بشیر بدر یاد اب خود کو آ رہے ہیں ہم

فہد اشرف

محفلین
یاد اب خود کو آ رہے ہیں ہم
کچھ دنوں تک خدا رہے ہیں ہم


آرزوؤں کے سرخ پھولوں سے
دل کی بستی سجا رہے ہیں ہم


آج تو اپنی خامشی میں بھی
تیری آواز پا رہے ہیں ہم


بات کیا ہے کہ پھر زمانے کو
یاد رہ رہ کے آ رہے ہیں ہم


جو کبھی لوٹ کر نہیں آتے
وہ زمانے بلا رہے ہیں ہم

زندگی اب تو سادگی سے مل
بعد صدیوں کے آ رہے ہیں ہم

اب ہمیں دیکھ بھی نہ پاؤگے
اتنے نزدیک آ رہے ہیں ہم

غزلیں اب تک شراب پیتی تھیں
نیم کا رس پلا رہے ہیں ہم

دھوپ نکلی ہے مدتوں کے بعد
گیلے جذبے سکھا رہے ہیں ہم

فکر کی بے لباس شاخوں پر
فن کی پتی لگا رہے ہیں ہم

سردیوں میں لحاف سے چمٹے
چاند تاروں پہ جا رہے ہیں ہم

زیست کی ایک برقی لڑکی کو
”نورنامہ“ پڑھا رہے ہیں ہم

اس نے پوچھا ہمارے گھر کا پتہ
کافی ہاؤس بلا رہے ہیں ہم

کندھے اچکا کے بات کرنے میں
منفرد ہوتے جا رہے ہیں ہم

چست کپڑوں میں جسم جاگ پڑے
روح و دل کو سُلا رہے ہیں ہم

کوئی شعلہ ہے کوئی جلتی آگ
جل رہے ہیں جلا رہے ہیں ہم

ٹیڈی تہذیب، ٹیڈی فکرونظر
ٹیڈی غزلیں سنا رہے ہیں ہم

(۱۹۶۰-۶۱ء)
”انتظار حسین کے نام جنہوں نے ادب لطیف لاہور میں اس غزل کو دو صفحوں پر چھاپا تھا اور یوں ہمت بڑھائی تھی اپنی حفاظت کرو تو اس عہد کے منفرد شاعر ہو۔“
 
Top