حسان خان
لائبریرین
یا مَنْ بَدا جَمالُكَ فِي كُلِّ ما بَدا
بادا هزار جانِ مقدّس تو را فدا
مینالم از جداییِ تو دم به دم چو نَی
وین طُرفهتر که از تو نَیَم یک نَفَس جدا
عشق است و بس که در دو جهان جلوه میکند
گاه از لباسِ شاه و گه از کِسوتِ گدا
یک صوت بر دو گونه همیآیدت به گوش
گاهی ندا همینِهیش نام و گه صدا
برخیز ساقیا ز کرم جُرعهای بِریز
بر عاشقانِ غمزده زان جامِ غمزُدا
زان جامِ خاص کز خودیام چون دهد خلاص
در دیدهٔ شُهود نمانَد به جز خدا
جامی رهِ هُدیٰ به خدا غیرِ عشق نیست
گفتیم والسّلامُ علیٰ تابِعِ الهُدیٰ
(عبدالرحمٰن جامی)
ترجمہ:
اے وہ کہ تمہارا جمال ہر اُس چیز میں ظاہر ہے جو وجود میں آئی ہے؛ ہزار جانِ گرامی تم پر فدا ہوں!
میں تمہاری جدائی کے باعث مسلسل نَے کی طرح نالہ و زاری کرتا رہتا ہوں؛ اور عجیب تر بات یہ ہے کہ میں تم سے ایک لحظے کے لیے بھی جدا نہیں ہوں۔ ×
[یہ] عشق ہے اور بس، جو دو جہاں میں جلوہ کرتا ہے؛ کبھی شاہ کے لباس [کے وسیلے] سے اور کبھی گدا کے جامے [کے وسیلے] سے۔۔۔
ایک [ہی] آواز دو طرزوں پر تمہارے گوش میں آتی ہے؛ گاہے تم اُس کا نام ندا رکھتے ہو اور گاہے صدا۔ ×
اُٹھو، اے ساقی، [اور] از راہِ کرم غم زدہ عاشقوں کی جانب اُس غم مٹانے والے جام سے ایک جُرعہ اُنڈیلو۔ ×
اُس جامِ خاص سے کہ جب وہ مجھے اپنی خودی و انانیت سے نجات دے دے تو دیدۂ شُہود میں بجز خدا کچھ نہ رہے۔
اے جامی! خدا کی قسم، عشق کے سوا کوئی راہِ ہدایت نہیں ہے؛ ہم نے کہہ دیا، پس ہدایت و راہِ راست کے پیرَو پر سلام ہو!
× نَے = بانسری × گوش = کان × جُرعہ = گھونٹ
× یہ غزل عبدالرحمٰن جامی کے دیوانِ اول 'فاتحۃ الشباب' کی اولین غزل ہے۔
بادا هزار جانِ مقدّس تو را فدا
مینالم از جداییِ تو دم به دم چو نَی
وین طُرفهتر که از تو نَیَم یک نَفَس جدا
عشق است و بس که در دو جهان جلوه میکند
گاه از لباسِ شاه و گه از کِسوتِ گدا
یک صوت بر دو گونه همیآیدت به گوش
گاهی ندا همینِهیش نام و گه صدا
برخیز ساقیا ز کرم جُرعهای بِریز
بر عاشقانِ غمزده زان جامِ غمزُدا
زان جامِ خاص کز خودیام چون دهد خلاص
در دیدهٔ شُهود نمانَد به جز خدا
جامی رهِ هُدیٰ به خدا غیرِ عشق نیست
گفتیم والسّلامُ علیٰ تابِعِ الهُدیٰ
(عبدالرحمٰن جامی)
ترجمہ:
اے وہ کہ تمہارا جمال ہر اُس چیز میں ظاہر ہے جو وجود میں آئی ہے؛ ہزار جانِ گرامی تم پر فدا ہوں!
میں تمہاری جدائی کے باعث مسلسل نَے کی طرح نالہ و زاری کرتا رہتا ہوں؛ اور عجیب تر بات یہ ہے کہ میں تم سے ایک لحظے کے لیے بھی جدا نہیں ہوں۔ ×
[یہ] عشق ہے اور بس، جو دو جہاں میں جلوہ کرتا ہے؛ کبھی شاہ کے لباس [کے وسیلے] سے اور کبھی گدا کے جامے [کے وسیلے] سے۔۔۔
ایک [ہی] آواز دو طرزوں پر تمہارے گوش میں آتی ہے؛ گاہے تم اُس کا نام ندا رکھتے ہو اور گاہے صدا۔ ×
اُٹھو، اے ساقی، [اور] از راہِ کرم غم زدہ عاشقوں کی جانب اُس غم مٹانے والے جام سے ایک جُرعہ اُنڈیلو۔ ×
اُس جامِ خاص سے کہ جب وہ مجھے اپنی خودی و انانیت سے نجات دے دے تو دیدۂ شُہود میں بجز خدا کچھ نہ رہے۔
اے جامی! خدا کی قسم، عشق کے سوا کوئی راہِ ہدایت نہیں ہے؛ ہم نے کہہ دیا، پس ہدایت و راہِ راست کے پیرَو پر سلام ہو!
× نَے = بانسری × گوش = کان × جُرعہ = گھونٹ
× یہ غزل عبدالرحمٰن جامی کے دیوانِ اول 'فاتحۃ الشباب' کی اولین غزل ہے۔
آخری تدوین: