یہ ہے کیسا شورِ محشر کیسی بدلی ارض ہے
اگ رہی ہے فصلِ انس لہد کی ہر کوکھ سے
مردہ تھے ہم تو یہ زندہ آج کیسے ہوگئے
دیکھا جو یوں ہر طرف اوسان اپنے کھو گئے
اک کھلا میدان ہے اور ہر طرف آہو بکاہ
ہے کہاں کس کی یہ منزل آج کس کو ہے پتا
جان کر انجان بنتے برہنہ یہ لوگ ہیں
مٹ چکے ماں باپ اور کھو گئے کہیں پر دوست ہیں
آج مڑ کے دیکھتا اپنی حیاتِ مختصر
ہاتھ خالی ہیں مرے ہے کچھ نہیں دینے کو
یاد ہیں وہ راستے تاریکیاں وہ سب مزے
جن اندھیرے راستوں کے ہم ہی خود پتھر بنے
ڈھونڈتا ہوں ہر طرف مدھم سی کوئی روشنی
ڈوبتا ہے دل مرا ہے ہر طرف ویرانی سی
پارسایٔ کے وہ دعوے بندگی میں کاہلی
اب جو یاد آتی ہے مجھ کو آج اپنی کاہلی
کیسے لاؤں روشنی جو نورِ نیکی ہی نہیں
ماسوا تاریکی دل میں کچھ بھی دکھتا ہے نہیں
اپنے دامن سے یہاں داغِ ندامت گر رہے
زندگی بھر راستے پر نفس کے چلتے رہے
کیا عجب دن آیا ہے شمس و قمر گرہن ہوئے
کیا فرشتوں سے گلہ اعضاء گردن زن ہوئے
بے یقینی کے سمے اپنے پرائے ہو گئے
جن پہ تکیہ تھ وہ نفسا نفسی میں ہی کھو گئے
رات ہے تاریک کس بھی سمت کیسے بڑھوں میں
دم بخود ہوں بس کھڑا اب آگے کیسے بڑھوں میں
جس طرف ہوں دیکھتا بس آگ کا اک دریا ہے
پھٹ پڑیں دل جس سے کیسا ہر طرف وہ شور ہے
ڈھونڈتا ہوں ہر طرف رستہ کوئی ملتا نہیں
جل چکا ہوں آگ میں سایہ کوئی ملتا نہیں
وزن میں جو کچھ نہیں بس وہ مرے اعمال ہیں
کل اثاثہ ہے مرا چند اشکِ انفعال ہیں
مانا قابل تو شفاعت مُجْتَبٰی بالکل نہیں
ہوں ترا بندہ ہی نا امید رحمت بھی نہیں
اگ رہی ہے فصلِ انس لہد کی ہر کوکھ سے
مردہ تھے ہم تو یہ زندہ آج کیسے ہوگئے
دیکھا جو یوں ہر طرف اوسان اپنے کھو گئے
اک کھلا میدان ہے اور ہر طرف آہو بکاہ
ہے کہاں کس کی یہ منزل آج کس کو ہے پتا
جان کر انجان بنتے برہنہ یہ لوگ ہیں
مٹ چکے ماں باپ اور کھو گئے کہیں پر دوست ہیں
آج مڑ کے دیکھتا اپنی حیاتِ مختصر
ہاتھ خالی ہیں مرے ہے کچھ نہیں دینے کو
یاد ہیں وہ راستے تاریکیاں وہ سب مزے
جن اندھیرے راستوں کے ہم ہی خود پتھر بنے
ڈھونڈتا ہوں ہر طرف مدھم سی کوئی روشنی
ڈوبتا ہے دل مرا ہے ہر طرف ویرانی سی
پارسایٔ کے وہ دعوے بندگی میں کاہلی
اب جو یاد آتی ہے مجھ کو آج اپنی کاہلی
کیسے لاؤں روشنی جو نورِ نیکی ہی نہیں
ماسوا تاریکی دل میں کچھ بھی دکھتا ہے نہیں
اپنے دامن سے یہاں داغِ ندامت گر رہے
زندگی بھر راستے پر نفس کے چلتے رہے
کیا عجب دن آیا ہے شمس و قمر گرہن ہوئے
کیا فرشتوں سے گلہ اعضاء گردن زن ہوئے
بے یقینی کے سمے اپنے پرائے ہو گئے
جن پہ تکیہ تھ وہ نفسا نفسی میں ہی کھو گئے
رات ہے تاریک کس بھی سمت کیسے بڑھوں میں
دم بخود ہوں بس کھڑا اب آگے کیسے بڑھوں میں
جس طرف ہوں دیکھتا بس آگ کا اک دریا ہے
پھٹ پڑیں دل جس سے کیسا ہر طرف وہ شور ہے
ڈھونڈتا ہوں ہر طرف رستہ کوئی ملتا نہیں
جل چکا ہوں آگ میں سایہ کوئی ملتا نہیں
وزن میں جو کچھ نہیں بس وہ مرے اعمال ہیں
کل اثاثہ ہے مرا چند اشکِ انفعال ہیں
مانا قابل تو شفاعت مُجْتَبٰی بالکل نہیں
ہوں ترا بندہ ہی نا امید رحمت بھی نہیں