صابرہ امین
لائبریرین
ہم اپنی سہیلی کے ساتھ تیز تیز قدموں سے شیرٹن ہوٹل(آج کے موون پک) کے مرکزی دروازے کی جانب رواں دواں تھے ۔ آج پاکستان ٹیکسٹائل اینڈ کلودنگ فیسٹیول تھا۔ ہمارے کالج رعنا لیاقت علی خان گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس کو خصوصی اسٹال دیا گیا تھا جہاں ہمارے کلودنگ اور ٹیکسٹائل کے پروجیکٹس رکھے گئے تھے۔ جن طالبات کے پروجیکٹس تھے ان کی ڈیوٹیاں بھی لگائی گئیں تھیں کہ ان سے مقامی اور بین الاقوامی صحافی اور نمائندے سوالات کریں تو وہ اپنے پروجیکٹ، ڈپارٹمنٹ اور کالج کے بارے میں بتائیں اور ہم ان کے سوالات وغیرہ کے لیئے تیار تھے ۔ ۔
آج نمائش کا پہلا دن تھا اور وزیراعلیٰ سندھ کو نمائش کا افتتاح کرنے آنا تھا ۔ ۔ ہوٹل کا مرکزی دروازہ حفاظتی اقدامات کے باعث ایک مخصوص وقت کے بعد بند ہو جانا تھا۔ ہم تیز تیز قدموں سے تقریباَ بھاگتے ہوئے جا رہے تھے کی دور کھڑے ایک کیمرہ لیئے ہوئے شخص نے جو کہ سفید فام تھا ہمیں روکا ۔ ۔اشارے سے ہم سے کہا کہ وہ ہماری تصویرلینا چاہتا ہے ۔ ۔ ہم دونوں تو بہت خوش ہوئے ۔۔ اس نے کافی دور سے ہماری چنی منی سی تصویر لی ۔ ۔ ہماری سہیلی نےکہا ،ٰ واہ آج تو میری تیاری کام آ گئی ۔ ۔ٰ واقعی!! اس نے آواری سے باب کٹ بال اک دن پہلے ہی کٹوائے تھے ۔ ۔ بمبئ والا سے بلاک پرنٹ کا سوٹ لے کر سلوایا تھا اور بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ ۔ہمیں بہت فخر ہوا کہ ہماری سہیلی کتنی اسمارٹ ہے ۔ ۔(بے وقوفی کا عالم دیکھیئے کہ وہ تصویر اے-بی-سی ملک کے ایکس-وائی-زیڈ اخبار میں چھپنی تھی اور ہم ایویں ہی خوشی میں آپے سے باہر ۔ ۔)اسوقت نہ تو انٹرنیٹ عام تھا اور فیس بک کا "ایف" بھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ ۔ ( نہیں نہیں ہم پتھروں کے دور کے نہیں ہیں بھئ ۔ ۔ ۔ )
جب ہم اندر پہنچ کر اپنے اسٹال پر کھڑے ہوئے تو ہماری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ ہماری ساری کلاس تو "پوری کٹ" میں آئی تھی ۔ ۔ہمارا دل تو کئ ایک کو دیکھ کر دھڑکنے بھی لگا ۔ ۔ ہم تو منہ اٹھا کر آ گئے تھے ۔۔۔ہمیں لگا سب اخباروں میں ان کی تصاویر آئیں گی اور تو اور اب تو سہیلی بھی دور کھڑی تھی ۔ ۔ دل بجھ سا گیا۔ ۔ تھوڑی دیر بعد ہٹو بچو کا شور ہوا اور دھڑ دھڑ دھڑ بہت سے کیمرہ مین اور ویڈیو گرافرز الٹے قدموں بھاگتے دکھائ دئیے ۔ ۔ وزیراعلیٰ صاحب نے افتتاح کر دیا تھا اور اب وہ اسٹالز کے معائنے پر تھے ۔ ۔ سب سے پہلا اسٹال ہمارے کالج کا ہی تھا۔ اور پھر وہ آہی گئے ۔ ہمیں لگتا تھا کہ مغرور ہوں گے مگر انھوں نے ہمارے کالج کی نمائندہ کی بات بہت توجہ سے سنی ۔ ۔بڑی شفقت سے چند سوالات کیے اور ہم سب کو بی بی محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے نقشِ قدم پر چل کر ملک کے ہر شعبے میں حصہ لینے کا مشورہ دیا ۔ ۔ سب لوگ ان سے بہت متاثر ہوئے ۔ ۔۔ اور پھر وہ تیزی سے آگے بڑھ گئے ۔ ۔
