتے ہیں جیسے کسی نے ان کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہو ۔ خیر مجھے آپ سے ایسی توقع نہیں ۔
آپ ضرور لکھتے رہیئے اور ہم سب سے شیئر کرتے رہیئے ۔ جہاں چاہ وہاں راہ ۔ آپ ضرورمنزلِ سخن تک پہنچ جائیں گے ۔
ناچیز

ٹیگ فاروق احمد بھٹی
 
یہ غزل اگر میری سابقہ گزارشات کے بعد کی کاوش ہے تو پھر میں خاموش ہوں؛ اگر پہلے کی ہے تو اس پر پہلے خود نظرثانی فرما لیجئے گا۔
چلئے یوں کرتے ہیں: آپ کے خیال کے مطابق اس غزل میں مَیں (یعنی محمد یعقوب آسیؔ) کہاں کہاں انگلی رکھ سکتا ہوں؛ مجھے یہی بتا دیجئے! تجربہ ہی سہی!
استادِ محترم بالکل یہ آپ کے سابقہ ارشادات کے بعد ہی کی کوشش ہے۔بلکہ دوسری کوشش ہے اس سے پہلے والی پر آپ کی آرا موصول نہ ہوئیں جن کی کمی کا احساس ہے۔اور میں نے اپنے تئیں پورے صدقِ دل سے اور اپنی انتہائی معلومات کو برؤے کار لا کر اس میں سب چیزیں درست رکھنے کی کوشش کی۔۔ کچھ چیزیں نظر ثانی میں مجھے بھی محسوس ہوئیں۔لیکن ان کو درست کرنے کی کوئی سبیل نظر نہ آئی تو پیش کردی اصلاح کی خاطر کے سیکھنے کا سلسلہ چلتا رہے۔
آپ کا خاموش رہنااپنی جگہ درست ہوگا۔ لیکن ہمارے لیے قطعا بہتری کا سبب نہیں۔
اورمیں شرمندہ ہوں کہ آپ کی توقعات کے مطابق میں اپنے لکھے میں بہتری پیدا نہیں کر پا رہا۔۔بہر حال میں اپنے تئیں پوری کوشش کر رہا ہوں ۔ اگر آپ کی شفقت شاملَ حال رہی تو منزل مل ہی جائے گی۔
 
