یادِ ایّام

انیس جان

محفلین
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا، ،
یہ میرا وہ حال ہے جو اب ماضی بن چکا ہے مگر اس حال کی فرحناکی سے آج بھی میرا دماغ معطّر ہے

یہ وہ زمانہ تھا جب ماں باپ بچے بارے خوف زدہ نہیں ہوتے تھے کہ نہ جانے کب اسے کوئی درندہ اچک لے
یہ اس دور کی کہانی ہے جب بڑے بڑے لڑکے مٹی کے ساتھ کھیلتے تھے

مجھے دو ہی کھیل کھیلنے کا شوق تھا ایک گرمیوں میں نہر یا پھر مسجد کے تالاب میں ڈبکیاں لگانا اور دوسراغلیل لے کر پرندوں کا شکار کرنا
آج میں آپ کو دوسرے کھیل کے متعلق بتاتا ہوں

میری دہشت گردی بھی افغانستان میں جاری جنگ کی طرح موسمِ بہار میں عروج پر آجاتی تھی
جیسا کہ افغانستان کی ہر بہار امریکہ اور اس کے پجاریوں کیلیے ایک نئی آفت لے کر آتی ہے

عین اسی طرح میرے گاؤں کے معصوم پرندے بھی بہار آنے پر خوش ہونے کی بجائے سہم جاتے تھے اور کہتے تھے
"پھر اس انداز سے بہار آئی"
عام دنوں میں یہ کاروائیاں قدرے کم ہوتی تھیں مگر اتوار کے دن مکتب کی چھٹی ہونے کے باعث بہت شدید ہوتی

اتوار کے دن صبح تڑکے ہی کھونٹی کے ساتھ لٹکی غلیل اتار کر کمر سے باندھ لیتا وہ غلیل کہ بقول اقبال
"سبق آموزِ دہشت توپ ہوتی جس کے جوہر سے"
(ترمیم پر معذرت)

سب سے پہلے میری مہم کا نشانہ قریب میں ہی واقع ایک پرانا وسیع و عریض قبرستان بنتا
(اب قارئین سوچیں گے کہ قبرستان کیسے)

تو آپ کو ایک پتے کی اور مزیدار بات بتاتا ہوں وہ یہ کہ سب سے زیادہ شکار اسی قبرستان میں ہی میرے ہاتھ لگتا تھا
( آپ کہیں گے کہ وہ کیسے )
تو معزز دوستوں وہ اس لیے کہ لوگوں نے اپنے پیاروں کی قبروں پر دال چاول وغیرہ ڈالے ہوتے تھے جنہیں چگنے کیلیے پرندے
بطورِ خاص جنگلی کبوتر اور قمریاں کثیر تعداد میں آئی ہوتی تھیں اور بیچاری میری دہشتگردی کے بھینٹ چڑھ جاتیں

گورستان میں دہشت کا سکّہ چلا کر یہاں سے ایک میل کے فاصلے پر واقع ایک جنگل نما باغ میری دراندازی کا شکار بنتا اور وہاں بھی کافی سارا مالِ غنیمت ہاتھ آجاتا

باغ میں شکار کھیلنا ذرا مشکل ہوتا تھا کیونکہ پرندے پتّوں کی اوٹ یا پھر کسی بڑی ٹہنی کے پیچھے بیٹھے ہوتے تھے

مگر اصل مزہ بھی شکار کا یہیں پر آتا تھا
وہ اس لیے کہ قبرستان میں جب کسی پرندے کو مار گراتا تھا تو وہیں پر ہی تڑپنے لگ جاتا
لیکن باغ میں جب پتھر ٹھیک نشانے پر لگ جاتا تو پرندہ پتوں سے ٹکراتا ہوا گرتا تھا

یا جس پرندے میں جان زیادہ بچی ہوتی تو وہ باغ میں تھوڑا سا اِدھر اُدھر کبھی کسی درخت پر اور کبھی کسی درخت پر بیٹھ کر جان بچانے کی کوشش کرتا

لیکن آخرکار اسے میری جھولی میں گرنا ہی پڑتا اور یہی شکار کا اصل مزہ ہے

باغ میں زیادہ تر بلبل میاں میرا شکار بنتا جو بیچارہ کسی گل کے سامنے بیٹھ کر اپنی عشق و محبت اور اس کی جفا و ستم بیان کر رہا ہوتا تھا
بقولِ اقبال "سن کر بلبل کی آہ و زاری"
میں جگنو بن کر نہیں بلکہ موت کا فرشتہ بن کر اس کے سر پر پہنچ جاتا

بیچارہ اپنی آواز کے ہاتھوں مارا جاتا پشتو کے عظیم الشان شاعر رحمٰن بابا کے بقول
"،، کہ بے زایہ زرگے نہ اوخکے آواز"
"،، نہ صیّاد زنے خبر او نہ شہباز"
ترجمہ (اگر چکور بے وقت کی راگنی نہ گاتا تو نہ صیاد کو خبر ہوتی نہ شہباز کو)

بلبل کو مارتے وقت پتھر کبھی سامنے کسی پھول کو لگ جاتا اور اس کی ٹہنی ہلتی تو پھول پر پڑی شبنم گر پڑتی اور اس کا رنگ پہلے سے زیادہ سرخ ہوجاتا
مجھے یوں لگتا جیسے بلبل کی حالت دیکھ کر پھول ہنس رہا ہے اور غالب میاں کا یہ مصرع میرے دماغ پر دستک دیتا کہ
"" بلبل کے کاروبار پہ ہے خندہ ہائے گل""

اس سارے عمل کے دوران صرف ایک چیز تھی جو میرے راستے میں رکاوٹ بنتی تھی

اور وہ تھا کوّا افففففففف غضب کا پرندہ ہے
نہ ہی میں اس سے کوئی تعرض کرتا نہ ہی اس کا شکار
مگر پتہ نہیں کہ کیوں مجھے دور سے دیکھ کر ہی "کائیں کائیں" شروع کردیتا اور آنً فانً فضا میں کوّے ہی کوّے ہوجاتے سارا مزہ کافور ہوجاتا تھا

آج بھی گاؤں کے سن رسیدہ کوّے مجھے جانتے ہیں
مجھے دیکھ کر شور مچا دیتے ہیں اور اپنی نئی نسل کو بھی بتاتے ہیں
کہ یہ رہا ہمارا دشمن
مگر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ نئی نسل ان کے شور پر کوئی خاص توجّہ نہیں دیتی
 
آخری تدوین:
Top