ہو مےو پےتھی ۔انہونی پےتھی

راجہ صاحب

محفلین
پروفےسر ڈاکٹر انور امےر M.D:
گذشتہ آرٹےکل کے ذرےعہ ہم نے اےلو پےتھی کی دواو¿ں کے ذرےعے مرض کو دبانے اور ہو مےوپےتھی دواو¿ں سے ان امراض کے واپس ابھر کر آنے کا ذکر کےا تھا ۔ اور ےہ بتاےا تھا کہ کس طرح اےلو پےتھی دواو¿ں کے ذرےعہ مرض کو دبانے کی کو شش کے نتےجے مےں بےماری اےک اہم عضو سے زےادہ اہم عضو کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور جب اس کا صحےح علاج ہو مےو پےتھی کے ذرےعہ ’ ’علامت کلےہ“ اور ”افاقہ¿ کلےہ کے فلسفے پر عمل پےراہو کر کےا جاتا ہے جےسا کہ ہو مےو پےتھی کے بانی معزز ڈاکٹر ہےنی مےن نے بتاےا اور اس کی بنےاد پر ہو مےو پےتھی ڈاکٹر علاج کر تا ہے تو مرض جڑ و بنےاد سے ختم ہو جاتا ہے ۔ دبی ہو ئی پرانی بےماری کے دوبارہ ابھر کر سامنے آنے پر طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔


ہو مےو پےتھی طرےقہ¿ علاج کی رو سے ےہ بات با لکل نارمل ہے کہ جو بےماری مکمل طور پر ختم نہےںہو ئی بلکہ دبا دی گئی ہے وہ اےک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اس کے بعد ہمےشہ کے لئے ختم ہوجاتی ہے لےکن ہو تا ےہ ہے کہ جب ہو مےو پےتھی علاج کے دوران پرانی بےماری ابھر کر آتی ہے تو مرےض پرےشان ہوجاتا ہے۔ وہ ےہ سمجھتا ہے کہ ہو مےو پےتھی علاج کی وجہ سے اےک پرانی بےماری جو ختم ہو گئی تھی پھر سے واپس آگئی ہے۔ اکثر ہو مےو پےتھی کے ڈاکٹر مرےضوں کو مطمئن نہےں کر پاتے ےا پھر ہو مےو پےتھی طرےقہ¿ علاج سے ہی سمجھوتہ کر لےتے ہےں۔ دونوں ہی صورتےں تکلےف دہ ہےں ۔ اس سے اےک طرف تو ہو مےو پےتھی طرےقہ¿ علاج کی بدنامی ہو تی ہے تو دوسری طرف عوام ہو مےو پےتھی کے مفےد اثرات سے محروم رہ جاتے ہےں۔ کبھی کبھی خود ہو مےوپےتھی ڈاکٹر بھی مرض کی صحےح تشخےص اور دوا کی صحےح تجوےز مےں ناکام ہو جاتے ہےں او ر کو ئی بےماری ابھر کر سامنے آجاتی ہے تو ےہ ڈاکٹر کے بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اس کو ہومےوپےتھی کھاتے مےں ڈال دےتے ہےں۔ اکثر ےہ ڈاکٹرخود بھی مرض کو دبانے کے لئے جھولا بھر پےٹنٹ دوائےں استعمال کر تے ہےں جو کہ ہو مےو پےتھی فلسفے کے با لکل خلاف ہے۔ لےکن کےونکہ ےہ سب کچھ ہو مےو پےتھی کے ذرےعہ ہو تا ہے اس لئے ساری بدنامی ہو مےو پےتھی کے حصے مےں آتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بےمارےاں کس طرح اےلو پےتھی دواو¿ں ےا دےگر طرےقوں سے دبائے جانے کے بعد سنگےن رخ اختےار کر تی ہےں اس کو ہم اپنے اےک پرانے کےس کے ذرےعہ سمجھےں گے۔ہمارا ذہن ہمےشہ سے ےہ رہا ہے کہ جو بات کہےں دلےل اور اپنے مشاہدے کے ساتھ کہےں بغےر دلےل ےا مشاہدے کے اگر کو ئی بات کہی جائے تو وہ سائنٹفک برادری (Scientific Fraternity) کے حلق سے نہےں اترتی ۔ عام لو گوں کو بھلے وہ بات متاثر کر جا ئے ۔ چو نکہ ہمارا کام زےادہ تر ملکی اور غےر ملکی سائنٹفک برادری کے درمےان سےمےناروں اور کلےنکل مےٹنگسClinical Meetings مےںاورM.Dطلباءکے درمےا ن ہو تاہے اس لئے فطری طور پر ہماری رےسرچ زےادہ قابل اعتماد اورکارآمد مانی جاتی ہے۔


ہماری اس کارکردگی کو جب مالکان اردو ٹائمز نے دےکھا اور جب ان کے کچھ قرےبی لو گوں کے کےس مےں ہماری رےسرچ کی کامےابی اور ہمارے مشاہدے اور طرےقہ¿ کار سے مثبت نتائج حاصل ہو ئے اور انہےںمکمل شفا ءملی تو انہوں نے ہمےں مدعو کےا ےہ کہتے ہو ئے کہ جس طر ح مشکل اور پےچےدہ کےسوں مےں ہو مےو پےتھی کے ذرےعے آپ کے طرےقہ¿ کار سے لو گوں کو فائدہ پہنچا ہے ہم چاہتے ہےں کہ اس کا زےادہ سے زےادہ فائدہ لو گوں کو ملے ۔ ےہی وجہ ہے کہ آج ہم اردو ٹائمز کے ذرےعہ آپ سے خطاب کر تے ہےں۔ ہم مشکور و ممنون ہےں اردو ٹائمز کے مالکان کے کہ وہ طبی معاملے مےں بھی عوام الناس کی خدمت کرر ہے ہےں ۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمےں بھی اس خدمت مےں حصے داری ملی۔


اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہےں۔ ملےرےا(Malaria) اےک عام سی بےماری ہے جس کے لئے اےلوپےتھی مےں عام طور پرCloroquineنام کی دوا دی جاتی ہے۔ لےکن کےا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اس کے بعد کےا ہو سکتاہے ۔ ہم نے جب اس مو©ضوع کو اپنی رےسرچ کا موضوع (Subject) بناےا اور اس کی گہرائی سے چھان بےن کی تو بہت سے چونکا دےنے والے حقائق سامنے آئے۔ ہماری رےسرچ سے ےہ ثابت ہو گےا کہ ملےرےا کی اس دوا کو استعمال کر کے جب اس مرض کو دباےا جا تا ہے تو بعد مےں جوڑوں کی اےک سنگےن بےماری رھےو مٹائڈ آرتھرائٹس(Rheumatioid Arthritis) اورجو ڑو ں کے دےگر امراض کے بڑے پےمانے پر ابھر کر سامنے آنے کا امکان ہو تا ہے۔ ہم نے اس رےسرچ اور تحقےق کو پوری سائنٹفک برادری مےں سےمےناروں مےں پےش کےا ہے اور لو گوں نے اس کو تسلےم کےا اور اس کی تصدےق بھی کی ہے۔ اپنی بات کو مزےد پختگی کے ساتھ پےش کر نے کے لئے ہم خود اپنے ہی اےک کےس کا تذکرہ کرےں گے جس سے ےہ حقےقت آسانی سے آپ کی سمجھ مےں آجا ئے گی۔


