یاد عہد رفتہ

یاد عہد رفتہ
گزرے وقت کو بھول جانا
آسان تو نہیں ہوتا
جب پاؤں چھلنی چھلنی ہوں
اور دل بھی زخمی زخمی ہو
رستے میں ہو دھول بھری
اور کانٹے بکھرے بکھرے ہوں
تو خاردار رستوں پر چلنا
آسان تو نہیں ہوتا
جب بوند بوند کا ترسا صحرا ہو
اور سورج سے آگ برستی ہو
اس جلتے تپتے صحرا میں
تنہا مسافر کا منزلوں کو پالینا
آسان تو نہیں ہوتا
جب آنکھیں خون اگلتی ہوں
اور دل بھی خالی خالی ہو
ہونٹوں پہ بکھری سیاہی ہو
اور بدن بھی نیلا نیلا ہو
ایسے میں سپنوں سے بہلنا
آسان تو نہیں ہوتا
تخلیق محمد اطہر طاہر
ہارون آباد
 

الف عین

لائبریرین
اگر اسے نثری نظم سمجھتے ہیں تو اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔
البتہ کئی جگہ معریٰ نظم کا شائبہ ہوتا ہے۔ تو کچھ مصرعے وزن سے خارج ہیں۔
 
Top