یم کیو ایم ملک کے اندر اور باہر دباؤ کا شکار

ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
آخری وقت اشاعت: اتوار 30 جون 2013 ,‭ 16:45 GMT 21:45 PST
ربط
’ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیئے۔‘متحدہ قومی موومنٹ کا یہ پرانا نعرہ ہے۔

کراچی کے کئی علاقوں میں بینر سے جھول رہے ہیں جن پر تحریر ہے، ’ قائد صرف الطاف حسین‘ ۔گزشتہ شب ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے ایک بار پھر اپنی جماعت کی قیادت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کارکنوں کے’بےحد اصرار‘ پر انہیں اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔

متحدہ قومی موومنٹ کا یہ پرانا نعرہ ہے کہ ’ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیئے۔‘ اس غیر روایتی فلسفے کو ایم کیو ایم کارکنوں کی اپنی قیادت سے محبت اور عقیدت قرار دیتی ہے جبکہ ناقدین اس کو تنظیم پر مضبوط گرفت قرار دیتے ہیں جس میں کسی اور قیادت کی نشونما کی کوئی گنجائش موجود نظر نہیں آتی ۔

الطاف حسین نے انتخابات کے بعد کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ شکوہ کیا تھا کہ رابطہ کمیٹی نے عمران خان کی تنقید کا موثر جواب نہیں دیا اور اس سے انہیں صدمہ پہنچا۔ ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق ان کے ان الفاظ کے بعد کارکن طیش میں آگئے اور سینئر رہنماؤں کو بھی کارکنوں کے سخت رویے کا سامنا کرنا پڑا اور آخر رابطہ کمیٹی میں سے معروف قیادت فارغ کردی گئی تھی۔

انتخابات کے مرحلے سے ایم کیو ایم مشکلات کا شکار رہی اور یہ مشکلات اندرون ملک کے علاوہ اب بیرون ملک پہنچ چکی ہیں۔ انتخابات کے دوران دفاتر پر حملے کی وجہ سے انتخابی مہم محدود رہی اور جب انتخابات کے نتائج آئے تو تحریک انصاف ایک بڑی مخالف جماعت کے طور پر سامنے آئی، جس کی مقامی اور مرکزی قیادت نے ایم کیو ایم کو آڑے ہاتھوں لیا بالآخر حلقہ این اے 250 پر تحریک انصاف کی کامیابی نے اس دباؤ کو کچھ کم کیا۔

وفاق اور سندھ میں حکومت سازی کے وقت تجزیہ نگاروں کی نظریں ایک بار پھر ایم کیو ایم پر رہیں لیکن کئی تجزیہ نگاروں کی رائے کے برعکس ایم کیو ایم نے اپوزیشن کا انتخاب کیا۔گزشتہ دو حکومتوں کا حصہ رہنے والی یہ جماعت اگر حکومت کا حصہ بنتی ہے تو عوامی سیاست سے ایک بار پھر کنارے لگ جائیگی اور اس کی مقبولیت جو اب پہلے جیسی نہیں رہی مزید متاثر ہونے کا امکان موجود ہے۔

اگر ایم کیو ایم حکومت کا حصہ نہیں بنتی تو اس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، گزشتہ ایک ماہ میں ایم کیو ایم یہ شکایت کرتی رہی کہ ایک بار پھر اس کے کارکنوں کے خلاف غیراعلانیہ آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے اور بلوچستان کے طرز پر کارکنوں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا جا رہا ہے۔

سندھ کے وزیراعلٰی سید قائم علی شاہ جو متنازعہ بیانات سے اجتناب برتتے ہیں لیکن جمعہ کو سندھ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک طرف انہوں نے ایم کیو ایم کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی تو دوسرے طرف یہ بھی کہہ دیا کہ ایم کیو ایم کے اس دعویٰ میں کوئی صداقت نہیں کہ اس کے سو سے زائد کارکن لاپتہ ہیں کیونکہ وہ متعلقہ اداروں سے یہ معلومات لے چکے ہیں۔

تجزیہ نگار اعجاز شیخ کا کہنا ہے کہ سید قائم علی شاہ کا بیان حکومت کے بدلتے تیور کی بھی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ ماضی میں ایم کیو ایم وفاق میں پیپلز پارٹی کی ضرورت رہی ہے جب اس کے پاس مطلوبہ اراکین کی حمایت موجود نہ تھی لیکن سندھ اسمبلی میں اس وقت ایسی کوئی صورتحال نہیں۔

انتخابات کے بعد پاکستان کی ملکی سیاست میں جوڑ توڑ کے الزامات اور دباؤ کی سیاست جاری تھی، لیکن ایم کیو ایم کی قیادت کو اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس کی تحقیقات کرتے کرتے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے گھر میں داخل ہوگئی۔

میڈیا اور ایم کیو ایم کی جانب سے ڈھکے چھپے الفاظ میں اس پوری کارروائی کا ذکر اور مذمت سامنے آتی رہی، لیکن گزشتہ شب الطاف حسین نے خود ہی اپنے کارکنوں کو آگاہ کیا کہ ان کے گھر کا کئی گھنٹے محاصرہ کیا گیا اور میٹروپولیٹن پولیس ان کے گھر کا سامان اٹھاکر لےگئی ہے۔ انہوں نے لندن پولیس پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ انہیں ڈاکٹر عمران کے قتل میں ملوث کرنے کی سازش کر رہی ہے۔

الطاف حسین جب اپنے کارکنوں کو یہ صورتحال بیان کر رہے تھے تو اس وقت برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچ چکے تھے، ایم کیو ایم جو ایک اچھی میڈیا مینجمنٹ رکھتی ہے اپنے قائد کی تقریر کے لیے بھرپور میڈیا کوریج حاصل کرنے میں کامیاب رہی، ایسی بھرپور کوریج ڈیوڈ کیمرون حاصل نہیں کرسکے تھے۔

کراچی میں اتوار کو ایم کیو ایم کے کارکن برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر کے دفتر کے باہر جمع ہوئے اور الطاف حسین کی رہائش گاہ پر چھاپے کی مذمت کی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان اتوار کو ملاقات ہوئی ، جس میں پاکستان کی اہم جماعت کی قیادت کے مستقبل کے بارے میں کوئی بات ہوئی یا نہیں یہ ابھی تک غیر واضح ہے دونوں ملکوں کے سربراہوں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی میڈیا کی طرف سے کوئی سوال سامنے آیا۔
 
Top