ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا۔۔

مومن فرحین

لائبریرین
ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا
زہر چپکے سے دوا جان کے کھایا ہوگا

دل نے ایسے بھی کچھ افسانے سنائے ہوں گے
اشک آنکھوں نے پیے اور نہ بہائے ہوں گے
بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے
ایک اک حرف جبیں پر ابھر آیا ہوگا
ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا

اس نے گھبرا کے نظر لاکھ بچائی ہوگی
دل کی لٹتی ہوئی دنیا نظر آئی ہوگی
میز سے جب مری تصویر ہٹائی ہوگی
ہر طرف مجھ کو تڑپتا ہوا پایا ہوگا
ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا

چھیڑ کی بات پہ ارماں مچل آئے ہوں گے
غم دکھاوے کی ہنسی میں ابل آئے ہوں گے
نام پر میرے ، جب آنسو نکل آئے ہوں گے
سر نہ کاندھے سے سہیلی کے اٹھایا ہوگا
ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا

زلف ضد کرکے کسی نے جو بنائی ہوگی
اور بھی غم کی گھٹا مکھڑے پہ چھائی ہوگی
بجلی نظروں نے کئی دن نہ گرائی ہوگی
رنگ چہرے پہ کئی روز نہ آیا ہوگا
ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا


 
Top