یورپ کا دہرا معیار

*یورپ کا دہرا معیار*
تحریر *ابوھریرہ عاشق علی بخاری*

اس وقت دنیا مختلف اطراف سے خانہ جنگی کے دہانے پہ ہے. امریکہ میں نسلی فسادات، بھارت چین معاملہ، امارات کا اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ، پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی تیاری، پڑوسی ملک افغانستان کے پریشان کن حالات اس تمام صورتحال کے درمیان فرانس کا ایک بار پھر گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان جو ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے مترادف ہے.
وہ نبی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہے اور کبھی کسی کو تکلیف نہ دی بلکہ اپنے ساتھیوں کو اس بات کا درس دیا کہ کسی کو تکلیف مت دینا. آج امن کے ٹھیکے دار گہری نیند کے مزے لے رہے ہیں اور یہ نیند اس وقت مزید گہری ہوجاتی ہے جب معاملہ مسلمانوں کا ہو. یہ امن کے مامے ہمیشہ کمزور ممالک پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں کہ یہاں آزادی اظہار رائے نہیں ہے. کبھی قادیانیت تو کبھی کسی اور فرقے سے متعلق خصوصی احکامات جاری کرتے نظر آتے ہیں لیکن جب بات اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن مجید کی توہین کی ہو تو نہ کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، نہ اظہار رائے کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا سے مواد ہٹایا جاتا ہے کہ اس سے لوگوں میں اشتعال پیدا ہوگا.
برقعے پر پابندی، راہ چلتی مسلمان باپردہ عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھنا، داڑھی والوں پر ظلم، اذان پر پابندی کیا یہ آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی نہیں؟ اور نہ ہی ان ممالک پر دباؤ ڈالا جاتا ہے.
جب بات اپنے مفادات کی ہو پھر پاکستان یا کسی اور ملک میں عیسائی یا اپنے نمک خور کا پتہ چل جانے پر اپنی پوری طاقت کا زور لگا کر اسے باحفاظت اس ملک سے فرار کرواتے ہیں، کیا یہ کھلی منافقت نہیں ہے؟
کیا اب بھی مسلمان عوام اور حکمران ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں؟
کہاں ہیں لبرل ازم اور سیکولرازم کا نعرہ لگانے والے؟ کہا ہیں موم بتی مافیا؟
حقیقت یہ کہ اب مسلمانوں کے اجتماعی طور پر جاگ جانے کا وقت ہے. آپس کے اختلافات کو بھلا کر، اپنی ٹوٹی پھوٹی معیشتوں کے رونے سے نکل کر ایک امت بننا ہوگا.
اقوام متحدہ، یورپین اقوام سے امیدیں لگانا چھوڑنی ہوں گی.
اپنے مفادات اور مقاصد بغیر کبھی بھی وہ آپ کی مدد نہیں کریں گے.
اور اگر واقعی ہم آقائے دو جہاں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں یورپ کی ثقافت کو نکال باہر پھینکنا ہو گا بلکہ
بقول شاعر مشرق
دو رنگی چھوڑ یک رنگ ہوجا
سراسر موم یا سنگ ہو جا
جس ذات کا دن رات ہم دم بھرتے ہیں پھر بات بھی اسی کی مانی ہوگی، آدھا تیتر آدھا بٹیر والی کہانی نہیں چلے گی.
دیوبندی اہل حدیث، شیعہ سنی، عربی عجمی کے خول سے جب تک ہم باہر نہیں نکلتے ان ملعونوں کے حوصلے ایسے ہی بلند ہوتے رہیں گے.
بیانات، ریلیاں، جلسے اس کا حل نہیں بلکہ حل صرف اور صرف وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کر کے دکھایا.
 

جاسم محمد

محفلین
اس تمام صورتحال کے درمیان فرانس کا ایک بار پھر گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان جو ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے مترادف ہے
بیانات، ریلیاں، جلسے اس کا حل نہیں بلکہ حل صرف اور صرف وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کر کے دکھایا.
یورپ میں چھپنے والے گستاخانہ خاکوں اور قرآن پاک کی مسلسل بے حرمتی کے جواب میں رسول مقبول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو کیا تعلیم دی ہے؟
 

بابا-جی

محفلین
یورپ میں چھپنے والے گستاخانہ خاکوں اور قرآن پاک کی مسلسل بے حرمتی کے جواب میں رسول مقبول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو کیا تعلیم دی ہے؟
آپ کے عزیز کو کوئی بُرا بھلا کہے تو آپ کیا کریں گے؟ ہر ایک کا ردِعمل مُختلف ہو سکتا ہے۔ ایک بحث کرے گا۔ ایک شاید عدالت لے جائے۔ کوئی جوشیلا بھی ہو گا۔ وہ شاید اگلے کو گھونسا رسید کر دے اور خود جیل کاٹنے کو تیار ہو جائے۔ آپ کس کس کو روکیں گے۔ بُرائی کی جڑ کو پکڑو۔ یعنی کہ جو خاکے بنا رہے ہیں، اُن کی حکومتیں آزادی اظہار کے نام پر یہ اِجازتیں نہ دیں۔ یہ آغاز وہاں سے ہو رہا ہے، اِدھر سے نہیں۔ میں تو چلو خاموش ہو جاؤں گا۔ بحث کر لوں گا، مگر یہ شرارت کرنے والوں کو اگر اُن کی حکومتیں نہیں روکیں گی تو پھر ایسے لوگ ضرور سامنے آئیں گے جو اپنی جانوں پر کھیل جائیں گے۔ جو گھونسے کے جواب میں گھونسا مارے گا، وہ اس کی سزا بھی تو کاٹے گا مگر شاید یہ لوگ بھول گئے کہ مسلمان اسے سزا نہیں سمجھتے، اعزاز سمجھتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بُرائی کی جڑ کو پکڑو۔ یعنی کہ جو خاکے بنا رہے ہیں، اُن کی حکومتیں آزادی اظہار کے نام پر یہ اِجازتیں نہ دیں۔
جن ممالک کی آپ بات کر رہے ہیں وہاں کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین آزادی اظہار میں آتا ہے۔

اُن کی حکومتیں آزادی اظہار کے نام پر یہ اِجازتیں نہ دیں۔ یہ آغاز وہاں سے ہو رہا ہے، اِدھر سے نہیں۔
مسلمانوں کی ان ممالک میں آمد سے قبل وہاں عرصہ دراز سے مسیحیوں کے مقدسات کی توہین ہوتی رہی ہے۔ اب مسلمان یورپ میں آگئے ہیں تو یہی معیار ان کے اسلام پر لاگو ہوگا۔ مسلمانوں کی خوشنودی کیلئے یورپ کے مقامی لوگ اپنا قدیم آئین اور قانون تبدیل نہیں کر سکتے۔ نیز اس حوالہ سے قانون سازی کا مطالبہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے یہ مغربی ممالک پاکستان کو اینٹی قادیانی یا توہین رسالت قوانین ختم کرنے کیلئے ڈکٹیشن دیں۔
 

بابا-جی

محفلین
جن ممالک کی آپ بات کر رہے ہیں وہاں کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین آزادی اظہار میں آتا ہے۔


مسلمانوں کی ان ممالک میں آمد سے قبل وہاں عرصہ دراز سے مسیحیوں کے مقدسات کی توہین ہوتی رہی ہے۔ اب مسلمان یورپ میں آگئے ہیں تو یہی معیار ان کے اسلام پر لاگو ہوگا۔ مسلمانوں کی خوشنودی کیلئے یورپ کے مقامی لوگ اپنا قدیم آئین اور قانون تبدیل نہیں کر سکتے۔ نیز اس حوالہ سے قانون سازی کا مطالبہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے یہ مغربی ممالک پاکستان کو اینٹی قادیانی یا توہین رسالت قوانین ختم کرنے کیلئے ڈکٹیشن دیں۔
یہ تو پھر ہو کر رہے گا۔ مُسلمان، چاہے مجھ جیسا ادنیٰ بھی کیوں نہ ہو، اس طرح کی آزادی اظہار رائے کو روند ڈالے گا۔ ایمان کی بات کہی ہے، دل پر نہ لینا، بقول اختر شیرانی، جو کہ میری طرح خوب خجل خوار بندہ تھا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک کرنے والے کو گلاس دے مارا اور کہا، تم مجھ سے میری آخری متاع بھی چھین لینا چاہتے ہو۔ پھر تو ہو کر رہے گا مقابلہ۔ ہم کیوں گھبرائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
شاید یہ لوگ بھول گئے کہ مسلمان اسے سزا نہیں سمجھتے، اعزاز سمجھتے ہیں۔
یہ تو پھر ہو کر رہے گا۔ مُسلمان، چاہے مجھ جیسا ادنیٰ بھی کیوں نہ ہو، اس طرح کی آزادی اظہار رائے کو روند ڈالے گا۔
مسلمان اس بارہ میں کیا کہتے، سمجھتے ہیں اہم نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمان یورپی ممالک کے شہری رہتے ہوئے وہاں کے آئین و قانون کے پابند ہیں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو قانون کے مطابق جو سزا ہے وہ ان کو ملے گی۔ یورپی ریاستیں ابھی اتنی کمزور نہیں ہوئیں کہ کوئی باہر سے آکر ان کو مذہب کے نام پر بلیک میل کر لے۔
 

