یوم ولادت۔ مرزا اسد اللہ خان غالب

آج دنیا ئے سخن وری کے مہتاب اور لازوال شاعر "مرزا اسد اللہ خان غالب" کا یوم ولادت ہے۔
آیئے اہل ذوق اس دھاگے میں اس عظیم اور لازوال شاعر کے یوم ولادت پر اپنا پسندیدہ کلام یا شعر شریک کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کریں۔

پیدائشی نام : اسد اللہ بیگ خاں

قلمی نام : مرزا غالب

تخلص : اسد ، غالب

ولادت : 27 دسمبر 1797ء، آگرہ​

وفات : 15 فروری 1869ء​
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور


مرزا غالب(1797-1869)اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔

ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔غالباً ً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔



مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ 27 دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ءمیں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔



شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے ۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ءمیں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا ، اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔



غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ءکے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان
کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا۔


میرا پسندیدہ کلام !


پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا

دل، جگر تشنۂ فریاد آیا



دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز

پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا



سادگی ہائے تمنا، یعنی

پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا



عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل!

نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا



زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی

کیوں ترا راہ گزر یاد آیا



کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی

گھر ترا خلد میں گر یاد آیا



آہ وہ جرأتِ فریاد کہاں

دل سے تنگ آکے جگر یاد آیا



پھر تیرے کوچے کو جاتا ہے خیال

دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا



کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا



میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد

سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
 
Top