مبارکباد یومِ محبت (ویلنٹائن ڈے) مبارک

فاتح

لائبریرین
جی جی میں ہی قصوروار ہوں ، سب میرا ہی دوش ہے۔ ;)

مجھے شک پہلے ہی تھا کہ فاتح کے اس دھاگے پر آخر میں زیر دام میں ہی آ جاؤں گا اور وہی ہوا۔
جی جی ہر انسان کو اپنے کرتوتوں کا علم ہوتا ہے اور اسے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ ان کرتوتوں کے باعث میں زیرِ دام (عتاب) آ جاؤں گا۔
 

سارہ خان

محفلین
تم نے ہی پتھر گرا گرا کر اس اچھی بھلی سڑک کو تنگ کیا تھا۔۔۔ ہم لوگوں نے مل ملا کر تمھارے گرائے ہوئے پتھر ہٹا کر اسے دوبارہ شاہراہِ عام بنایا ہے۔ ;)
پتھر اٹھانے کے لئے آپ کو محبت کا ہی سہارا لینا پڑا ۔۔۔ اور پیٹیں ڈھنڈورا محبت سے نفرت کا ۔۔:p
 

صائمہ شاہ

محفلین
ہم لوگوں نے مل ملا کر تمھارے گرائے ہوئے پتھر ہٹا کر اسے دوبارہ شاہراہِ عام بنایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر بھی کمزور دل حضرات اس سے گریز ھی کریں تو بہتر ھے
 
جی جی ہر انسان کو اپنے کرتوتوں کا علم ہوتا ہے اور اسے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ ان کرتوتوں کے باعث میں زیرِ دام (عتاب) آ جاؤں گا۔

اب میں کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ تم تو نکلے ہوئے اس مشن پر کہ میں تو ہوں بدنام تم کیوں رہو نیک نام ;)
 
جس کا دماغ خراب ہو، جس کی عقل میں فتور ہو یا خلل زدہ دماغ کے حامل کو اور کیا کہا جاتا ہے؟اسے کیا کہیے گا کہ
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ​
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی​
اور​
بیکاریِ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل​
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی​
یا اسے کہ "زبسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے"

دراصل ایک جانب غالب کے مندرجہ بالا اشعار اور ذیل کا شعر ہے کہ جس کا ہم نے حوالہ دیا یعنی
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل​
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

جب کہ دوسری جانب سلیم کوثر کا شعر ہے جس میں پیش کردہ نظریے کو آپ نے اپنے مراسلے میں شامل کیا یعنی
عالمِ ذات میں درویش بنا دیتا ہے​
عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا
ہم سلیم کوثر کے گرویدہ یقیناً ہیں لیکن بیعت ہم نے غالب کی ہی کی ہے اور جب دو نظریات میں سے ایک کے انتخاب کا مرحلہ آ جائے تو ہندوستان کی مقدس کتاب دیوان غالب ہی ہمارا مسلک ٹھہرتا ہے لہٰذا عشق کرنےو الے دماغ کو فتور یا خلل زدہ مانتے ہیں۔
بہرحال۔۔۔
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے​
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا​
اہل محبت کا مسلک تو ہمیشہ ایک ہی ہوا کرتا ہے ہے جو کہغالب سے بھی یہ کہلوا جاتا ہے کہ
لیے جاتا ہے کہیں ایک توقع غالب
جادہ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
غالب
جو ہر نفرت کو محبت میں بدل دے وہ خللل نہیں کر سکتی ۔۔۔
میں محبت ہوں، مجھے آتا ہے نفرت کا علاج
تم ہر اک شخص کے سینے میں مرا دل رکھ دو
عاصی کرنالی
سلیم کوثر کا یہ کلام تو کیا خوبصورت پہلو سمیٹتا ہے
اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

 

فاتح

لائبریرین
اہل محبت کا مسلک تو ہمیشہ ایک ہی ہوا کرتا ہے ہے جو کہغالب سے بھی یہ کہلوا جاتا ہے کہ
لیے جاتا ہے کہیں ایک توقع غالب
جادہ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
یا
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
غالب
جو ہر نفرت کو محبت میں بدل دے وہ خللل نہیں کر سکتی ۔۔۔
میں محبت ہوں، مجھے آتا ہے نفرت کا علاج
تم ہر اک شخص کے سینے میں مرا دل رکھ دو
عاصی کرنالی
سلیم کوثر کا یہ کلام تو کیا خوبصورت پہلو سمیٹتا ہے
اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

لیے جاتی ہے کہیں ایک توقّع غالب​
جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو​
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے​
آپ نے خوب لکھا ہے عشق و محبت کے موضوع پر عمدہ اشعار اکٹھا کیے ہیں اور ہم مانتے ہیں کہ انسان اس جذبے کا اسیر بن جاتا ہے لیکن ہمارے گذشتہ مراسلے میں آپ کے سابقہ خیال سے تھوڑا سا ہٹ کر صرف ایک اختلافی نکتہ اٹھایا گیا تھا کہ عشق دراصل دماغ کی خرابی، خلل یا جنون کی کیفیت کو کہا جاتا ہے اور عاشقان جنونی، پاگل اور مجنون ہوا کرتے ہیں اور اسی نکتے کی تصدیق میں غالب کے اشعار درج کیے تھے۔ آپ کے جواب میں کہیں کسی شعر سے اس نظریے کی تردید نہیں ہو رہی۔
اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا

کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا​
سلیم کوثر نے جن پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے ان کی ایک سادہ سی توجیہ یہ ہے کہ نیند، وقت، دل اور رنگ یہ تمام چیزیں اور ان کے زیاں کا احساس تو عاقلوں اور با شعور افراد کے لیے معنی رکھتا ہے جب کہ عشق کرو اور پھر دیکھو ایسے جنونی ہو جاؤ گے کہ یہ تمام جذبے اور اشیاء یا تو چھن جائیں گے یا بے وقعت اور ہیچ ہو جائیں گے اور ان کے زیاں کا احساس و شعور ہی جاتا رہے گا۔
میں محبت ہوں، مجھے آتا ہے نفرت کا علاج
تم ہر اک شخص کے سینے میں مرا دل رکھ دو​
اب آتے ہیں عاصی کرنالی کے شعر کی جانب تو عاصی کرنالی نے اس میں ایک دعویٰ کیا ہے کہ "وہ محبت ہیں اور انھیں نفرت کا علاج آتا ہے" لیکن انھوں نے اپنے اس دعوے کی صداقت کو پرکھنے کے کوئی دلیل یا توجیہ پیش نہیں کی اور تجربہ بھی ایسا کرنے کو کہا جو ممکن ہی نہیں یعنی "ہر ایک شخص کے سینے میں ان کا دل لگا دیا جائے" اور یوں ان کے دعوے کی صداقت ثابت نہیں ہوتی۔
 

فاتح

لائبریرین
اور اہل کراچی کا تو یہ شیوہ ہے ٹارگٹ ڈوھنڈنا ۔۔ ہونا یا کرنا
اس فلسفے کے مطابق تو تمام دنیا کے لوگ ہمارے گرائیں یعنی اہلِ کراچی ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن جو شے فی الحقیقت ہمیں ممتاز کرتی ہے وہ ہے ٹارگٹ کِلنگ :D
 

سارہ خان

محفلین
سارہ تم بھی آ گئی فاتح کے دام میں

نفرت کا تو نام ہے ، کاروبار تو سارا محبت کا ہی چمک رہا ہے پس پردہ ;)

فاتح بھائی! دیکھ لیں آپ کی وجہ سے کیا کیا سننا پڑ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محب آپ کی زندہ دلی اور بذلہ سنجی کو لگتا ہے امریکہ کی سردی لگ گئی ہے جو اتنا اکڑ گیا ہے مزاج ۔۔ ذرا سی ٹھیس سے بگڑ جاتا ہے ۔۔۔:-P
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی! دیکھ لیں آپ کی وجہ سے کیا کیا سننا پڑ رہا ہے۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

محب آپ کی زندہ دلی اور بذلہ سنجی کو لگتا ہے امریکہ کی سردی لگ گئی ہے جو اتنا اکڑ گیا ہے مزاج ۔۔ ذرا سی ٹھیس سے بگڑ جاتا ہے ۔۔۔ :-P
ہاں ہاں لگا دو میرا نام۔۔۔ محب کو کوئی کچھ نہ کہو۔۔۔ اس کے کیے کا الزام بھی میرے سر :ROFLMAO:
 
فاتح بھائی! دیکھ لیں آپ کی وجہ سے کیا کیا سننا پڑ رہا ہے۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

محب آپ کی زندہ دلی اور بذلہ سنجی کو لگتا ہے امریکہ کی سردی لگ گئی ہے جو اتنا اکڑ گیا ہے مزاج ۔۔ ذرا سی ٹھیس سے بگڑ جاتا ہے ۔۔۔ :-P

حد ہو گئی کہاں بگڑا ہے میرا مزاج ، فاتح کی باتوں میں نہ آیا کرو کتنی بار سمجھاؤں ;)
 

فاتح

لائبریرین
لو کسی کی باتوں میں انے کی کیا ضرورت ۔۔ آپ کے برہمی مزاج کا نادر نمونہ یہیں ملاحظہ ہو چکا ہے ۔۔۔ :-P
سارہ! کیا ہو گیا ہے تمھاری اردو کو؟ نمونہ واحد کا صیغہ ہے۔ جمع کو صیغہ ہے "نمونے" یا "نمونہ جات"۔ اور اردو انشا پردازی کے قواعد کے مطابق درست جملہ یوں ہو گا کہ "آپ کے برہم مزاج کے کئی نمونہ جات یہاں ملاحظہ ہو چکے ہیں"۔ :-P
 

سارہ خان

محفلین
یہ چنگاری کو ہوا دے کر شعلہ اپ نے بنایا ہے ۔۔ اب کہیں آتش فشاں بن کے پھٹ نہ پڑے ۔۔۔ :-P اور لپیٹ میں خواۃ مخواہ پھر میں آ جاؤں ۔۔۔;)
 
Top