زیک

مسافر
یہ تو پھر ہو کر رہے گا۔ مُسلمان، چاہے مجھ جیسا ادنیٰ بھی کیوں نہ ہو، اس طرح کی آزادی اظہار رائے کو روند ڈالے گا۔ ایمان کی بات کہی ہے، دل پر نہ لینا، بقول اختر شیرانی، جو کہ میری طرح خوب خجل خوار بندہ تھا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک کرنے والے کو گلاس دے مارا اور کہا، تم مجھ سے میری آخری متاع بھی چھین لینا چاہتے ہو۔ پھر تو ہو کر رہے گا مقابلہ۔ ہم کیوں گھبرائیں۔
آسان حل ہے یورپ و امریکا جانے سے پرہیز کریں
 

بابا-جی

محفلین
مسلمان اس بارہ میں کیا کہتے، سمجھتے ہیں اہم نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمان یورپی ممالک کے شہری رہتے ہوئے وہاں کے آئین و قانون کے پابند ہیں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو قانون کے مطابق جو سزا ہے وہ ان کو ملے گی۔ یورپی ریاستیں ابھی اتنی کمزور نہیں ہوئیں کہ کوئی باہر سے آکر ان کو مذہب کے نام پر بلیک میل کر لے۔
سزا دے دیں، اور وہ سزا قبول کر لیں اور کر بھی لیں گے۔
 

بابا-جی

محفلین
ویسے پورا یورپ اور امریکا ایسی خرافات کا شکار نہیں۔ سلجھے ہوئے لوگ ہر مُلک و قوم میں موجود ہیں اور وہاں شاید زیادہ کثرت میں ہیں۔ ایسے شرارتی لوگ ادھر بھی ہیں، اور اُدھر بھی ہیں۔
 

زیک

مسافر
کیا مُضائقہ ہے اس میں؟ جائیں گے تو اُن کے قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں گے تو سزا پائیں گے۔ اِس سے کسے انکار ہے؟ مگر، کچھ لوگ یہ سزا پانے کو بھی ضرور جائیں گے۔
اسی لئے یہ سوال کیا تھا:
اس حملے میں کتنے لوگ مارے گئے؟
جن لوگوں کو قتل کیا گیا ان کے لئے تو بہت مضائقہ ہے۔ کونسا ملک ہے جو قاتلوں اور دہشتگردوں کو ویلکم کہے گا
 
مسلمان بیس افراد افراد کو قتل کر دے تو پوری امت مسلمہ مطعون، مگر ان کے رجیم چینج کرنے کے چکر میں دس لاکھ عراقی مارے جائیں تو چوں بھی نہ نکلے۔ ہمارے بیرون ملک مقیم بھائی تھوڑے سے پیسے پلاسٹک سرجری پہ خرچ کر لیں۔ تاکہ ان کا ناطہ باقی مسلمانوں سے نہ جوڑا جا سکے۔ سکون سے رہیں گے۔
 

بابا-جی

محفلین
اسی لئے یہ سوال کیا تھا:

جن لوگوں کو قتل کیا گیا ان کے لئے تو بہت مضائقہ ہے۔ کونسا ملک ہے جو قاتلوں اور دہشتگردوں کو ویلکم کہے گا
قتل و غارت تو انہوں نے بھی بہت کر رکھی ہے، یہ خاکے اس کا جواز ہیں تو پھر یہ معاملہ رُکے گا نہیں۔
 
آسان حل ہے یورپ و امریکا جانے سے پرہیز کریں
کیوں پرہیز کریں قبلہ۔ یورپی اقوام سینکڑوں سال باقی دنیا پہ قبضہ جمائے، ان کی دولت ہڑپ کرتی رہیں۔ وہ کونسا آفاقی قانون ہے جس کے تحت کرہ ارض کے کسی حصہ پر کسی قوم کی ملکیت تسلیم کر لی جائے۔
 

بابا-جی

محفلین
خاکوں کا جواز کسی نے دیا؟
جو معاملہ سامنے کا ہے، وہ تو ہے۔ خاکے بنائے گئے، مُسلمان مشتعل ہوئے۔ پسِ منظر معلوم ہونا شاید زیادہ ضروری ہے بھی نہیں کہ مُسلمانوں کے نزدیک بذاتِ خود یہ نہایت قبیح فعل ہے اور اِس کے مُرتکب افراد کے خلاف وہ ہر مُمکن طور پر احتجاج کرنا چاہیں گے۔ اس کے لیے اُنہیں جو سزا ملے گی، اُسے بھی بخوشی قبول کریں گے۔ بلا شبہ، یورپ میں، امریکا میں سلجھے افراد کی اکثریت ہے، اور وہ مسلمانوں پر تہذیب کے دائرے میں رہ کر تنقید کرتے ہیں، اُن کے خلاف احتجاج کون کرے۔ جس فرد یا جن افراد کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے، وہ باقاعدہ طور پر مُسلمانوں کے مذہبی پیشوا کی ہستی کا مذاق اُڑا رہے ہیں اور اسے آزادی اظہار رائے سمجھتے ہیں۔ ٹھیک ہے، سمجھتے رہیں۔ مگر، ردِعمل تو آئے گا، اُسے بھی اس کی ایکسٹیشن سمجھ لیں۔
 
Top