یونیکوڈ صفحات از سیدہ شگفتہ

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

یونیکوڈ صفحات از سیدہ شگفتہ

مختلف اور متنوع مصروفیات کے سبب سے مجھے خود بہت کم موقع ملتا ہے لائبریری کے لیے متن ٹائپ کرنے کے لیے ۔ یہ دھاگہ اسی پس منظر میں ہے ۔ یہ دھاگہ ان اسکین صفحات سے مخصوص ہو گا جن پر میں کام کروں گی ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


از نقش و نگار در و دیوار شکستہ
آثار پدید است صنادید عجم


کتاب


آثار الصنادید

جواد الدولہ عارف جنگ ڈاکٹر سرسید احمد خاں بہادر (غفرلہ 1315ھ)
کی ابتدائی تصنیف جسکے
پہلے اور دوسرے ایڈیشن کی جُدا جُدا خوبیوں کو ایک میں مجتمع کر کے

محمد رحمت اللہ رعد نے

نامی پریس کان پُور میں چھاپا
1904ء

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

۷۸۶


حامداً و مصلیاً

۱۹۰۱ میں جبکہ سرسید کی لائف یعنی کتاب حیات جاوید نامی پریس کانپور میں چھپ رہی تھی تو میں نے اُسمیں سرسید مرحوم کی پہلی تصنیف یعنی کتاب آثار الصنادید کا بیان (جسمین شہر دہلی کی عمارت کے نقشے اور اُنکے حالات درج ہیں) پڑھا اور ساتھ ہی اشتیاق ہوا کہ اس کتاب کو دیکھوں اور اگر مککن ہو تو اپنے پریس میں چھاپوں ۔ کچھ تلاش کے بعد مجھ کو اپنے بعض مہربانوں کی عنایت سے اُسکا طبع اول جو ۱۳۶۳ھ میں چھپا تھا اور طبع ثانی جو ۱۲۷۰ مطابق ۱۸۵۴ میں چھپا تھا دستیاب ہو گیا ۔ مگر جب دونوں کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ موجودہ حیثیت میں دونوں ایڈیشن ناقص ہیں یعنی طبع اول میں اگر چہ عمارات کے نقشے اصول نقاشی کے ساتھ درج ہیں لیکن ان پر جو کتبے دکھلائے گئے ہیں وہ اصلی شان سے گرے ہوئے ہیں جو کسی کسی جگہ واقعات کے بھی خلاف ہے ۔ طبع ظانی کی عبارت اگر چہ صاف اور مورخانہ ہے جس میں ہر ایک عمارت کا کتبہ اپنے اصلی خط اور اصلی شان سے دکھلایا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مجھے بھی اس میں شامل کر لیں۔ کام جلدی ختم ہو جائے گا۔

شمشاد بھائی ، یہ مختلف عنوانات ہوں گے دراصل ۔ ابھی جس عنوان کا انتخاب کیا ہے اس کا اسکین متن ابھی اپلوڈ نہیں کیا ۔ یہ متن اپلوڈ ہو جائے تو پھر آپ کو مطلع کرتی ہوں ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 3​


آ گیا ہے لیکن جن عمارات کے کتبے اس انتظام اور اہتمام سے تیار کیے گئے ہیں سرے سے اُن عمارات کے نقشے ہی ندارند ہیں ۔ بقول ناسخ

ماہ نو ہے صورتِ ابرو ، پر اُس کے رونہیں
ماہِ کامل صورت رو ہے ، مگر ابرو نہیں

اب خوامخواہ طبیعت نے چاہا کہ آثار الصنادید کے طبع اول اور طبع ثانی کی جدا جدا خوبیوں کو ایک میں مجتمع کر کے طبع ثالث کے لیے مکمل حیثیت میں ایک نسخہ ترتیب دیا جائے چنانچہ طبع اول سے ۱۰۳۰ عمارات کے نقشے اصل کے مطابق بنوانے اور طبع ثانی سے اُن کے صحیح حالات جو مع تاریخی حوالوں کے درج تھے ، نقل کرانے شروع کر دیئے اور جب کتاب اس حد تک تیار ہو گئی تو آخر میں تمام عمارات کے کتبے جو بُدھسٹ یا جَینی یا ناگری حروف میں تھے یا بہت پرانی شان کی خط نسخ یا خط طغراط یا خط نستعلیق میں تھے عام اس سے کہ وہ ٹوٹے تھے یا مسلم تھے النقل کالاصل چربہ کرا کے شامل کیے گئے اور اس لحاظ سے کہ ہر کتبے کی اصلی صنعت ضائع نہ ہونے پائے ، طبع ثانی کی طرح طبع ثالث میں بھی التزام رکھا گیا کہ جو کتبہ کسی عمارت پر کندہ ہو وہ اس کتاب میں سیاہ حروف سے دکھلایا جائے اور جو کتبہ اپنی سطح سے اُبھرا ہو اُس کے حروف دوہرے خطوں سے بنا کر بیچ میں سفیدی چھوڑ دی جائے ، بہر حال ہر ایک احتیاط جو اپنے امکان میں تھی عمل میں لائی گئی اور اس سلسلہ انتظامی سے ایک مدت میں کتاب اختتام کی حالت
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

شمشاد بھائی ، تمام اسکین متن ایف ٹی پی اکاؤنٹ پر اپلوڈ ہو چکا ہے ۔ ان تمام صفحات کو ترتیب میں کرنا ہے ۔ کچھ صفحات میں آپ کو ایمیل میں بھیج دیئے تھے ۔ ترتیب کے لحاظ سے اب ان صفحات کو پوسٹ کرنا ہے یہاں ۔
 

شمشاد

لائبریرین
شکریہ۔

ایک تو یہ کہ میں نے اپنی ای میل دیکھی ہی نہیں۔ دوسرا یہ کہ میں کل سے دو ہفتوں کے لیے سفر پر ہوں گا تو کمپیوٹر سے دور ہوں گا۔ واپسی پر انشاء اللہ دیکھوں گا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 4​


پر پہنچائی گئی ۔

نام آواران ملک اور قوم جو دنیا سے رحلت کرنے کے بعد دہلی اور نواح دہلی میں اپنی یادگاریں چھوڑ گئے تھے ، غالبا سرسید کو اندیشہ تھا کہ اب اُن کے مٹنے کا وقت قریب آ گیا ہے ۔ قبل اس کے کہ نشانات صفحہ ہستی سے مفقود ہوں اُن کے نقشے اور نقشوں کے کتبے صفحہ قرطاس پر قائم کر کے ایک مدت دراز کے لیے محفوظ کر لی جائیں مگر غدر ۱۸۵۷ میں ان نقشوں اور کتابوں کے تلف ہو جانے پر وہ اپنے ارادہ میں پورے کامیاب نہیں ہو سکے اور بمجبوری اُن کو اپنے دوسرے ایڈیشن کے بقیہ نخے جو تلف ہونے سے بچ رہے تھے بغیر نقشوں کے شایع کر دینے پڑے ۔ لیکن اب ۱۳۲۲ھ مطابق ۱۹۰۴ میں اُس کا تیسرا ایڈیشن جمیع خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہو کر پورے پچاس برس کے بعد پھر شایع ہوا اور اس طرح سرسید مرحوم کی جانکاہ محنت جو اُن کو نو برس تک مسلسل برداشت کرنی پڑی تھی (اور جس کا ذکر آیندہ صفحات پر درج ہے) خدا کی عنایت اور مہربانی سے ٹھکانے لگی ۔

للہ الحمد ہرآن چیز کہ خاطر میخواست
آمد آخرز پسِ پردہ تقدیر پدید

محمد رحمت اللہ رعد
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

آثار الصنادید

کا ذکر ، حیات جاوید سے


اُس زمانہ میں جبکہ وہ (یعنی سرسید) دلی میں منصف تھے اُن کو عماراتِ شہر اور نواحِ شہر کی تحقیقات کا خیال ہوا ۔ ۔ ۔ سید الاخبار جو اُن کے بھائی کا جاری کیا ہوا تھا کچھ تو اس کو ترقی دینی چاہی اور کچھ عمارات دہلی کے حالات ایک کتاب کی صورت میں جمع کر کے شائع کرنے کا ارادہ کیا ۔

سرسید ہمیشہ تعطیلوں میں عماراتِ بیرون شہر کی تحقیقات کے لیے باہر جاتے تھے اور جب کئی دن کی تعطیل ہوتی تھی تو رات کو بھی باہر رہتے تھے اُن کے ساتھ اکثر اُن کے دوست اور ہمدم مولانا امام بخش صہبائی مرحوم ہوتے تھے ۔

باہر کی عمارتوں کی تحقیقات کرنی ایک نہایت مشکل کام تھا ۔ بیسیوں عمارتیں ٹُوٹ پُھوٹ کر کھنڈر ہو گئی تھیں ۔ اکثر عمارتوں کے کتبے پڑھے نہ جاتے تھے ۔ بہت سے کتبوں سے ضروری حالات معلوم نہ ہوسکتے تھے ۔ اکثر کتبے ایسے خطوں میں تھے جن سے کوئی واقف نہ تھا ۔ بعض قدیم عمارتوں کے ضروری حصے معدوم ہو گئے تھے اور جو متفرق و پراگندہ اجزا باقی رہ گئے تھے ان سے کچھ پتا نہ چلتا تھا کہ یہ عمارت کیوں بنائی گئی تھی اور اُس سے کیا مقصود تھا ۔ کتبوں میں جن بانیوں کے نام لکھے تھے اُن کا مفصل حال دریافت کرنے کے لیے تاریخوں کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت تھی ۔ بعض علمی عمارتوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کی حالت ایسی متغیر ہو گئی تھی کہ اُنکی ماہیت معلوم ہونی مشکل تھی ۔ پھر اکثر عمارتونکے عرض و طول و ارتفاع کی پیمائش کرنی ، ہر ایک عمارت کی صورتِ حال قلمبند کرنی ، کتبوں کی چربی اُتارنے اور ہر ایک کتبے کو بعینہ اُس کے اصلی خط میں دکھانا ، ہر ٹوٹی پُھوٹی عمارت کو نقشہ جوں کا توں مصور سے کھچوانا اور اس طرح کچھ اوپر سوا سو عمارتوں کی تحقیقات سے عہدہ بر آ ہونا ، فی الحقیقت نہایت دشوار کام تھا ۔ سر سید کہتے تھے کہ "قطب صاحب کی لاٹھ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہ جا سکتے تھے اُن کے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا لیا جاتا تھا اور میں خود اُوپر چڑھ کر اور چھینکے میں بیٹھ کر ہر کتبے کا چربا اُتارتا تھا ۔ جس وقت میں چھینکے میں بیٹھتا تھا تو مولانا صہبائی فرطِ محبت کے سبب بہت گھبراتے تھے اور خوف کے مارے اُن کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا ۔" سر سید کی آئندہ ترقیات کی گویا پہلی سیڑھی تھی اور اُن کی یہ حالت بالکل ابو تام کے اس شعر کے مصداق تھی ،

و یصعد حتے یظن الوری
بان لہ حاجۃ فی السماء

(یعنی وہ ایسے شوق سے اوپر چڑھ رہا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں اس کو آسمان پر کچھ کام ہے)

با وجود اس قدر مشکلات کے آثار الصنادید کا پہلا اڈیشن ڈیڑھ برس کے اندر اندر چھپ کر تیار ہو گیا ۔ اگر چہ اس اڈیشن کی عبارت قدیم طرز کی رنگینی اور مبالغہ اور تکلفات باردہ کے سبب آج کل کے مذاق کے موافق بہت پھیکی اور بے مزہ ہو گئی تھی اور اس کے سوا اس میں اور بھی بہت سی کسریں اور فر و گذاشتیں رہ گئی تھیں مگر مضمون کے لحاظ سے نہایت عبرت خیز تھی ۔ اول کے تین باب دیکھ کر سر زمین دہلی کی قدیم شان و شوکت اور عظمت کی تصویر آنکھوں کے آگے پھر جاتی ہے اور تھوڑی دیر کو دنیا سے دل سرد ہو جاتا ہے اور پچھلے باب سے دلی کا آخیر جھمکڑا آنکھوں کے رو برو آ جاتا ہے اور تعجب ہوتا ہے کہ جس شہر میں پچاس ساٹھ برس پہلے قوم کے اس قدر اہل اللہ ، اہل علم اور اہل ہنر موجود تھے آج وہاں چاروں طرف سناٹا نظر آتا ہے ۔ ۔ ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
الغرض یہ اڈیشن 1847ء میں چھپ کر شائع ہوا ۔ اُسی زمانہ میں مسٹر رابرٹس کلکٹر و مجسٹریٹ شہر شاہجہان آباد ولایت جاتے تھے ۔ وہ ایک نسخہ آثار الصنادید کا ساتھ لے گئے اور وہاں جا کر اُس کو رائل ایشایٹک سوسائٹی میں پیش کیا ۔ ممبران سوسائٹی نے اُس کو بہت پسند کیا اور کورٹ آف ڈائرکٹرز کے بعض ممبروں نے مسٹر رابرٹس سے کہا کہ اگر اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میں ہو جائے تو بہتر ہے ۔ جب مسٹر رابرٹس ولایت سے واپس آئے تو انھوں نے سرسید کی شرکت سے اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنا چاہا ۔ اُس وقت سرسید کو یہ خیال ہوا کہ جو کسریں پہلے اڈیشن میں رہ گئی ہیں اُن کی درستی اور اصلاح کی جائے ۔ چنانچہ انھوں نے کتاب پر نظر ثانی کر کے اُس کو از سر نو مرتب کیا جو کچھ ترمیم یا اصلاح یا اضافہ انھوں نے پہلے اڈیشن میں کیا ہے اُس کا مفصل ذکر طبع ثانی کے دیباچہ میں مندرج ہے ۔ بڑی خوبی اس اڈیشن میں یہ ہے کہ اس کی عبارت میں بہ نسبت پہلے اڈیشن کے نہایت سادگی ہے اور اس کا بیان ایشائی مبالغوں اور تکلفات باردہ سے بالکل پاک ہے ۔ اس اڈیشن کے لیے سرسید نے بھی نقشے از سر نو کمال اہتمام سے نہایت عمدہ تیار کرائے تھے مگر ابھی چھپنے نہ پائے تھے کہ غدر ہو گیا اور وہ سب نقشے تلف ہو گئے ۔ کچھ نقشے جو اب ملے ہیں وہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی لائبریری میں محفوظ ہیں البتہ چوتھا باب جس میں دلی کے مشاہیر کا حال لکھا گیا تھا وہ اس اڈیشن میں نہیں ہے ۔ اس ترمیم و اصلاح کے باعث در اصل مسٹر اڈورڈ طامس ہوئے تھے جو اُس وقت دلی میں سیشن جج تھے ۔ اُن کو پرانی چیزون کی تحقیقات کا نہایت شوق تھا انہی کے کہنے سے سرسید نے آثار الصنادید کو از سر نو مرتب کیا تھا ۔ یہ اڈیشن 1854ء میں چھپ کر تیار ہو گیا تھا مگر تقریبا تمام نسخے غدر میں تلف ہو گئے ۔ ۔ ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مسٹر رابرٹس کلکٹر و مجسٹریٹ دہلی نے سرسید کی شرکت سے اس کا ترجمہ کرنا شروع کیا تھا مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا کہ مسٹر رابرٹس کی دلی سے تبدیلی ہو گئی پھر معلوم نہیں کہ وہ ترجمہ پورا ہوا یا نہیں اور کسی نے اُس کا ترجمہ انگریزی میں کیا یا نہیں لیکن فرانس کے مشہور اورینٹلسٹ موسیگار سن دتاسی نے 1861ء میں اُس کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کر کے مشتہر کیا جس کی ایک جلد سرسید کو بھی بھیجی تھی اسی ترجمہ کو دیکھ کر لندن کی رائل ایشیاٹک سوسائٹی نے سرسید کو سوسائٹی مذکور کا آنریری فیلو مقرر کیا تھا چنانچہ 1864ء میں اول مسٹر رین ہولڈراسٹ سیکرٹری سوسائٹی موصوف کی چٹھی مورخہ 20 جون 1864ء سرسید کے نام اس مضمون کی پہنچی کہ "یورپ میں آپ کی کتاب کی بہت قدر کی گئی ہے اور بہ اتفاق رائے چند ممبران سوسائٹی آپ اس سوسائٹی کے آنریری ممبر مقرر ہو گئے ہین۔" اس کے بعد جو ڈپلوما سوسائٹی نے سرسید کو بھیجا اس کا ترجمہ ذیل میں لکھا جاتا ہے ۔

لندن 4 جولائی 1864ء

گریٹ برٹن اور آئر لینڈ کی رائل ایشایٹک سوسائٹی نے زیر سر پرستی موسٹ ایکسلنٹ مجسٹی وکٹوریا آج کی تاریخ سید احمد خان کو اس سوسائٹی کی آنریری ممبری کے ساتھ نامزد کیا جس کی سند میں یہ ڈپلوما اُن کو ارسال کیا جاتا ہے ۔

دستخط : اڈورڈ کول پریزیڈنٹ
دستخط : اج رالٹسن ڈائریکٹر
دستخط : رین ہولڈراسٹ سیکرٹری

