ہنس کے اس کم گو نے کر دی، ترجمانی ان کہی .... ایک غزل اصلاح کی درخواست کے ساتھ

ایک انتہائی خوبصورت غزل اور اس پر محمد یعقوب آسی صاحب کے مشورے موتیوں سے تولنے کے قابل۔ اگر آسی صاحب اور اعجاز عبید صاحب کی اجازت ہو تو اصلاحِ سخن کے زمرے میں غزلوں پر ان کے اور الف عین صاحب کے تبصروں پر مبنی ایک برقی کتاب تشکیل دے دی جائے جو ہم مبتدیوں کے لیے ایک انتہائی قیمتی خزانہ ثابت ہوگی۔

اسرار صاحب کے لیے بہت سی داد۔

کچھ اس سے ملتا جلتا کام جناب محمد اسامہ سَرسَری نے شروع کیا تھا، بعد میں پتہ نہیں اُس کا کیا ہوا۔
اصولی طور پر مجھے تو خوشی ہونی چاہئے، آپ سمجھ رہے ہیں۔ اور جناب الف عین بھی اجازت مرحمت فرما دیں گے ۔۔۔ مگر ۔۔۔
رضامندی اُن احباب کی اہم تر ہے جن کے فن پاروں کہ بقول شخصے "درگت" ۔۔۔ پتہ نہیں میں کیا کہنے والا تھا! اس کو ان کہی جان لیجئے۔
 
تجربے کی کچھ باتیں عرض کرتا چلوں۔

میں نے ایک شعر کہا، یا غزل، نظم کچھ بھی، بشمول نثر۔ میں اس سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوں، یا میرے کوئی دوست اس میں کسی فروگزاشت کی نشان دہی کرتے ہیں یا کوئی بہتر تجویز دیتے ہیں۔ میں اس کو نوٹ کر لیتا ہوں، اب ضروری نہیں کہ میں فوری طور پر ترمیم کروں۔ ہو سکتا ہے مجھے مہینوں بلکہ برسوں تک اپنی ہی کی ہوئی کوئی ترمیم مطمئن نہ کر سکے۔ میں نے اپنے ایک شعر میں کوئی بیس پچیس سال بعد جا کے ترمیم کی۔

ترمیم میں اکثر دوست لفظ کے بدلے لفظ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ لازم نہیں کہ ایسا مفید ثابت ہو، بسا اوقات متبادل، مترادف الفاظ نہیں ملتے یا ملتے ہیں تو شعر کا مضمون ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ میں تو اس نئے مضمون کو قبول کر لیتا ہوں اور پہلا مضمون کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک لفظ یا ترکیب کے لئے پورا مصرع یا شعر ہی تبدیل کرنا پڑے۔ شاعری کے اپنے تقاضے ہیں، جن میں سرِ فہرست (میرے نزدیک) جمالیات ہے، بات کو بنا سنوار کر پیش کرنا؛ ان تقاضوں کو بھی تو نبھانا ہے! لفظ کے بدلے لفظ پر اصرار نہ کیجئے، ہو سکتا ہے آپ کا شعر بھی بن جائے، مضمون بھی قائم رہے مگر جمالیات جاتی رہے۔

محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔ میری اس گزارش پر جناب الف عین کی رائے لے لیجئے گا۔
 
آخری تدوین:
میں نے متماثل یا متقارب مضمون بندی کی ایک بہت خوب صورت مثال اقبال کے ہاں دیکھی۔ ملاحظہ فرمائیے:

اردو:
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
قلب و نظر شکار کر، ہوش و خرد شکار کر

فارسی:
فرصتِ کش مکش مدہ این دلِ بے قرار را
یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تاب دار را

۔۔۔
 
استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب ، تصحیحات کے ساتھ حاضر ہوں
کچھ مصرع بلکل بدل دیے ہیں ..
شاید اب کچھ بہتر شکل میں آ گئی ہو ...
آپ کے مشوروں اور رہنمائی کا طالب ہوں ...
-----------------------------------
اس کی آنکھوں میں مچلتی، بے زبانی، ان کہی
لب، دعا، مّنت، ادھوری سی کہانی ان کہی


