نصرت فتح علی ہے کہاں کا ارادہ تمہارا صنم

معین الدین

محفلین
ہے کہاں کا ارادہ تمھارا صنم
کس کے دل کو ادائوں سے بہلائوں گے
سچ بتائو کے اس چاندنی رات میں
کس سے وعدہ کیا ہے کہاں جائوں گے
دیکھو اچھا نہی ہے تمھارا چلن
یہ جوانی کے دن اور یہ شوخیاں
یوں نہ آیا کرو بال کھولے ہوے
ورنہ دنیا میں بدنام ہو جائوں گے
آج جائو نہ بے چین کر کے مجھے
جانِ جاں دل دکھانا بری بات ہے

ہم تڑپتے رہینگے یہاں رات بھر
تم تو آرام کی نیند سو جائو گے

پاس آئو تو تم کو لگائے گلے
مسکراتے ہو کیوں دور سے دیکھ کر
یونہی گزرے اگر یہ جوانی کے دن
ہم بھی پچھتائینگے تم بھی پچھتائو گے

بے وفا بے مروت ہے ان کی نظر
یہ بادل جائینگے زندگی لُوٹ کر
حسن والوں سے دل کو لگایا اگر
اے "فنا" دیکھو بے موت مر جائو گے

استاد محترم نے اشعار کا اضافہ کرتے ہوئے جس ترتیب سے پیش کیا ابھ اس ترتیب سے

آج کی بات بھر نہیں ہوگی
یہ ملاقات پھر نہیں ہو گی
ایسے بادل تو پھر بھی آئینگے
ایسی برسات پھر نہیں ہو گی

رات اُن کو بھی ہوا یہ محسوس
کہ یہ رات پھر نہیں ہوگی
اک نظر مڑ کے دیکھنے والے
کیا یہ خیرات پھر نہیں ہو گی

شب غم کی سحر نہیں ہوتی
ہو بھی تو میرے گھر نہیں ہوتی
زندگی تو ہی مختصر ہو جا
شب غم تو مختصر نہیں ہوتی

رازاداروں سے بچ کے چلتا ہوں
غمگساروں سے بچ کے چلتا ہوں
مجھ کو دھوکہ دیا سہاروں نے
اب سہاروں سے بچ کے چلتا ہوں

میں نے معصوم بہاروں میں تمہیں دیکھاہے
میں نے پرنورستاروں میں تمھیں دیکھاہے
میرے محبوب تیری پردہ نشینی کی قسم
میں نے اشکوں کی قطاروں میں تمہیں دیکھاہے

ہم بتوں سے جو پیار کرتے ہیں
نقل پروردگار کرتے ہیں
اتنی قسمیں نہ کھائو گھبرا کر
جائو ہم اعتبار کرتے ہیں

اب بھی آجائو کچھ نہیں بگڑا
اب بھی ہم انتظار کرتے ہیں

سازِ حستی بجا رہا ہوں میں
جشنِ مستی منا رہا ہوں میں
کیا ادا ہے نثار ہونے کی
اُن سے پہلو بچا رہا ہوں میں

کتنی پختہ ہے میری نادانی
تجھکو تجھی سے چھپا رہاہوں میں
دل ڈبوتا ہوں چشمِ ساقی میں
مے کو مے میں ملا رہاہوں میں

نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے
پسینہ پونچھئیے اپنی جبیں سے

ہے کہاں کا ارادہ تمھارا صنم
کس کے دل کو ادائوں سے بہلائوں گے
سچ بتائو کے اس چاندنی رات میں
کس سے وعدہ کیا ہے کہاں جائوں گے

دیکھو اچھا نہی ہے تمھارا چلن
یہ جوانی کے دن اور یہ شوخیاں
یوں نہ آیا کرو بال کھولے ہوے
ورنہ دنیا میں بدنام ہو جائوں گے

آج جائو نہ بے چین کر کے مجھے
جانِ جاں دل دکھانا بری بات ہے

زلف رخ سے ہٹا کے بات کرو
رات کو دن بنا کے بات کرو
میکدے کے چراغ مدہم ہے
ذرا آنکھیں اُٹھا کے بات کرو

پھول کچھ چاہیئے حضور ہمیں
تم ذرا مسکرا کے بات کرو
یہ بھی اندازِ گفتگو ہے کوئی
جب کرو دل دُکھا کے بات کرو

ہم تڑپتے رہینگے یہاں رات بھر
تم تو آرام کی نیند سو جائو گے

پاس آئو تو تم کو لگائے گلے
مسکراتے ہو کیوں دور سے دیکھ کر
یونہی گزرے اگر یہ جوانی کے دن
ہم بھی پچھتائینگے تم بھی پچھتائو گے

بے وفا بے مروت ہے ان کی نظر
یہ بادل جائینگے زندگی لُوٹ کر
حسن والوں سے دل کو لگایا اگر
اے "فنا" دیکھو بے موت مر جائو گے

 
Top