------------
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آثار الصنادید

بسم اللہ الرحمن الرحیم

از نقش و نگار در و دیوار شکستہ
آثار پدید ست صنادید عجم را

سبحان اللہ اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے اس ناچیز آدمی کو کیا کیا نعمتیں عنایت کی ہیں آنکھ دی ہے ، کان دیے ہیں ، عقل دی ہے ، زبان دی ہے کہ ہر ایک بات کو دیکھ بھال کر ، سن سنا کر ، سوچ سمجھ کر کرتا ہے اور ایسی باتیں نکالتا ہے جس کو دیکھ کر لوگ حیران ششدر رہ جاتے ہیں ۔ پھر ایسے پروردگار کا شکر کب ادا ہو سکتا ہے اور اوسکی تعریف بیان کرنے سے آدمی کیونکر فارغ رہ سکتا ہے ۔ سب سے بڑا احسان اللہ صاحب کا یہ ہے کہ ہماری ہدایت کے لیے نبی بھیجے اور ہم کو گمراہی سے نکالا اور سیدھے رستے پر پہنچایا ۔ اس سے بڑا احسان یہ ہے کہ سب سے پیچھے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے ایسے نبی کو بھیجا کہ جس کی رحمت نے ہر ایک گنہگار کو گھیرا ۔ الہی جس طرح کہ ہمارے پیغمبر خدا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہم گناہگار امتوں کے حال پر رحمت کی ہے ۔ اس سے ہزار در ہزار لاکھ در لاکھ کروڑ در کروڑ زیادہ تو ان پر اور ان کی آل و اصحاب پر رحمت کر ، آمین ۔ اما بعد سید احمد خان بیٹا سید محمد متقی خان بہادر اور پوتا جوادالدولہ جواد علی خان بہادر اور نواسہ نواب دبیرالدولہ امین الملک خواجہ فریدالدین احمد خان بہادر مصلح جنگ کا یہ عرض کرتا ہے کہ ۱۲۶۳ ہجری مطابق ۱۸۴۶ عیسوی کے میں نے ایک کتاب ضلع دہلی کے مکانات کے حال میں لکھ کر چھاپی تھی ۔ اسی زمانے میں جناب مسٹر آرتہر اسٹن را برنس صاحب بہادر صاحب کلکٹر و مجسٹریٹ شاہجہان آباد ولایت انگلستان کو تشریف فرما ہوئے اور اس کتاب کو لے جا کر رویل ایشیاٹک سوسایٹی میں پیش کیا ۔ ممبران سوسایٹی نے اس کتاب کو نہاہت پسند کیا ۔ ان میں سے جناب عالی کرنیل سیکسن صاحب بہادر شریک محکمہ عالیہ کورٹ آف ڈریکٹرز نے صاحب ممدوح کو فرمایا کہ اگر اس کتاب کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہو تو بہت بہتر ہے جبکہ صاحب موصوف ولایت سے ہو کر پھر دہلی میں تشریف لائے تو انھوں نے اس خاکسار کی شرکت سے اس کتاب کا ترجمہ کرنا شروع کیا ۔ اس وقت یہ بات خیال میں آئی کہ اگر از سر نو یہ کتاب بہت اچھی طرح سے مرتب کی جائے اور خرابیاں کہ پہلی کتاب میں ہو گئی ہیں وہ سب درست کی جائیں تو بہت اچھی بات ہے ۔ الحمد للہ کہ خدائے تعالی نے اس آرزو کو پورا کیا اور جس طرح دل چاہتا تھا اسی طرح پر یہ کتاب پوری ہوئی ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پہلی کتاب سے یہ کتاب بہت باتوں میں اچھی ہے ۔


(۱) اس کتاب کو پہلا باب جس میں مختصر ہندوستان کی آبادی اور پُرانی اور نئی عملداریوں کا ذکر ہے ، پہلی کتاب میں نہ تھا ۔

(۲) پہلی کتاب کے دوسرے باب میں صرف شاہجہان آباد کے قلعہ کا ذکر تھا اس کتاب کے دوسرے باب میں اس قلعہ کا بھی پہلی کتاب سے بہتر بیان ہے اور علاوہ اس کے ابتدائے آبادی سے آج تک جس قدر قلعہ اور نئے شہر بسے ان سب کا بھی ذکر ہے ۔

