باب سوم
بن بلایا مہمان
(محمد خلیل الرحمٰن)

گھر اسے کیا کہیں، بھوت بنگلہ کہیں
ہولناکی کہیں، جن سراپا کہیں

پہلی طوفانی شب یونہی ڈھلنے لگی
ہر طرف ایک آندھی سی چلنے لگی

جونہی بارہ بجے، ہیری مرجھا گیا
اپنی اماں کا پیار اس کو یاد آگیا

اب بتائیں تمہیں، تھا یہ دن کونسا
یہ وہی دن تھا جب ہیری پیدا ہوا

ہیری پوٹر کو تھا بس یہی دکھ بڑا
ہیپی برتھ ڈے کسی نے نہیں تھا کہا

بس اسی دم وہاں اک دھماکا ہوا
روشنی کا بھی ساتھ اک جھماکا ہوا

کھڑکیاں اور کواڑ ایسے بجنے لگے
جیسے بادل کہیں پر گرجنے لگے

یہ جو دیکھا تو خالو بھی آگے بڑھے
رائفل ایک ہاتھوں میں تھامے ہوئے

’’کون ہے؟‘‘ چیخ کر یہ انہوں نے کہا
پھر بھی دستک کا یہ سلسلہ نہ رکا

’’ مار دوں گا میں گولی‘‘ انہوں نے کہا
ان کی دھمکی کا فوراً جواب آگیا

پہلے دروازہ ٹوٹا، دھماکا ہوا
دیو قامت کوئی کود کر آگیا

اندر آتے ہی اس نے غضب یہ کیا
چھین لی رائفل اور نہتا کیا

خالی ہاتھ اس کو خالو بھی دیکھا کیے
ہاتھ دو چار اس نے انہیں جڑ دئیے

’’میں نہیں مانتا! بس نہیں مانتا‘‘
بس یہی ایک جملہ انہوں نے کہا

پھر وہ چپ چاپ ہیری کو دیکھا کیے
دل میں کیا جانے کیا کیا تمنا لیے

باب اول: وہ لڑکا جو زندہ رہا
باب دوم: گمنام خطوط کا معمہ
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
بہت خوبصورتی اور مہارت سے ہیری کی داستان کو آپ نے نظم کے روپ میں ڈھالا ۔

عمدہ ۔۔۔۔ منظوم داستان نے بہت لطف دیا
 
Top