آخری تدوین:
جناب فاروق احمد صاحب ۔ یہ اچھی تخلیقی کاوش ہے ۔ کاوش کی داد تو بہر حال لازم ہے۔سو داد قبول کیجئے ۔
شفقت فرمانے کا بہت بہت شکریہ بندہ ممنون ہے۔
آپ نے مجھے رائے پیش کرنے کا حکم دیاہے۔ تعمیل ِ ارشاد میں کچھ معروضات پیش کرتی ہوں ،
ہم نے تو عرضی پیش کی آپ کا بڑا پن اور عاجزی ہے ۔ آپ کے ارشادت میرے لیے باعث مسرت ہیں۔
مطلع دو لخت ہے ۔ دزدیدہ نظر اور شعلہ بداماں ہونے کا باہمی تعلق واضح نہیں ہورہا۔ یہ تعلق پیدا کرنے کی ایک صورت یوں ہوسکتی ہے ۔
مت ہو تو پریشاں مری آشفتہ نظر سے
میں شعلہ بجاں ہوں ترے جلوے کے شرر سے
یا ۔ میں سوختہ جاں ہوں ترے جلوے کے شرر سے
خوبصورت مصرعے عنائیت کرنے کے لیے بہت نوازش۔میں من و عن شامل کر لوں اگر آپ کی اجاز ت ہو تو؟
دوسرے شعر کی زبان شستہ نہیں ۔ ایک تجویز یہ دیکھ لیجئے ؛
اے حسن کے شہکار بگڑتا ہے ترا کیا
دیکھے جو کوئی تجھ کو لب ِ راہگزر سے
زبردست
تیسرے شعر میں پہلا مصرع مبہم ہے ۔ اس شعر کی روانی بھی بہتری چاہتی ہے ۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے ۔
اک حرف تسلی ہی کبھی ہم کو عطا ہو
گھائل ہوئے بیٹھے ہیں ترے تیرِ ِنظر سے
ڈبل زبردست۔
چوتھا شعر اچھا ہے ۔ ویسے اب آپ یہ راستے واستے میں بیٹھنا چھوڑ دیں اور راہ و رسم پیدا کرنے کا کوئی اور طریقہ نکالیں ۔:D
سب کچھ تخیلاتی ہے فقط مشق کی خاطر:):)
آخری شعر کا دوسرا مصرع ٹھیک نہیں ۔ الفاظ اپنی فطری ترتیب یعنی نثری ترتیب سے دور ہیں ۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے ۔
کٹتے ہیں مرے شام و سحر یاد میں تیری
رہتی ہے مری گفتگو تا صبح قمر سے
یا ۔ ۔ رہتی ہے مری گفتگو راتوں میں قمر سے
آپ کے دیے تمام مصرعے بہترین ہیں اگر اجازت ہو تو سب شامل کر لوں اپنی کاوش میں؟
یہ میرا ناچیز تجزیہ اور تبصرہ ہے آپکی اس اچھی کاوش پر۔ امید ہے مثبت انداز میں لیں گے ۔ ڈرتے ڈرتے لکھا ہے ۔ کیونکہ میرا تجربہ رہا ہے کہ کچھ لوگ تبصرے پر یوں بدک جاتے ہیں جیسے کسی نے ان کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہو ۔
ہم ایسوں میں سے نہیں آپ ہمارے کہے پہ بے لاگ رائے دیا کیجیے ۔۔خوش رہیں۔ اور اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔۔
خیر مجھے آپ سے ایسی توقع نہیں ۔
میرے لیے حسنِ ظن کا شکریہ
آپ ضرور لکھتے رہیئے اور ہم سب سے شیئر کرتے رہیئے ۔ جہاں چاہ وہاں راہ ۔ آپ ضرورمنزلِ سخن تک پہنچ جائیں گے ۔
ناچیز
اس قدر حوصلہ افزائی کے لیے بہت بہت شکریہ و نوازش۔۔
آپ کا محفل میں موجود ہونا ہم جیسوں کے لیے غنیمت ہے ۔ اور یقینا کسی نعمت سے کم نہیں۔
اور آپ اسی طرح اپنے علم سے روشنی ہمیں عطا کرتی رہیے۔میری کوشش رہے گی کہ میں اپنے کہے میں بہتری لا سکوں اور منزل سخن تک کا سفر طے کر سکوں

جزاک اللہ و خیرا
 
آخری تدوین:
سب کچھ تخیلاتی ہے فقط مشق کی خاطر:):)

محض تخیل پر شاعری ہو تو ظاہر ہے کمزور ہو گی۔ سرگزشت اور دل گزشت والی بات پیدا نہیں ہو سکتی۔ چلئے کچھ مشاہدہ بھی کام آتا ہے۔ مگر نرا تخیل؟ ۔۔۔ خیر! یہ آپ کا مسئلہ ہے، میرا نہیں۔
 
اگرچہ محترمہ ہما حمید ناز نے بہت جامع اور مفید گفتگو کی۔ تاہم اپنے سوال کے جواب کا منتظر ہوں
چلئے یوں کرتے ہیں: آپ کے خیال کے مطابق اس غزل میں مَیں (یعنی محمد یعقوب آسیؔ) کہاں کہاں انگلی رکھ سکتا ہوں؛ مجھے یہی بتا دیجئے! تجربہ ہی سہی!
جناب فاروق احمد بھٹی صاحب۔
 