(۳) پہلی کتاب کے پہلے اور تیسرے باب میں جس قدر مطالب تھے وہ سب اس کتاب کے تیسرے باب میں اکٹھے ہیں بلکہ بعض پُرانے مکانات کا اور حال جو دریافت ہوا وہ زیادہ ہے ۔

(۴) پہلی کتاب میں دو نقص تھے ایک یہ کہ بعض پرانے مکانات کا اصلی حال دریافت نہ ہوا تھا ، دوسرے یہ کہ پہلی کتاب میں بعضی جگہ بیان حالات میں کچھ غلطی ہو گئی تھی اس کتاب میں یہ دونوں نقص دور کیے گئے ۔

(۵) پہلی کتاب میں عمارات کا بیان متفرق اور غیر منتظم تھا ۔ اب کی دفعہ سب عمارات کا حال بہ ترتیبِ سالِ بنا انتظام سے لکھا گیا ۔

(۶) پہلی کتاب میں جو حال بیان کیا گیا تھا اس کی سند نہ تھی ۔ اب کی کتاب میں جو حال لکھا گیا ہے اکثر اس کی سند کے لیے نام اس کتاب تاریخ کا جس سے وہ حال لکھا گیا حاشیے پر مندرج ہے ۔


(۷) بڑی عمدہ بات اس حال کی کتاب میں یہ ہے کہ جس قدر کتبے پُرانی عمارتوں پر ہیں وہ سب اصلی قطع اور اصلی خط کے مطابق اس کتاب میں مندرج ہیں ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اور یہ فہرست ہے ان کتابوں کی جن سے یہ مرتب ہوئی ۔


توریت مقدس
راجا دلی
خلاصتہ التواریخ
سلسلۃ الملوک
مہا بھارت
بھاگوت
آئین اکبری
جغرافیہ
تاج المآثر
تاریخ فرشتہ
توزک جہانگیری
اکبرنامہ
پوتھی اندر پرست مہاتم
مرآت آفتاب نمار نزہت القلوب
جواہر الحروف
غالب التواریخ
نہ سپہر
تاریخ ہدایت اللہ خان
تاریخ فیروز شاہی
ضیائے برنی
توزک تیموری
ابطال ضرورت
خزائن الفتوح یعنی تاریخ علائی
تاریخ شیخ عبدالحق
فتوحات فیروز شاہی
اخبار الاخیار
تاریخ فیروز شاہی
شمس سراج عفیف
ظفر نامہ تیموری
شاہجہان نامہ
کتاب ارکیوٹیکل سوسایٹی بنگال نمبر ۳ ، ۴ ، ۶ ، ۷
کتاب رویل ایشیاٹک سوسایٹی نمبر۶
ہفت اقلیم
تاریخ کشمیر
پوتھی ہای بھاٹ
تقویم البلدان
قصیدہ ہمزیہ
مآثر الامرا
مآثر عالمگیری
زیچ محمد شاہی
مار کندی پوران
ابوالفدا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میں کمال شکر ادا کرتا ہوں اور نہایت احسان مند ہوں جناب عالی کرنیل شکشن صاحب بہادر دام اقبالہ اور جناب مسٹر ارتہت رابرنس صاحب بہادر دام اقبالہ کا کہ یہ کتاب ان دونوں صاحبوں کی قدر دانی اور رئیس پروری سے تصنیف ہوئی جو ایک ذریعہ ہے افتخار کا اور وسیلہ ہے یادگاری اس گمنام کا ۔

اور میں نہایت شکر ادا کرتا ہوں جناب مسٹر ایڈورڈ تھامس صاحب بہادر دام اقبالہ کا کہ یہ کتاب صرف صاحب ممدوح کی مدد اور اعانت اور عالی ہمتی اور قدر دانی سے چھاپ ہوئی اور ہر شخص دور و نزدیک کے لیے اس کا فائدہ عام ہوا ۔

فہرست ابواب کتاب

پہلا باب دہلی کی عملداریوں کے مختصر باب میں
دوسرا باب دہلی میں قلعوں کے بَنے اور شہرون کے آباد ہونے کے بیان میں ۔
تیسرا باب بادشاہوں اور امیرون کی متفرق بنائی ہوئی عمارتوں کے بیان میں ۔
خاتمہ اردو زبان کے نکلنے اور مروج ہونے کی بیان میں ۔
تتمہ کتبہ جات مکانات کہنہ میں ۔
 
Top