دل، دیا، دہلیز، عفّت، آنچلوں کے نم سرے

اشک حسرت، پیار کی سچّی کہانی ان کہی

ایک کاغذ پر لکیریں آڑی ترچھی کھینچ کر
اے دل مضطر لکھیں آؤ کہانی ان کہی


جب ملا اذنِ تکلّم، اشک کو، محفل میں تب

ہنس کے اس کم گو نے کر دی، ترجمانی ان کہی
یہاں "اشک کو" کی ثقالت ختم کرتا ہوں تو یا تو شعر کی روانی جاتی یا معنویت .
آپ کچھ رہنمائی فرما دیں تو بندہ تہ دل سے ممنون رہے گا


شمع محفل ہو کے بھی تھا لن ترانی کا بیاں
تب کھلی بند قبا، کی ضو فشانی ان کہی


لفظِ الفت دل پہ لکھ کر کی شرارت یار نے

یا پھر
لفظِ الفت دل پہ لکھ کر کی شرارت اس نے یوں

دو شرائط اس پہ رکھ دیں،غیر فانی، ان کہی

پیرہن کی خوشبو تیرے جو صبا لایے ادھر
تشنگی کے معنی بدلیں "شادمانی ان کہی"


سیل غم کی موج کاشف ،اک نکالے دل سے اب
وہ شکایت، ایک خط، اک بدگمانی ان کہی

-----------------------------------
اور آپ کے مشورے کے مطابق جلد بازی بالکل نہیں کی :beauty:
شکریہ ...
 
جب ملا اذنِ تکلّم، اشک کو، محفل میں تب
ہنس کے اس کم گو نے کر دی، ترجمانی ان کہی
یہاں "اشک کو" کی ثقالت ختم کرتا ہوں تو یا تو شعر کی روانی جاتی یا معنویت .
آپ کچھ رہنمائی فرما دیں تو بندہ تہ دل سے ممنون رہے گا

میں نے سوچا تھا: "بزم میں" آتا تھا، یعنی وہی بات ہوتی یوں بھی۔ اس کو "زیرِغور" رکھ لیجئے۔ یہاں مضمون آ سکتا ہے کہ میرے اشکوں کو (رنجیدگی کو) اس ستم گر نے ہنسی میں اڑا دیا۔
جناب الف عین سے راہنمائی طلب کرتے ہیں۔
 
استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب ، تصحیحات کے ساتھ حاضر ہوں
کچھ مصرع بلکل بدل دیے ہیں ..
شاید اب کچھ بہتر شکل میں آ گئی ہو ...
آپ کے مشوروں اور رہنمائی کا طالب ہوں ...
-----------------------------------
اس کی آنکھوں میں مچلتی، بے زبانی، ان کہی
لب، دعا، مّنت، ادھوری سی کہانی ان کہی


دل، دیا، دہلیز، عفّت، آنچلوں کے نم سرے

اشک حسرت، پیار کی سچّی کہانی ان کہی

ایک کاغذ پر لکیریں آڑی ترچھی کھینچ کر
اے دل مضطر لکھیں آؤ کہانی ان کہی


جب ملا اذنِ تکلّم، اشک کو، محفل میں تب

ہنس کے اس کم گو نے کر دی، ترجمانی ان کہی
یہاں "اشک کو" کی ثقالت ختم کرتا ہوں تو یا تو شعر کی روانی جاتی یا معنویت .
آپ کچھ رہنمائی فرما دیں تو بندہ تہ دل سے ممنون رہے گا


شمع محفل ہو کے بھی تھا لن ترانی کا بیاں
تب کھلی بند قبا، کی ضو فشانی ان کہی


لفظِ الفت دل پہ لکھ کر کی شرارت یار نے

یا پھر
لفظِ الفت دل پہ لکھ کر کی شرارت اس نے یوں

دو شرائط اس پہ رکھ دیں،غیر فانی، ان کہی

پیرہن کی خوشبو تیرے جو صبا لایے ادھر
تشنگی کے معنی بدلیں "شادمانی ان کہی"


سیل غم کی موج کاشف ،اک نکالے دل سے اب
وہ شکایت، ایک خط، اک بدگمانی ان کہی

-----------------------------------
اور آپ کے مشورے کے مطابق جلد بازی بالکل نہیں کی :beauty:
شکریہ ...

جناب الف عین کیا فرماتے ہیں۔
 
میرے بہت قریبی دوست ڈاکٹر رؤف امیر مرحوم مجھ سے کہا کرتے تھے:
"اپنے شعروں کو ہمیشہ پالش کرتے رہا کرو، کہ میرے یا تمہارے کہے ہوئے میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہے گی"۔
 
آپ کو غالبا ہمزہ لکھنے میں دقت پیش آ رہی ہے؟ یہاں "لائے" رہا ہو گا۔
پیرہن کی خوشبو تیرے جو صبا لایے ادھر
تشنگی کے معنی بدلیں "شادمانی ان کہی"
یہاں مسئلہ ہے! ہم تشنگی کو شادمانی نہیں کہہ سکے، نہ کہی، نہ ان کہی۔ ہاں ایک پہلو ہو سکتا ہے کہ پیاس ہے تو اس کے مٹنے کا سامان بھی ہو گا۔ گویا:
تشنگی میں بھی نہاں ہے شادمانی ان کہی
اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا تشنگی خوشبو سے مٹے گی؟ کسی طور شربتِ دیدار کا سامان ہو جائے! ایک بہت مشہور شعر ذہن میں گونج اٹھا (مضمون اور ہے) اس سے فیض حاصل کیجئے:
چوری کہیں کھلے نہ نسیمِ بہار کی
خوشبو چرا کے لائی ہے گیسوئے یار کی

یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ "خوشبو" کی واو اور "معنی" کی یاے گرانا قواعد میں تو درست ہے تاہم یہاں ان دونوں لفظوں کی نشست اس کی متحمل نہیں ہو رہی۔
 

عظیم

محفلین

بھائی میرے پاس وقت کم ہے سو مختصر سی بات کرتا چلوں جو آپ کے ساتھ ساتھ شاید میرے بھی کام آ سکے ۔

اس کی آنکھوں میں مچلتی، بے زبانی، ان کہی
لب، دعا، مّنت، ادھوری سی کہانی ان کہی

بے زبانی ان کہی کیسے ہو سکتی ہے ؟
لب دعا کے بعد منت کی کیا ضرورت ؟ ادھوری سی کہانی کو بھی ان کہا ہونا چاہئے ؟


دل، دیا، دہلیز، عفّت، آنچلوں کے نم سرے
اشک حسرت، پیار کی سچّی کہانی ان کہی

پہلا مصرا مجھے تو بے معنی لگا بابا بہتر بتا سکتے ہیں ۔
اشکِ حسرت یا اشک حسرت دونوں صورتیں بے معنی ہیں یہاں ۔ پیار کی سچی کہانی ان کہی خوب ہے ۔

ایک کاغذ پر لکیریں آڑی ترچھی کھینچ کر
اے دل مضطر لکھیں آؤ کہانی ان کہی

آڑی ترچھی کے ساتھ ماری جاتیں تو بہتر لکیریں کھنچ سکتی تھیں ۔
اے دلِ مضطر لکھیں اپنی کہانی ان کہی ۔۔۔


جب ملا اذنِ تکلّم، اشک کو، محفل میں تب
ہنس کے اس کم گو نے کر دی، ترجمانی ان کہی
یہاں "اشک کو" کی ثقالت ختم کرتا ہوں تو یا تو شعر کی روانی جاتی یا معنویت .
آپ کچھ رہنمائی فرما دیں تو بندہ تہ دل سے ممنون رہے گا


جب ملا اذن تکلم آنسوؤں کو تب کہیں ۔۔


شمع محفل ہو کے بھی تھا لن ترانی کا بیاں
تب کھلی بند قبا، کی ضو فشانی ان کہی

یہ شعر میری سمجھ میں آ ہی نہیں سکا آپ وضاحت فرما دیں تو میرے علم میں بھی اضافہ ممکن ہو سکے ۔