فاروق احمد صاحب ۔ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں ۔ بھئی یہ غزل آپ کی ہے ۔ خیال آپ کا ہے اور بندشیں آپکی ہیں ۔ میں نے تو ان دو عناصر کو مجروح کئے بغیر اشعار کی بُنت میں ایک آدھ تبدیلیاں تجویز کی ہیں ۔ آپ کو بحیثیت تخلیق کار کلی اختیار ہے کہ چاہیں تو انہیں رد کردیں اور چاہیں تو اپنالیں ۔ اگر آپ انہیں اپنالیں گے تو مجھے خوشی ہوگی ۔ :):) تنقیدی نشستوں میں تخلیق پیش کرنے کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ بہت سارے آئیڈیاز مل جاتے ہیں کہ جن کی روشنی میں آپ اپنے ادب پارے کی نوک پلک سنوار سکتے ہیں ۔
 
اگرچہ محترمہ ہما حمید ناز نے بہت جامع اور مفید گفتگو کی۔ تاہم اپنے سوال کے جواب کا منتظر ہوں
جناب فاروق احمد بھٹی صاحب۔
استادِ محترم مجھ کم علم کی اتنی بساط کہاں کہ آپ کی نظر سے کسی چیز کو دیکھ سکوں۔ بہر حال الامر فوق الادب کے تحت تعمیلِ ارشاد کی کوشش کرتا ہوں۔

پہلے شعر میں دزدیدہ نظر کی ترکیب شائد غیر مانوس ہے دزدیدہ نگاہی زیادہ مستعمل نظر آتی ہے اور اس شعر کے دوسرے مصرعے میں ہوں کی کمی ہے میں شعلہ بداماں ہوں ترے جلوے ۔۔۔۔ لیکن اس طرح بحر سے خار ج ہوتا تھا او ر مطلع کچھ درست بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا غیر واضح سے محسوس ہوا۔ مگر کوشش کے باوجود نہ تو دوسرا مطلع کہہ سکا نہ ہی اس کو تبدیل کر سکا۔
دوسرے شعر میں شائد جائے ہی کیا قابلِ اعتراض ہے اس کی جگہ ۔۔۔جاتا ہی کیا ہے۔۔۔ہونا چاہیے تھا۔۔
اور آخری شعر کے دوسرے مصرعے میں تعقید لفظی ہے

اگر میرے لکھے کو پڑھ کے آپ کو مایوسی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں اس کے لیے۔

والسلام
 
خوبصورت مصرعے عنائیت کرنے کے لیے بہت نوازش۔میں من و عن شامل کر لوں اگر آپ کی اجاز ت ہو تو؟

آپ کے دیے تمام مصرعے بہترین ہیں اگر اجازت ہو تو سب شامل کر لوں اپنی کاوش میں؟

آپ کو بحیثیت تخلیق کار
فاروق احمد بھٹی بھائی میری دوستانہ رائے ہے کہ اگر ایک آدھ لفظ کی درستگی کا معاملہ ہو تو شعر رکھ لیں بصورتِ دیگر مثال آپ نے دیکھ لی ہے اب اپنا مصرع خود کہیں۔ (دوستانہ مشورہ ہے امید ہے ہما حمید ناز سے تائید کا شرف حاصل رہے گا)
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
مطلع کے بارے میں ہما حمید صاحبہ کی رائے صائب لگتی ہے ۔ دونؤں مصرعے باہم مربوط نہ ہو نے کی وجہ سے مضمون بکھررہا ہے ۔
میرے ذہن میں اس طرح کی صورت آرہی تھی ۔
میں شعلہ بد اماں ترے جلوے کے شرر سے
اور تو ہے پریشاں مری دزدیدہ نظر سے
اس طرح مطلع کا مضمون سمٹ تو جاتا ہے مگر صحیح معنی میں تغزل کو بیان میں لانے کے لیےمطلع میں اس سے بڑھکر کوئی توجہ کو پکڑنے والا پہلو ہونا چاہیے جو لطافت کا حامل ہو ۔مطلع کے لیے مضمون متحد کر نے سے بات نہیں بنتی البتہ صورت بہتر ہو جاتی ہے ۔ باقی انداز و بیان کے معاملات ثانوی ہیں اور اتنے اہم نہیں البتہ بہتر بہر حال ہو سکتے ہیں ۔ کم و بیش یہی رائے بقیہ اشعار کے بارے میں بھی ہے ماسوائے دولخت ہونے کے۔۔۔
 