ےہ کےس ہے مروڑ جنجےرہ ( Murud Janjira) کے کفاےت مختار صاحب کا ۔ ۱۹۸۹ءمےں ہمارے زےر علاج آئے جو ہماریپرےکٹس کا شروعاتی دور تھا ۔ کفاےت مختار صاحب کو ےت مےں ملازمت کرتے تھے لےکن انہےں جوڑوں مےں بےماری کی مشکلات ہو ئی جس کی وجہ سے انہےںکوےت چھوڑ کر ہندوستان آنا پڑا ۔ ےہاں آنے پر ان کی بےماری بڑھتی چلی گئی ۔ ان کے جسم مےں سوجن اکڑن اور درد شروع ہو ا جو دن بہ دن بڑھتا چلا گےا ۔ جسم کا کو ئی حصہ اور کوئی جوڑ گردن سے کمر اور رےڑھ تک اور جبڑے سے لے کر ہاتھ پےر کی انگلےوں تک کو ئی حصہ اکڑن سے محفوظ نہےں تھا ۔ چبا کر کھانا ناممکن ہو گےا تھا ۔ ان کی زندگی پو ری طرح مفلوج ہو گئی تھی۔کسی کام کے لئے نہےں رہ گئے تھے۔ ان کا ممبئی کے پرنس علی خان اسپتال مےں علاج شروع کےا گےا ۔ان کی اس بےماری کوRheumatoid Arthritis with Ankylosing Spondylitisرھےو مٹائڈآرتھرائٹس وتھ کلےوزنگ اسپونڈی لائٹس بتاےا گےااو ر ۶ ماہ تک ان کا علاج جاری رہا۔ ڈاکٹروں نے درد کش دواو¿ں Pain-Killersاور دےگر دواو¿ں کا استعمال کےا لےکن قطعی کو ئی فائدہ نہےں ہو ا ڈاکٹروں نے اسٹےرائڈس Steroidsکابھی بھر پور استعمال کےا لےکن اس سے کو ئی فائدہ نہےں ہوا ۔ نہ صرف ےہ کہ کو ئی فائدہ نہےں ہو ا بلکہ ڈاکٹروں کو ےہ ڈر بھی ستانے لگاکہ اگر اسٹرائڈس کا زےادہ استعمال کےا گےا تو مرےض کے دےگر اعضاء ،دل ،گردہ وغےرہ پر بھی اس کا اثر پڑسکتا ہے۔ اور دےگر اہم اعضا بھی متاثر ہو سکتے ہےں۔ڈاکٹروں کا مشورہ ےہ تھا کہ مرےض کو اےسے ہی اٹھا لے جائےں تاکہ مزےد بےمارےوں سے بچا جا سکے کےو نکہ دوران علاج ہی دل مےں سوجن کی شکاےت پےداوہ چکی تھی ۔ مرےض کو سانس لےنے مےں دشواری ہونے لگی تھی۔پوری رات بیٹھ کر گذارنا پڑتی تھی۔مایوس اور نہ امید ہو کر گھر والے مریض کو اسپتال سے ڈسچارج کرالے گئے ۔امید کی کرن دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی شاید ذہنی طور پر اس بات کے لئے تیار تھے کہ فاقی زندگی اسی طرح کٹ جائے گی ۔کیونکہ مریض ایلوپیتھی کے بعد آیوروید یونانی اور ہومیوپیتھی کا بھی علاج کرا کے تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے۔یونانی اور آیوروید اور ہومیوپیتھی کے چوٹی کے ماہر ڈاکٹروں نے بھی ہار مان لی تھی ۔مریض کی جو کیفیت تھی اور گھر والوں کی جو تکلیف تھی ا سکا لفظوں میں بیان ممکن ہی نہیں۔اسی دوران ہمارے ایک شناسا ڈاکٹر اقبال ڈانڈیکر جو کہ کرافورڈ مارکیٹ کے ایک مشہور معالج ہے ان کے توسط سے ہم سے علاج کے لئے رجوع کیا۔


ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ جب پہلی مرتبہ وہ ہماری کلینک پر آئے تو ا ن کی حالت یہ تھی کہ چار آدمی ان کو اٹھا کر لائے تھے کیونکہ وہ چلنے پھرنے سے تو معذور تھے ہی،لیٹنے بیٹھنے اور ہلنے ڈلنے کی بھی پوزیشن میں نہیں تھے ہم نے بسم اللہ کہہ کر ان کا علاج شروع کیا ۔اور اورم میٹالکم(AURUM METALLICUM)نام کی دوا کا استعمال کیا۔یہاں ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ مریض کے اندر یہ ساری کیفیت ملیریا کے ایلوپیتھی علاج کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی تھی۔کیونکہ علاج کے فوراً بعد ہی یہ تمام شکایتیں ابھرنے لگی تھیں۔


جب ہمیں ان حقائق کا علم ہوا تو ہم نے مریض کے گھر والوں سے صاف طور پر بتا دیا کہ ہومیوپیتھی کے ذریعے ہمارے طریقہ¿ کار علاج کے دوران وہ بیماری یقینی طور پر ابھر کر آئے گی جو ایلوپیتھی دوا سے دبادی گئی تھی اس کے علاوہ شفاءممکن ہی نہیں ۔مریض کے گھر والوںنے اس سے اتفاق کرلیا۔چنانچہ علاج شروع ہوتے ہی مریض کے اندر پرانی علامتیں ابھرنا شروع ہوگئی۔ٹھنڈی بخار آنے لگا ہمارے طریقہ¿ علاج کے حساب سے یہ ایک مثبت پیش رفت تھی مرض کے خاتمے کا آغاز لیکن بخار جب 104-105-106ڈگری تک بڑھ گیا تو گاو¿ں کے لوگوں کو تشویش ہوئی۔مروڈ ،جنجیرہ چھوٹی سی بستی ہے زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کوجانتے ہیں۔سب کے سب کفایت مختار کے گھر جمع ہو گئے اور جب انہوںنے دیکھا کہ مریض 104-105ڈگری بخار میں تپ رہا ہے توان کو لگا کہ علاج میں کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے۔پورے علاقے میں ایک طوفان سا مچا ہوا تھا لوگ اس کے لئے ڈاکٹر کوگالیاںدے رہے تھے فون پر بھی مجھے مسلسل پریشان کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے میری راتوں کی نیند اڑگئی تھی۔خود مجھے بھی بے حد Tensionہو رہا تھا۔ہم نے مریض کو ٹھنڈے پانی کا Spongingکے علاوہ کسی بھی دوا سے گریز کرنے کے لئے کہا۔

ایک خاص بات جو گاو¿ں نے مارک نہیں کی وہ یہ تھی کہ ٹھنڈی اوربخار کے دوران مریض کے تمام جوڑ آہستہ آہستہ کھل گئے تھے اور ہاتھ پیر اور دیگر تمام عضاءکی اکڑن ختم ہو کر کام کرنے لگے۔اس تناو¿ بھرے ماحول میں صرف مریض© کی بیوی اور اس کا بھائی ایسے لوگ تھے جو اس طریقہ¿ علاج سے پوری طرح مطمئن تھے کیونکہ میں نے پہلے ہی ان کو اعتماد میں لے لیا تھا اور انہیں بتا دیا تھا کہ یہ علامتیں ابھر نے لگی اور اس کے بغیر علاج نا ممکن ہے۔لیکن گاو¿ں والوں کو کون سمجھاتا ۔لیکن جیسے جیسے فائدہ ہوتا گیا لوگوں کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوتا گیا ۔سات دنوں تک بخار چڑھتا رہا۔اس دوران گاو¿ں والوں کا غصہ بھی آسمان پر تھا دھیرے دھیرے بخار اترنے لگا اور گاو¿ں والوں کو بھی سچائی سمجھ میں آنے لگی ۔آپ یقین کیجئے کئی سال سے زیادہ مدت سے مفلوج پڑا ہوا انسان جب دوبارہ ۱۵ دن بعد ہمارے کلینک پر آیا تو اپنے پیروں پر چل کر آیا ۔یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا خود میرے لئے بھی یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔اس مریض کے شفایاب ہونے کے بعد جو لوگ ہمیں گالیاں دیتے تھے دعائیں دینے لگے۔آج بھی اس گاو¿ں سے بلکہ پورے کوکن کے خطے سے ہمارا بہت مضبوط تعلق ہے۔بڑی تعداد میںمریض وہاں سے کلینک پر آتے ہیں آج کفایت مختار پوری طرح صحتمند اور خوش و خرم زندگی گذار رہے ہیں ۔گذشتہ ۱۹ سالوں سے معمول کے مطابق اپنے کام کاج میں مصروف ہے ۔قارئین ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ یہ طریقہ¿ علاج اور اس طرح کی کامیابی صرف ہومیوپیتھی میں ہی ممکن ہے کسی اور طریقہ¿ علاج میں یہ تصور ہی موجود نہیں ہے۔ہم آپ کو یہ بتا دینا چاہتے ہیںکہ صرف ہومیوپیتھی ڈاکٹر یا ہومیوپیتھی دواو¿ں کا استعمال ہی کافی نہیں ہے ہومیوپیتھی کے فلسفے پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اگر مرض کی صحیح تشخیص کئے بغیر مرض کی صحیح تشخیص کے بعد بھی کوئی ہومیوپیتھی ڈاکٹر ہومیوپیتھی دواو¿ں کا استعمال ہومیوپیتھی فلسفہ کے خلاف کرتا ہے تو یہ ہومیوپیتھی علاج ہر گز نہیںہے۔غلط طریقے سے ہومیوپیتھی دواو¿ں کا استعمال کر کے اس طرح کی بیماریوں کا علاج ہر گز نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہومیوپیتھی ڈاکٹروں کی غلطی کی وجہ سے ہومیوپیتھی طریقہ¿ علاج بد نام ہوتا ہے ۔


قارئین ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ تحریر ہومیوپیتھی کے بانی معزز ڈاکٹر ہینی مین کی ایک اہم تصنیف ”آرگنان آف میڈیسن ||ORGANON OF MEDICINE|| کی روشنی میں کیا ہے ۔انہوں نے ||INTERMITTENT DISEASES||کے متعلق APHORISMSکے فٹ نوٹ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر اسطرح کی بیماریوں کا ایلوپیتھی طریقےسے علاج کر کے اگرمرض کو دباےا جاتا ہے تو جوڑوں کی بےماری پےدا ہو نا لازمی ہے۔ ملےرےا اسی زمرہ مےں آتا ہے ۔ اب تک اس پر کسی نے توجہ نہےں دی تھی۔ ہم نے ڈاکٹر ہےنی مےن کے اس مشاہدے کو عملی طور ثابت کرکے دکھادےا ہے۔ اس طرح کے سےنکڑوں اور کےس ہم ہو مےو پےتھی کے Homeopethic Aggravation / Theory of Suppressionاور Hearing|s Law کے تحت حل کر چکے ہےں۔



ہم نے اس تجربہ اورمشاہدے کو مختلف سےمےناروں اور کلنکل مےٹنگوں کے ذرےعہ ہو مےو پےتھی کے معالجےن ماہرےن اور طلبہ کے سامنے پےش کےا ۔ان سب نے اس کو تسلےم کر لےااور وہ بھی اب اس کو اپنی پرےکٹس مےں استعمال کر رہے ہےں جو اس مشاہدے کی سچائی کا سائنٹفک ثبوت ہے۔
نو ٹ: کفاےت مختار صاحب مروڑ پےٹھ محلہ مروڑ جنجےرہ کے رہنے والے ہےں او ر ان سے 09421159319اس نمبر پر رابطہ قائم کر کے ان باتوں کی تصدےق کی جا سکتی ہے۔ مزیدمعلومات کے لئے رابطہ قائم کےا جا سکتا ہے:۔
پروفیسر ڈاکٹرانورامیر M.D.
ہومیوپیتھک ہیلتھ اینڈریسرچ سینٹر
(۱) ۵۱ پٹیل آرکیڈ‘پہلا منزلہ ‘کیڈی ٹاورس :۲۳۴ ۲۳۳ بیلاسس روڈ‘ساگر ہوٹل کے سامنے ناگپاڑہ جنکشن ممبئی ۴۰۰۰۰۸
ٹائم ....10.30am to 3.30 pm
فون ....23004747
(۲) تمیزکلینک ‘سی بریزبلڈنگ ۔ ۹۵۹۳کیڈل روڈ ، ماہم مےڈکو کے پےچھے نزدماہم درگاہ ‘ ماہم ممبئی ۴۰۰۰۱۶,
ٹائم :5pm to 7pm
فون :24451354
Email:dranwaramir@hotmail.com


 

شمشاد

لائبریرین
راجہ صاحب آپ نے تحریر تو نقل کر کے چسپاں کر دی، غالبا ان پیج سے یونیکوڈ میں کی ہے۔ برائے مہربانی اس کو پہلے پڑھ لیا کریں، اس میں املا کی بے شمار غلطیاں ہیں، الفاظ ٹوٹے ہوئے ہیں اور ہندسے نظر ہی نہیں آ رہے۔ وہ سب ڈبے نظر آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر :

ہم نے اس تجربہ اورمشاہدے کو مختلف سےمےناروں اور کلنکل مےٹنگوں کے ذرےعہ ہو مےو پےتھی کے معالجےن ماہرےن اور طلبہ کے سامنے پےش کےا ۔ان سب نے اس کو تسلےم کر لےااور وہ بھی اب اس کو اپنی پرےکٹس مےں استعمال کر رہے ہےں جو اس مشاہدے کی سچائی کا سائنٹفک ثبوت ہے۔

اب ذرا اس پیراگراف میں غلطیاں ملاحظہ فرمائیں :

سےمےناروں : سیمناروں
مےٹنگوں : میٹنگوں
ذرےعہ : ذریعے
ہو مےو پےتھی : ہومیوپیتھی
معالجےن : معالجین
ماہرےن : ماہرین
پےش : پیش
کےا : کیا
تسلےم : تسلیم
پرےکٹس : پریکٹس
مےں : میں
ہےں : ہیں

یہ اتنی غلطیاں صرف دو لائینوں والے پیراگراف میں ہیں، باقی کی آپ خود اندازہ لگا لیں۔
 

راجہ صاحب

محفلین
بھائی یہاں پوسٹ کرنے سے پہلے ہی کر لیتے تو زیادہ اچھا ہوتا، لیکن آپ نے ان پیج سے تبدیل کر کے بغیر پڑھے ہی ادھر چسپاں کر دیا۔

میں جو کنورٹر استعمال کرتاہوں‌ اس میں‌ عام طور پر ایسا نہیں‌ ہوتا ، اس لئے دھیان نہیں‌ دے سکا :confused:
 

الف عین

لائبریرین
اس کی پروف ریڈنگ سے زیادہ بہتر ہے کہ راجہ صاحب اسی ان پیج کو شارق کے کنورٹ میں کنورٹ کریں۔ امانت علی کا یہ پرانا ورژن ہے جو اس قدر اغلاط کرتا ہے۔ ان کا نیا ورژن پھر بھی کچھ بہتر ہے لیکن شارق کے کنورٹر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
 
Top