لفظِ الفت دل پہ لکھ کر کی شرارت یار نے
یا پھر
لفظِ الفت دل پہ لکھ کر کی شرارت اس نے یوں
دو شرائط اس پہ رکھ دیں،غیر فانی، ان کہی

اضافت زائد ہے ۔ لفظ الفت ۔ ہے نا بابا ؟


پیرہن کی خوشبو تیرے جو صبا لایے ادھر
تشنگی کے معنی بدلیں "شادمانی ان کہی"

جو کی جگہ تب کا محل ہے میرے نذدیک باقی بابا کا انتظار کیجئے ۔ معنی اور خوشبو کے بارے بات ہو چکی ۔

سیل غم کی موج کاشف ،اک نکالے دل سے اب
وہ شکایت، ایک خط، اک بدگمانی ان کہی

بہت خوب کاشف بھائی ۔

 
آخری تدوین:
بہت بہت شکریہ عظیم بھائی ۔
آپ نے فرمایا کہ
1۔ بے زبانی ان کہی کیسے ہو سکتی ہے ؟
میں نے ے زبانی اور ان کہی کو الگ رکھا ہے "ے زبانی ،ان کہی" ایسے ۔ اور یہ دونوں "لب، دعا، مّنت، ادھوری سی کہانی" کے لیے ہیں۔
پتہ نہیں میں اپنی بات واضع کر پایا یا نہیں۔


2۔ دل، دیا، دہلیز، عفّت، آنچلوں کے نم سرے
اشک حسرت، پیار کی سچّی کہانی ان کہی

پہلا مصرا مجھے تو بے معنی لگا بابا بہتر بتا سکتے ہیں ۔
اشکِ حسرت یا اشک حسرت دونوں صورتیں بے معنی ہیں یہاں ۔ پیار کی سچی کہانی ان کہی خوب ہے ۔
یہاں میں نے دل کا دیے سے اور دہلیز کا عفت سے رشتہ کی جانب اشارہ کیا ہے۔ جن کو نبھانے میں آنچل نم ہوے ۔:disdain:

3۔ ایک کاغذ پر لکیریں آڑی ترچھی کھینچ کر
یعنی کچھ یوں ؟
ایک کاغذ پر لکیریں آڑی ترچھی مار کر

اے دلِ مضطر لکھیں اپنی کہانی ان کہی

4۔پہلا مصرع اگر " جب ملا اذن تکلم آنسوؤں کو تب کہیں ۔۔" کرتے ہیں تو دوسرے مصرع میں ایک واحد اشک
کا ذکر ہے۔۔۔ " اس کم گو نے کر دی" ۔o_O


5۔ یہاں " لن ترانی" بمعنی "تو مجھے نہیں دیکھ سکتا" کے ہے۔
یعنی محبوب "شمع محفل ہو کے " بھی نظر نہیں آنا چاہتا تھا سو
"تب کھلی بند قبا"اور اس نے " کی ضو فشانی ان کہی " :p

آپ آرا اور مشوروں کا منتظر ہوں۔
 

عظیم

محفلین
3۔ ایک کاغذ پر لکیریں آڑی ترچھی کھینچ کر
یعنی کچھ یوں ؟
ایک کاغذ پر لکیریں آڑی ترچھی مار کر
اے دلِ مضطر لکھیں اپنی کہانی ان کہی


الٹی سیدهی کهینچ کر -
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جب ملا اذنِ تکلّم، اشک کو، تب بزم میں
ہنس کے اس کم گو نے کر دی، ترجمانی ان کہی
کیا آپ کچھ ایسے فرما رہے تھے جناب ؟
مل گیا اشکوں کو جب اذن تکلم بزم میں
کاشف یہ ترتیب دیکھیں۔
یا پھر
جب ملا اشکو ں کو میرے بزم میں اذن کلام
 
مل گیا اشکوں کو جب اذن تکلم بزم میں
کاشف یہ ترتیب دیکھیں۔
یا پھر
جب ملا اشکو ں کو میرے بزم میں اذن کلام
جی عاطف بھائی یہ عمدہ ہے ۔بس ایک ہی قباحت ہے کہ اگلے مصرع میں اشک واحد کا ذکر ہے۔ ذرا غور کیجیے گا۔
 
Top