ان کے معائنہ کے بعد چلے جانے کی دیر تھی کہ اچانک فوٹوگرافرز نے ہمارےاسٹال پر دھاوا بول دیا ۔ ۔ہم سب کلک کلک کی زد میں آئے ۔ ۔ مگر یہ کیا گورے، کالے، پیلے ہر وضع قطع کے غیر ملکی صحافی لوگ ہمارے پاس آتے اور ہماری اجازت لے کر ہماری تصاویربنا کر شکریہ کے ساتھ چلے جاتے ۔
ابھی حیرانی سے بے ہوش ہونے ہی والے تھے کہ دو غیرملکی صحافی اپنا بڑا سا وڈیو کیمرا لے کر ہمارے پاس آئے ۔ ۔ اور ہمارے سامنے اپنی ہتھیلی کر دی ۔ ۔ اس پر انگریزی میں لکھا تھا کہ انہیں ترکش ٹی وی کے لیئے ہمارا انٹرویو چاھیئے ۔ ۔ ایکسکیوز می ۔ ۔ !!! واٹ۔۔۔!!! ہم نے پوچھا ۔ ۔ ایک نے جواب دیا ۔ ۔ نو انگلش ۔ ۔ نو انگلش۔ ۔ ہم نے سوچا کہ ترکی والے بھی کتنے کم پڑھے لکھوں کو صحافت میں لے لیتے ہیں ۔ ۔ اپنے اوپر ٹھیک ٹھاک فخر محسوس ہوا ۔ ۔ ہم نے اشارے سے اجازت دی ۔ ۔اب اس نے ہمارے آگے دوسری ہتھیلی کر دی ۔ ۔ اس پر چند سوالات لکھے تھے۔ ۔ انگلی کے اشارے سے اس نے ہمیں پہلے سوال پر متوجہ کیا ۔ ۔ "واٹ ڈو یو نو اباؤٹ ٹرکی؟" ۔ ۔ ایں دماغ اچانک خالی ہو گیا ۔ ۔ پھر ہم نے سنبھل کر کہا کہ" وہ ایک دوست ملک ہے ۔ ۔ ہم ان سے محبت کرتے ہیں اور وہ ہم سے ۔ ۔" (بروقت چالاکی ملاحظہ فرمائیں۔۔۔) انھوں نے دوسرے سوال پر اشارہ کیا ۔ ۔ لکھا تھا۔"واٹ از دا کیپیٹل آف ٹرکی؟" ارے بھئ بچوں جیسے سوالات ۔ ۔!! ہم نے سوچا ۔ ۔ اور بڑے فخر سے کہا "استنبول" ۔ ۔ وہ دونوں ہنسنے لگے اور ایک ساتھ کہا ۔ ۔"انقرہ " ۔ ۔ ۔ ۔ ہم بھی ہنسنے لگے آخر کیا کرتے ۔ ۔ !!! (اففف ۔ ۔ غرور کا سر منٹوں میں نیچا ہو گیا ۔ ۔ ہم نے سوچا ۔ ۔ ۔) برسوں بعد جب ہم ترکی گئے تو معلوم ہوا کہ اگرچہ ترکی زبان کا رسم الخط انگریزی ہے مگر اس میں کئ نئے حروف تہجی بھی شامل ہیں جن کی آواز انگریزی سےقطعی الگ ہے اور کہیں بھی متبادل انگریزی سائن بورڈز نظر نہیں آتے ۔ لوگوں کو انگریزی نہیں آتی اور ان کو کوئی احساس کمتری نہیں ۔ صرف سیاحتی مقامات پر گائڈز یا اکا دکا لوگوں کو آتی ہے) ۔ ۔ ۔ ۔ پھر انھوں نے ہمارے کالج اور وہاں موجود ہونے کی غرض و غایت کا پوچھا ۔ ۔ ہاں اس کا ہم نے تفصیلی جواب دیا ۔ ۔ چند منٹ کے اس انٹرویو کے بعد وہ شکریہ کر کے چلے گئے ۔ ۔ ہمارے سارے دوست تو ہم سے بڑے متاثر ہوئے۔ ۔ ( ہم خود بھی "متاثرین" میں شامل تھے ۔ ۔ سچ میں!!) خیر مزا آیا ۔ ۔