مطلع کے بارے میں ہما حمید صاحبہ کی رائے صائب لگتی ہے ۔ دونؤں مصرعے باہم مربوط نہ ہو نے کی وجہ سے مضمون بکھررہا ہے ۔
میرے ذہن میں اس طرح کی صورت آرہی تھی ۔
میں شعلہ بد اماں ترے جلوے کے شرر سے
اور تو ہے پریشاں مری دزدیدہ نظر سے
اس طرح مطلع کا مضمون سمٹ تو جاتا ہے مگر صحیح معنی میں تغزل کو بیان میں لانے کے لیےمطلع میں اس سے بڑھکر کوئی توجہ کو پکڑنے والا پہلو ہونا چاہیے جو لطافت کا حامل ہو ۔مطلع کے لیے مضمون متحد کر نے سے بات نہیں بنتی البتہ صورت بہتر ہو جاتی ہے ۔ باقی انداز و بیان کے معاملات ثانوی ہیں اور اتنے اہم نہیں البتہ بہتر بہر حال ہو سکتے ہیں ۔ کم و بیش یہی رائے بقیہ اشعار کے بارے میں بھی ہے ماسوائے دولخت ہونے کے۔۔۔
بہت بہت نوازش ہے شاہ جی آپ کی ۔۔آپ نے اپنی آرا سے زینت بخشی۔جزاک اللہ۔۔خوش رہیے اور یونہی ہماری راہنمائی فرماتے رہیے۔
والسلام۔
 
استادِ محترم مجھ کم علم کی اتنی بساط کہاں کہ آپ کی نظر سے کسی چیز کو دیکھ سکوں۔ بہر حال الامر فوق الادب کے تحت تعمیلِ ارشاد کی کوشش کرتا ہوں۔

پہلے شعر میں دزدیدہ نظر کی ترکیب شائد غیر مانوس ہے دزدیدہ نگاہی زیادہ مستعمل نظر آتی ہے اور اس شعر کے دوسرے مصرعے میں ہوں کی کمی ہے میں شعلہ بداماں ہوں ترے جلوے ۔۔۔۔ لیکن اس طرح بحر سے خار ج ہوتا تھا او ر مطلع کچھ درست بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا غیر واضح سے محسوس ہوا۔ مگر کوشش کے باوجود نہ تو دوسرا مطلع کہہ سکا نہ ہی اس کو تبدیل کر سکا۔
دوسرے شعر میں شائد جائے ہی کیا قابلِ اعتراض ہے اس کی جگہ ۔۔۔جاتا ہی کیا ہے۔۔۔ہونا چاہیے تھا۔۔
اور آخری شعر کے دوسرے مصرعے میں تعقید لفظی ہے

اگر میرے لکھے کو پڑھ کے آپ کو مایوسی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں اس کے لیے۔

والسلام
آہا! پکڑے گئے نا! ۔۔ یہی میں چاہتا تھا کہ آپ خود اپنے آپ کو پکڑیں۔ بھائی جب آپ کو پتہ ہے یا اندازہ ہے (کہ اس میں فلاں فلاں فلاں جگہ پر انگلی رکھی جا سکتی ہے) تو اس سے بچنے کا بھی سوچا جا سکتا تھا بلکہ ہے۔ اس کو کہتے ہیں: "خود تنقیدی کا رویہ" یہ اپنا لیجئے۔

دزدیدہ نظر اور دزدیدہ نگاہی دونوں درست ہیں تاہم دزدیدہ نگاہی بہتر ہے کہ طرفین ایک ہی لغت سے ہوں تو ترکیب اچھی لگتی ہے۔
جائے اور جاتا ۔ لفظیات کا اپنا ایک ماحول ہوتا ہے، ایک لفظ اس پورے ماحول میں اجنبی سا لگے تو بہتر ہوتا ہے کہ آپ کوئی مانوس تر لفظ لائیں۔
تعقید (لفظی، معنوی؛ دونوں) فن کا حصہ ہے۔ ہاں یہ دھیان رہے کہ الفاظ جو بہت دور سے لا کر نہ باندھنا پڑے۔
بالعموم ہر شعر کے دونوں مصرعے معنوی سطح پر ایک دوجے سے مضبوط جڑے ہوئے ہونے چاہئیں، نہیں تو شعر بودا ہو جاتا ہے۔ ایسا بودا پن مطلع میں آ جائے تو قاری بدک جاتا ہے۔ سچی بات ہے کہ میں کہیں ایسی صورت میں پھنس جاؤں جس کا ذکر آپ نے کیا ہے تو میں مطلع کہتا ہی نہیں۔
 
یہی میں چاہتا تھا کہ آپ خود اپنے آپ کو پکڑیں۔
اپنے سوال کی تکرار اس کے جواب کے لئے اصرار کے پیچھے میرا مقصد یہ تھا کہ فاروق احمد بھٹی نام کا شاعر اور ناقد دونوں ہم قدم چلیں؛ اور بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلیں۔
قاری تو آگے کہیں جا کر ملے گا نا! ۔۔۔
 
آہا! پکڑے گئے نا! ۔۔ یہی میں چاہتا تھا کہ آپ خود اپنے آپ کو پکڑیں۔ بھائی جب آپ کو پتہ ہے یا اندازہ ہے (کہ اس میں فلاں فلاں فلاں جگہ پر انگلی رکھی جا سکتی ہے) تو اس سے بچنے کا بھی سوچا جا سکتا تھا بلکہ ہے۔ اس کو کہتے ہیں: "خود تنقیدی کا رویہ" یہ اپنا لیجئے۔

دزدیدہ نظر اور دزدیدہ نگاہی دونوں درست ہیں تاہم دزدیدہ نگاہی بہتر ہے کہ طرفین ایک ہی لغت سے ہوں تو ترکیب اچھی لگتی ہے۔
جائے اور جاتا ۔ لفظیات کا اپنا ایک ماحول ہوتا ہے، ایک لفظ اس پورے ماحول میں اجنبی سا لگے تو بہتر ہوتا ہے کہ آپ کوئی مانوس تر لفظ لائیں۔
تعقید (لفظی، معنوی؛ دونوں) فن کا حصہ ہے۔ ہاں یہ دھیان رہے کہ الفاظ جو بہت دور سے لا کر نہ باندھنا پڑے۔
بالعموم ہر شعر کے دونوں مصرعے معنوی سطح پر ایک دوجے سے مضبوط جڑے ہوئے ہونے چاہئیں، نہیں تو شعر بودا ہو جاتا ہے۔ ایسا بودا پن مطلع میں آ جائے تو قاری بدک جاتا ہے۔ سچی بات ہے کہ میں کہیں ایسی صورت میں پھنس جاؤں جس کا ذکر آپ نے کیا ہے تو میں مطلع کہتا ہی نہیں۔

اپنے سوال کی تکرار اس کے جواب کے لئے اصرار کے پیچھے میرا مقصد یہ تھا کہ فاروق احمد بھٹی نام کا شاعر اور ناقد دونوں ہم قدم چلیں؛ اور بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلیں۔
قاری تو آگے کہیں جا کر ملے گا نا! ۔۔۔
استادِ محترم آپ کی شفقت ہے آپ کے ارشادات پہ عمل کی کوشش پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے اور اسے جاری رکھوں گا۔۔انشااللہ
 
Top