عظیم اللہ قریشی
محفلین
دنیا کی رنگین داستانوں میں سے ایک رنگین داستان ہیلن آف ٹرائے کی بھی ہے جس کی وجہ سے مغرب یعنی یونان اور مشرق یعنی ایشیائے کوچک کے درمیان ایک عظیم جنگ برپا ہوئی تھی حالانکہ اصل میں یہ کہانی بھی کچھ اور ہے ۔دراصل یہ کتھا سراسر Mythہے اور اس کی بنیاد آریاؤں کے دوگروہوں خانہ بدوشوں اور زراعت کاروں کے درمیان لڑائیوں میں سے نکلی ہےاور جب یہ آریائی گروپ منتشر ہوکر مختلف ممالک میں پھیل گئے تو اس کہانی کے بنیادی عناصر بھی ساتھ لے گئے اور سب نے اپنے اپنے طریقے سے اس کی کہانیاں بنا لیں۔
یونانیوں نے اس کہانی کو ہیلن آف ٹرائے کی Mythبنادیا۔ہندی آریاؤں نے اسے رامائن یعنی رام چندر اور سیتا کی دیومالائی کتھا میں ڈھالا اور ایرانی آریاؤں نے اسے بہرام اور گل اندام کی اساطیری کہانی کا روپ دیا اس حقیقت کی تصدیق کہانی کے بنیادی کرداروں سے ہوتی ہے تینوں داستانوں میں ہیروئن ایک ایسی لیڈی،خانم اور دیوی جی ہے جسے ہیرو یا شہزادہ ایک سخت مقابلے کے بعد جیت جاتا ہے ۔تینوں داستان میں قدر مشترک نکتہ یہ ہے کہ اس میں شادی شدہ عورتوں کو اغوا ءکیا جاتا ہےاور یہ قدم پسندیدگی کی بجائے انتقام کے پیش نظر اٹھایا جاتا ہے۔تینوں افسانوں میں مختلف قوموں یا مخلوق کے درمیان ایک عظیم جنگ ہوتی ہےتینوں کہانیوں میں شہزادی کو ایک دشوار گزار جگہ جگہ لے کر قید کیا جاتا ہے تینوں کی بازیابی کے لیئے کسی نہ کسی جانور کی مدد لی گئی ہے تینوں کتھاؤں میں اغواء کرنے والا انتہائی طاقتور اور ایک الگ نسل یا طبقہ کا حکمران ہے۔
مثلا سیتا کو رام نے سوئمبر میں جیتا تھا ،گل اندام کو بھی بہرام نے کئی دیوؤں کو مار کر حاصل کیا تھا اور ہیلن کو بھی اس کے شوہر نے بڑے جتن کے بعد حاصل کیا تھا ۔سیتا کو راون نے اپنی بہن کی بے عزتی اور بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیئے اغواء کیا تھا ۔ترابان دیو نے بھی گل اندام کو اس لیئے اغواء کیا تھا کہ بہرام نے اسے حاصل کرتے ہوئے اس کے دوبھائیوں کو قتل کردیا تھا ۔ٹرائے کے شہزادے سیرس یا الیگزینڈر نے ہیلن کو اس لیئے اغواء کیا تھا کہ یونانی ایشیائے کوچک سے یوروپے نام کے شہزادے کو اغواء کرچکے تھے ۔
سیتا کو لنکا میں رکھا گیا جہاں پہنچنا دشوار گزار تھا ۔گل اندام کو کوہ قاف سے پرے لے جایا گیا تھا اور ہیلن کو سمندر پار ٹرائے کے قلعے میں رکھا گیا تھا جو ناقابل تسخیر تھا ۔
راون اسوروں کا حکمران تھا جو انسانوں کے جدی پشتی دشمن تھے ۔ایرانی اپنے دشمنوں کو دیو کہتے تھے اور یونانیوں کی ہریام نامی بادشاہ سے دشمنی تھی ۔
ہیلن کی کہانی میں تو یورپی اور ایشیائی اقوام کا فرق ہے لیکن راون اور ترابان ایک الگ مخلوق تھے ۔دراصل ایرانی اپنے دشمن ہندی آریاؤں کو دیو کہتے تھے کیونکہ ان کے خدا کو نام دیو ہوتا تھا اور جواب میں ہندی ایرانیوں کو اسور کہتے تھے کیونکہ ایرانی اہور یعنی آہورمزدا کو پوجتے تھے ۔چنانچہ ایک دوسرے کوانہوں نے یہ نام دے رکھے تھے حالانکہ دونوں انسان ہی تھے لیکن بعد میں اساطیری طور پر دیو اور اسور ایک الگ اور غیر انسانی کردار بنادیئے گئے۔
تینوں ہیروئنوں یعنی بیاہتا خواتین کے انتقامی اغواء کے بعد زبردست لڑائیاں ہوئیں جن میں جانور کے کردار مدد دیتے ہیں ۔جیسے ہم لوگ اپنی عام روز مرہ کی بات چیت میں کہتے ہین گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ۔رام کی دیومالا میں ایک بندر ہنومان کا اور بہرام کی اساطیر میں ایک دیو قامت پرندہ سیمرغ اور ہیلن کی Mythمیں ایک لکڑی کے گھوڑے کا ذکر ہے جو ہیروز کومنزل مقصود تک پہنچادیتے ہیں۔
اصل میں تینوں کہانیوں میں عورت سلطنت کااستعارہ ہے جسے اصل مالک سے چھینا گیا اور پھر اس نے دوبارہ اپنا حق حاصل کرلیا۔