دوسرے دن جب ہم اپنی ڈیوٹی پر گئے توپتہ چلا کہ وہ دونوں کئ بار ہمارے بارے میں پوچھ چکے ہیں کہ جن کا کل انٹرویو لیا ہے وہ کہاں ہیں ۔ ۔ ہائیں اب تو ہمیں کچھ "گڑبڑیشن" محسوس ہوئ ۔ ۔ اچانک سامنے سے دونوں کو آتے دیکھا ۔ ۔ وہ بھی سیدھا ہماری طرف آئے ۔ ۔ ہم نے ہونق انداز میں ان کو دیکھا ۔ ۔ انھوں نے سلام کیا اور جیب سے ایک لفافہ نکال کر دیا ۔ ۔( ہیں یہ کیا ہے ۔ ۔ ہم نے سوچا) ہماری دوست نے مشکوک نظروں سے ہمیں دیکھا ۔ ۔ ہم نے غیر اختیاری طور پر وہ لفافہ لے لیا ۔ ۔ ۔ ۔ انھوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کے ارتغل کی طرح سر جھکایا۔۔(جی جی ارتغل کی طرح ۔ ۔ !! ) ہم نے لفافہ کھولا ۔ ۔ ارے یہ کیا اس میں ہماری افتتاح والے دن کی تصویر مو جود تھی ۔ ۔ اففف!! ہم نے شکریہ ادا کیا ۔ ۔ مگر دل میں ایک خیال کے آتے ہی ان سے پوچھا کہ ہم کو ہی کیوں دی ہے جبکہ ہمارے کالج کی ایک اور بھی دوست موجود تھیں ۔ ۔ پھر وہی جواب ۔ ۔۔ نو انگلش ۔ ۔ نو انگلش ۔ ۔ پھر ہمیں ٹھہرنے کا اشارہ کیا اور ایک گزرتے صاحب کو روک کر کچھ کہنے لگے ۔ ۔ پتہ چلا وہ ان کے مترجم ہیں اور اردو بھی جانتے ہیں!!! انھوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں اور ہم نے مختصراَ تمام بات بتائی اور پوچھا کہ انھوں نے ہمارا ہی انٹرویو کیوں لیا اور یہ تصویر بھی دی ۔ ۔ جب مترجم صاحب نے ان سے ترکی میں پوچھا تو وہ ہنسنے لگے ۔ ۔ پھر ان کا جواب سن کر مترجم صاحب بھی ہنسنے لگے ۔ ۔ اور مسکراتے ہوئے بتایا کہ یہ صحافی پہلی بار پاکستان آئے تھے ۔ ۔ ان کے ذہن میں اپنے ہم وطنوں کی طرح ہمارے ملک کی خواتین کے بارے میں بالکل افغانستان کی خواتین جیسا تصور تھا یعنی برقع پوش۔ ۔ مگر ان کو ایک بھی ایسی خاتون یہاں نظر نہ آئیں جن کو وہ اپنے ملک کے تصور کے مطابق دکھا سکتے اور کیونکہ صرف ہم نے ہی اسکارف پہنا تھا تو انھوں نے ہماری اخبارات کے لیئے تصویر اور ملکی ٹی وی کے لئے وڈیو بنائی اور شکرانے کے طور پر ہمیں یہ تصویر عنایت کی ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ہاہاہا ۔۔۔جی اب ہماری ہنسنے کی باری تھی ۔ ۔۔۔ اور اس کے بعد دوستوں ہمارا "تیار" نہ ہونے کا ملال جاتا رہا ۔ ۔ بھئ آخر کوہماری دوستیں تو صرف کالج کی جب کہ ہم پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے ۔ ۔ اب سمجھ آیا کہ کیوں مقامی میڈیا ہماری دوستوں پر اور غیرملکی میڈیا ہم پر مہربان تھا۔ ۔ ۔!!
آج نمائش کا پہلا دن تھا اور وزیراعلیٰ سندھ کو نمائش کا افتتاح کرنے آنا تھا ۔ ۔ ہوٹل کا مرکزی دروازہ حفاظتی اقدامات کے باعث ایک مخصوص وقت کے بعد بند ہو جانا تھا۔ ہم تیز تیز قدموں سے تقریباَ بھاگتے ہوئے جا رہے تھے کی دور کھڑے ایک کیمرہ لیئے ہوئے شخص نے جو کہ سفید فام تھا ہمیں روکا ۔ ۔اشارے سے ہم سے کہا کہ وہ ہماری تصویرلینا چاہتا ہے ۔ ۔ ہم دونوں تو بہت خوش ہوئے ۔۔ اس نے کافی دور سے ہماری چنی منی سی تصویر لی ۔ ۔ ہماری سہیلی نےکہا ،ٰ واہ آج تو میری تیاری کام آ گئی ۔ ۔ٰ واقعی!! اس نے آواری سے باب کٹ بال اک دن پہلے ہی کٹوائے تھے ۔ ۔ بمبئ والا سے بلاک پرنٹ کا سوٹ لے کر سلوایا تھا اور بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ ۔ہمیں بہت فخر ہوا کہ ہماری سہیلی کتنی اسمارٹ ہے ۔ ۔(بے وقوفی کا عالم دیکھیئے کہ وہ تصویر اے-بی-سی ملک کے ایکس-وائی-زیڈ اخبار میں چھپنی تھی اور ہم ایویں ہی خوشی میں آپے سے باہر ۔ ۔)اسوقت نہ تو انٹرنیٹ عام تھا اور فیس بک کا "ایف" بھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ ۔ ( نہیں نہیں ہم پتھروں کے دور کے نہیں ہیں بھئ ۔ ۔ ۔ )
جب ہم اندر پہنچ کر اپنے اسٹال پر کھڑے ہوئے تو ہماری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ ہماری ساری کلاس تو "پوری کٹ" میں آئی تھی ۔ ۔ہمارا دل تو کئ ایک کو دیکھ کر دھڑکنے بھی لگا ۔ ۔ ہم تو منہ اٹھا کر آ گئے تھے ۔۔۔ہمیں لگا سب اخباروں میں ان کی تصاویر آئیں گی اور تو اور اب تو سہیلی بھی دور کھڑی تھی ۔ ۔ دل بجھ سا گیا۔ ۔ تھوڑی دیر بعد ہٹو بچو کا شور ہوا اور دھڑ دھڑ دھڑ بہت سے کیمرہ مین اور ویڈیو گرافرز الٹے قدموں بھاگتے دکھائ دئیے ۔ ۔ وزیراعلیٰ صاحب نے افتتاح کر دیا تھا اور اب وہ اسٹالز کے معائنے پر تھے ۔ ۔ سب سے پہلا اسٹال ہمارے کالج کا ہی تھا۔ اور پھر وہ آہی گئے ۔ ہمیں لگتا تھا کہ مغرور ہوں گے مگر انھوں نے ہمارے کالج کی نمائندہ کی بات بہت توجہ سے سنی ۔ ۔بڑی شفقت سے چند سوالات کیے اور ہم سب کو بی بی محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے نقشِ قدم پر چل کر ملک کے ہر شعبے میں حصہ لینے کا مشورہ دیا ۔ ۔ سب لوگ ان سے بہت متاثر ہوئے ۔ ۔۔ اور پھر وہ تیزی سے آگے بڑھ گئے ۔ ۔
ان کے معائنہ کے بعد چلے جانے کی دیر تھی کہ اچانک فوٹوگرافرز نے ہمارےاسٹال پر دھاوا بول دیا ۔ ۔ہم سب کلک کلک کی زد میں آئے ۔ ۔ مگر یہ کیا گورے، کالے، پیلے ہر وضع قطع کے غیر ملکی صحافی لوگ ہمارے پاس آتے اور ہماری اجازت لے کر ہماری تصاویربنا کر شکریہ کے ساتھ چلے جاتے ۔
ابھی حیرانی سے بے ہوش ہونے ہی والے تھے کہ دو غیرملکی صحافی اپنا بڑا سا وڈیو کیمرا لے کر ہمارے پاس آئے ۔ ۔ اور ہمارے سامنے اپنی ہتھیلی کر دی ۔ ۔ اس پر انگریزی میں لکھا تھا کہ انہیں ترکش ٹی وی کے لیئے ہمارا انٹرویو چاھیئے ۔ ۔ ایکسکیوز می ۔ ۔ !!! واٹ۔۔۔!!! ہم نے پوچھا ۔ ۔ ایک نے جواب دیا ۔ ۔ نو انگلش ۔ ۔ نو انگلش۔ ۔ ہم نے سوچا کہ ترکی والے بھی کتنے کم پڑھے لکھوں کو صحافت میں لے لیتے ہیں ۔ ۔ اپنے اوپر ٹھیک ٹھاک فخر محسوس ہوا ۔ ۔ ہم نے اشارے سے اجازت دی ۔ ۔اب اس نے ہمارے آگے دوسری ہتھیلی کر دی ۔ ۔ اس پر چند سوالات لکھے تھے۔ ۔ انگلی کے اشارے سے اس نے ہمیں پہلے سوال پر متوجہ کیا ۔ ۔ "واٹ ڈو یو نو اباؤٹ ٹرکی؟" ۔ ۔ ایں دماغ اچانک خالی ہو گیا ۔ ۔ پھر ہم نے سنبھل کر کہا کہ" وہ ایک دوست ملک ہے ۔ ۔ ہم ان سے محبت کرتے ہیں اور وہ ہم سے ۔ ۔" (بروقت چالاکی ملاحظہ فرمائیں۔۔۔) انھوں نے دوسرے سوال پر اشارہ کیا ۔ ۔ لکھا تھا۔"واٹ از دا کیپیٹل آف ٹرکی؟" ارے بھئ بچوں جیسے سوالات ۔ ۔!! ہم نے سوچا ۔ ۔ اور بڑے فخر سے کہا "استنبول" ۔ ۔ وہ دونوں ہنسنے لگے اور ایک ساتھ کہا ۔ ۔"انقرہ " ۔ ۔ ۔ ۔ ہم بھی ہنسنے لگے آخر کیا کرتے ۔ ۔ !!! (اففف ۔ ۔ غرور کا سر منٹوں میں نیچا ہو گیا ۔ ۔ ہم نے سوچا ۔ ۔ ۔) برسوں بعد جب ہم ترکی گئے تو معلوم ہوا کہ اگرچہ ترکی زبان کا رسم الخط انگریزی ہے مگر اس میں کئ نئے حروف تہجی بھی شامل ہیں جن کی آواز انگریزی سےقطعی الگ ہے اور کہیں بھی متبادل انگریزی سائن بورڈز نظر نہیں آتے ۔ لوگوں کو انگریزی نہیں آتی اور ان کو کوئی احساس کمتری نہیں ۔ صرف سیاحتی مقامات پر گائڈز یا اکا دکا لوگوں کو آتی ہے) ۔ ۔ ۔ ۔ پھر انھوں نے ہمارے کالج اور وہاں موجود ہونے کی غرض و غایت کا پوچھا ۔ ۔ ہاں اس کا ہم نے تفصیلی جواب دیا ۔ ۔ چند منٹ کے اس انٹرویو کے بعد وہ شکریہ کر کے چلے گئے ۔ ۔ ہمارے سارے دوست تو ہم سے بڑے متاثر ہوئے۔ ۔ ( ہم خود بھی "متاثرین" میں شامل تھے ۔ ۔ سچ میں!!) خیر مزا آیا ۔ ۔
دوسرے دن جب ہم اپنی ڈیوٹی پر گئے توپتہ چلا کہ وہ دونوں کئ بار ہمارے بارے میں پوچھ چکے ہیں کہ جن کا کل انٹرویو لیا ہے وہ کہاں ہیں ۔ ۔ ہائیں اب تو ہمیں کچھ "گڑبڑیشن" محسوس ہوئ ۔ ۔ اچانک سامنے سے دونوں کو آتے دیکھا ۔ ۔ وہ بھی سیدھا ہماری طرف آئے ۔ ۔ ہم نے ہونق انداز میں ان کو دیکھا ۔ ۔ انھوں نے سلام کیا اور جیب سے ایک لفافہ نکال کر دیا ۔ ۔( ہیں یہ کیا ہے ۔ ۔ ہم نے سوچا) ہماری دوست نے مشکوک نظروں سے ہمیں دیکھا ۔ ۔ ہم نے غیر اختیاری طور پر وہ لفافہ لے لیا ۔ ۔ ۔ ۔ انھوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کے ارتغل کی طرح سر جھکایا۔۔(جی جی ارتغل کی طرح ۔ ۔ !! ) ہم نے لفافہ کھولا ۔ ۔ ارے یہ کیا اس میں ہماری افتتاح والے دن کی تصویر مو جود تھی ۔ ۔ اففف!! ہم نے شکریہ ادا کیا ۔ ۔ مگر دل میں ایک خیال کے آتے ہی ان سے پوچھا کہ ہم کو ہی کیوں دی ہے جبکہ ہمارے کالج کی ایک اور بھی دوست موجود تھیں ۔ ۔ پھر وہی جواب ۔ ۔۔ نو انگلش ۔ ۔ نو انگلش ۔ ۔ پھر ہمیں ٹھہرنے کا اشارہ کیا اور ایک گزرتے صاحب کو روک کر کچھ کہنے لگے ۔ ۔ پتہ چلا وہ ان کے مترجم ہیں اور اردو بھی جانتے ہیں!!! انھوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں اور ہم نے مختصراَ تمام بات بتائی اور پوچھا کہ انھوں نے ہمارا ہی انٹرویو کیوں لیا اور یہ تصویر بھی دی ۔ ۔ جب مترجم صاحب نے ان سے ترکی میں پوچھا تو وہ ہنسنے لگے ۔ ۔ پھر ان کا جواب سن کر مترجم صاحب بھی ہنسنے لگے ۔ ۔ اور مسکراتے ہوئے بتایا کہ یہ صحافی پہلی بار پاکستان آئے تھے ۔ ۔ ان کے ذہن میں اپنے ہم وطنوں کی طرح ہمارے ملک کی خواتین کے بارے میں بالکل افغانستان کی خواتین جیسا تصور تھا یعنی برقع پوش۔ ۔ مگر ان کو ایک بھی ایسی خاتون یہاں نظر نہ آئیں جن کو وہ اپنے ملک کے تصور کے مطابق دکھا سکتے اور کیونکہ صرف ہم نے ہی اسکارف پہنا تھا تو انھوں نے ہماری اخبارات کے لیئے تصویر اور ملکی ٹی وی کے لئے وڈیو بنائی اور شکرانے کے طور پر ہمیں یہ تصویر عنایت کی ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ہاہاہا ۔۔۔جی اب ہماری ہنسنے کی باری تھی ۔ ۔۔۔ اور اس کے بعد دوستوں ہمارا "تیار" نہ ہونے کا ملال جاتا رہا ۔ ۔ بھئ آخر کوہماری دوستیں تو صرف کالج کی جب کہ ہم پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے ۔ ۔ اب سمجھ آیا کہ کیوں مقامی میڈیا ہماری دوستوں پر اور غیرملکی میڈیا ہم پر مہربان تھا۔ ۔ ۔!!



آخری تدوین: