ہندوستان میں بھنگ کی مختصر تاریخ

امریکی ٹیلی وژن پر نشر کیے گئے مزاحیہ کھیل 'فرینڈز' میں جو حیثیت کافی کو حاصل ہے وہی معرکتہ الآراء مزاحیہ ہندی ناول راگ درباری میں نشہ آور مشروب بھنگ کو حاصل ہے۔ ناول کا پلاٹ ساٹھ کی دہائی میں اترپردیش کے ایک ایسے گاوں کے گرد گھومتا ہے جہاں بھنگ اس قدر عام ہے کہ دودھ کے ذائقے سے ناآشنا مفلس و قلاش بچے بھی بھنگ کے سرور سے واقف ہیں۔ بھنگ کا مشروب راگ درباری میں دکھائی گئی دیہی زندگی میں اس قدر مرکزی اہمیت کا حامل ہے کہ اسے بنانا ایک فن کا درجہ اختیار کر چکا ہے:
مزا تو تب ہے جب بادام، پستے، گلاب کی پتیاں، دودھ، ملائی اور دیگر لوازم بھی بھنگ کے پتوں میں رگڑ کر پیے جائیں۔
بھنگیوں کے لیے بھنگ کی رگڑائی ایک فن کے مترادف ہے، یا ایک نظم کہنے جیسا ہے، ایک عظیم فریضہ، ہنر اور مقدس رسم ہے۔ گو اٹھنی برابر بھنگ کی پتیاں چباکر پانی پی لینے سے بھی آپ کو سرور آ جاتا ہے، لیکن یہ ایک سستا نشہ ہے۔ مزا تو تب ہے جب بادام، پستے، گلاب کی پتیاں، دودھ، ملائی اور دیگر لوازم بھی بھنگ کے پتوں میں رگڑ کر پیے جائیں۔ بھنگ کی رگڑائی تب تک کی جاتی ہے جب تک سل اور بٹہ ایک دوسرے سے جڑ کر ایک جان نہ ہونے لگیں۔ بھنگ پینے سے پہنے شیو دیوتا کی مدح میں اشلوک پڑھے جاتے ہیں اور یہ سب تام جھام ایک منڈلی کی صورت میں کیا جاتا ہے، یہ اکیلے آدمی کا کام نہیں۔
ناول کے مصنف شری لال شکلا وضاحت کہتے ہیں، "اگرچہ ٹھاکر ہمیشہ سے شراب پیتے رہے ہیں، لیکن برہمن جات اور بنیئے کے لیے شراب حرام ہے۔ ایسے میں بھنگ ہی وہ واحد نشہ تھا جو ان کے لیے جائز اور تفریح اور سکون کے حصول کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ میرے لڑکپن میں گاوں میں بھنگ کی تیاری شام پانچ بجے ہی شروع ہو جاتی تھی۔ لیکن اب شہروں اور قصبوں کے مابین رابطے کے بہتر ذرائع میسر آنے اور دیگر عوامل کے باعث یہ روایات تبدیل ہو رہی ہیں، اب لوگ بھنگ سے اتنے خوفزدہ نہیں رہے جیسے کسی زمانے میں تھے"۔
درحقیقت اگر ہم محدود ہندوستانی اشرافیہ میں بھنگ یا بوٹی کی ممانعت کے مغربی اثر کو نظر انداز کر دیں تو ہمیں ہندوستان میں ہر جگہ بھنگ یا چرس کا استعمال نظر آئے گا۔ یہی نہیں ہندوستان میں مختلف صورتوں میں بھنگ کے استعمال کی تاریخ وید کے زمانے تک پھیلی ہوئی ہے۔
بھنگ کی تاریخ
اتھرو وید میں بھنگ کو زمین پر اگنے والے پانچ مقدس پودوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے، جس کی پتیوں میں ایک محافظ فرشتہ موجود ہے۔
اتھرو وید میں بھنگ کو زمین پر اگنے والے پانچ مقدس پودوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے، جس کی پتیوں میں ایک محافظ فرشتہ موجود ہے۔ اسے ایک ایسا پودا بھی قرار دیا گیا ہے جو "کیف آور"، "خوش کن" اور "غموں سے نجات دلانے والا" ہے۔ آیور ویدمیں بھنگ کو طبی خواص کا حامل قرار دیا گیا ہے جبکہ سشرُت سمہیتا (6 قبل مسیح) میں اس کا استعمال نظام انہضام کے لیے بہتر اور اشتہاء آور قرار دیا گیا ہے۔ آیوروید میں اس کا استعمال اس تواتر سے مذکور ہے کہ 1894 میں بننے والے مقامی مسکن ادویہ کے کمیشن نے اسے "آیور ویدی علم الادویہ کی پنسلین" قرار دیا ہے۔ قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں طبِ یونانی کی مسلمان ماہر اعصابی امراض اور س کا استعمال اعصابی امراض تشنج کے دوروں کی روک تھام کے لیے بھنگ کا استعمال کرتے رہے ہیں۔
اگرچہ روایتی اسلام نشہ آور اشیاء کے استعمال کی ممانعت کرتا ہے لیکن ہندوستانی مسلمانوں میں بھنگ کا استعمال عام ہے۔ مغل بادشاہ ہمایوں چرس سے تیار شدہ معجون کے استعمال کا شوقین تھا، جو قرون وسطیٰ کی Hash Brownie قرار دیا جا سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہمایوں کی سیڑھیوں سے گر کر ہلاکت کے پیچھے بھی چرس یا بھنگ کا نشہ ہی کارفرما ہو۔
سکھ جنگجو بھی مختلف جنگوں کے دوران درد کا احساس کم کرنے اور بہتر انداز میں لڑنے کے لیے بھنگ کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس چلن کی باقیات نہنگ سکھوں کے طور طریقے اب بھی اسی چلن کی یادگار ہیں جو مذہبی بنیادوں پر نشہ آور اشیاء کا ستعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ 1857 میں منگل پانڈے کی ناکام بغاوت بھی بھنگ کے نشے کاہی شاخسانہ ہو۔ اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران منگل پانڈے نے "بھنگ اور افیم کے استعمال" کا اعتراف کیا اور یہ بیان بھی دیا کہ وہ بغاوت کے وقت اس بات سے "آگاہ نہیں" تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے۔
بڑے پیمانے پر بھنگ کی کھپت
اس زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ بھنگ پاگل پن کی ایک وجہ ہے، اس مفروضے کی حقیقت جاننے اور بھنگ کے عمومی استعمال کا ریکارڈ مرتب کرنے کے لیے نوآبادیاتی حکومت نے مقامی مسکن ادویہ کے کمیشن کی رپورٹ مرتب کرنا شروع کی۔
انگریز جب ہندوستان آئے تو بھنگ کے بڑے پیمانے پر استعمال پر حیران رہ گئے۔ اس زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ بھنگ پاگل پن کی ایک وجہ ہے، اس مفروضے کی حقیقت جاننے اور بھنگ کے عمومی استعمال کا ریکارڈ مرتب کرنے کے لیے نوآبادیاتی حکومت نے مقامی مسکن ادویہ کے کمیشن کی رپورٹ مرتب کرنا شروع کی۔ اس رپورٹ میں بھنگ کی کاشت، اس سے نشہ آور اشیاء کی تیاری، ان منشیات کی خریدوفروخت، ان اشیاء کے استعمال سے ہونے والے سماجی اور اخلاقی اثرات، اور اس پر پابندی کے امکان کا جائزہ لینا تھا۔ طبی ماہرین نے اس مقصد کے لیے ہندوستان بھر کے ایک ہزار سے زائد افراد کے علمی معیار کے مطابق انٹرویو کیے۔ کمیشن نے نہایت منظم انداز میں بہت گہرائی میں جا کر مختلف حالات سے دوچار متنوع لوگوں پر مشتمل گروہ کو نمونے کے طور پرمنتخب کیا۔
اس رپورٹ کے نتائج حیرت انگیز طور پر بھنگ کے حق میں نکلے، نتائج میں بھنگ کو پاگل پن کا باعث بنانے کی بجائے بے ضرر قرار دیا گیا جبکہ اس کے مقابل شراب کو ضرررساں پایا گیا۔ اس لیے بھنگ پر پابندی کا کوئی جواز نہیں مل سکا۔ رپورٹ کے نتائج کے مطابق "بھنگ کے استعمال پر پابندی یا کسی قسم کی قدغن عوامی اضطراب اور بے چینی کا باعث بنے گا۔"
بھنگ کا ثقافتی اور مذہبی استعمال
اس رپورٹ میں بڑے پیمانے پر بھنگ کے ثقافتی اور مذہبی استعمال کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق "بھنگ خصوصاً گانجے کی صورت میں اس کا استعمال ہندو دیومالا کے مہادیو شیو کی پوجا کے ساتھ مخصوص ہے۔ بھنگ کے بارے میں عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شیو دیوتا کو بے حد مرغوب تھا، کمیشن کے سامنے ایسے بے شمار شواہد پیش کیے گئے ہیں جن سے مذہبی رسوم میں بھنگ یا اس سے بنی مختلف نشہ آور اشیاءکے بڑے پیمانے پر استعمال کا پتہ چلتا ہے۔"
ہندوستان کے شہری علاقوں میں بسنے والوں کی اکثریت بھنگ کا استعمال ترک کر کے شراب اور تمباکو جیسے مغربی نشے اپنا چکی ہے
رپورٹ کے مطابق مذہبی رسوم میں بھنگ کا سب سے زیادہ استعمال ہولی کے موقع پر کیا جاتا ہے: "ہولی کے تہوار کے موقع پر لوگوں میں بھنگ کے ہر جگہ بڑے پیمانے پر استعمال کے حوالے سے کافی شواہد سامنے آئے ہیں۔"
ہندوستان کے شہری علاقوں میں بسنے والوں کی اکثریت بھنگ کا استعمال ترک کر کے شراب اور تمباکو جیسے مغربی نشے اپنا چکی ہے (ستم ظریفی یہ کہ مغرب میں بھنگ اور چرس پر عائد پابندیاں کم کی جا رہی ہیں)۔ تاہم ہولی کے تہوار میں بھنگ کا استعمال کم و بیش اسی شدت سے جاری ہے جیسا برطانوی کمیشن کی رپورٹ میں مذکور ہے۔ بہار کے اس تہوار میں آج بھی بھنگ کا استعمال اسی طرح جاری و ساری ہے اور ہولی سے بھنگ کا یہ تعلق بہت جلد ختم ہونے والا نہیں۔
 
سیمپل
IMG_20180420_172447.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
چار ملنگ شہر سے باہر ایک کٹیا میں رہتے تھے۔ ایک پولیس کا حوالدار بھی ان کے پاس بھنگ پینے آ جاتا۔
ایک دن تنگ آ کر انہوں نے حوالدار کو دھتورا پلا دیا۔ حوالدار مر گیا۔
ملنگوں نے اسے چارپائی پر ڈالا اوپر چادر اوڑھائی اور چارپائی کے ایک ایک پائے کو کندھا دے لیا۔ دیہاتوں میں لوگ تعلق کی بنا پر جنازے میں شامل ہوتے ہیں اور شہروں میں کلمہ شہادت سن کر۔ جب ملنگ شہر میں داخل ہوئے تو کلمہ شہادت کا نعرہ لگانے لگے۔ شہری مسلمان جنازے کو کندھا دینے لگے۔ جب ملنگوں نے دیکھا اب کافی لوگ جنازے کے ساتھ چل رہے ہیں تو وہ کھسک گئے۔
جنازہ قبرستان پہنچا تو نہ کوئی والی وارث نہ قبر کھدی ہوئی۔ پولیس کو اطلاع کی گئی۔ پولیس والوں نے میت کے چہرے سے چادر ہٹائی تو اپنا حوالدار نکلا۔
کلمہ شہادت کہنے والوں کو دس دس ہزار روپیہ دے کر جان چھڑانا پڑی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کینابس انڈیکا بھنگ کو کہتے ہیں۔ اس دوا کی ساخت رکھنے والا تھیورائزنگ میں کمال کرتا ہے۔ حسن بن صباح اور محمد تغلق اس دوا کی ساخت پر تھے۔
-
ایک خوبصورت میڑک پاس لڑکا میرے پاس آیا۔ کہنے لگا " سر میں ہیروئن پیتا ہوں مجھے پچاس روپے دے دیں" میں نے اسے کہا "میرے کلینک پر کام کرو روزانہ 50 روے دوں گا اور کھانا بھی" وہ میرے ساتھ کام کرنے لگا۔ مجھے پتہ چلا کہ پوڈریوں کے پاس انکساری بہت ہوتی ہے۔ قدرت نے اس لڑکے کو تب تک میرے پاس رکھا جب تک مجھ میں اچھی خاصی انکساری نہ آگئی اور میرے ساتھ رہ کر وہ اس قابل ہوگیا کہ اب اسے کوئی نہ کوئی ایسا کام مل جاتا ہے جس سے ہیروئن خریدنے کے لئے پیسے مل جائیں۔ اس نے میری "میں" کو کم کیا اور میں نے اس کی "میں" کو اجاگر کیا۔ میں نے اسے کہا نیٹرم فاس اور ایسڈ فاس کھایا کر۔ نیٹروم فاس سے بھوک بڑھے گی ور ایسڈ فاس سے جسمانی کمزوری دور ہوگی۔ ایک دن کہنے لگا
سر! میں جب بھی نیٹرم فاس کھاتا ہوں کوئی نہ کوئی پریشانی آجاتی ہے
میں نے اسے بتایا کہ کینو مالٹا کھانا سے بھی ایسا ہوتا ہے۔ پریشانی کی حالت میں کھایا جائے تو کوئی خوشی ملتی ہے اگر نارمل حالت میں کھایا جائے تو کوئی پریشانی آجاتی ہے۔ یہی حال نیٹرم فاس کا ہے جو معدے کی تیزابیت کی پہلی دوا ہے۔
-
خلیل جبران نے کہا تھا کہ انسان نے اچھا کام کرنا ہو یا برا ، اس کے لئے کوئی نہ کوئی جواز گھڑ لیتا ہے۔ میں نے ایک افیونی سے پوچھا کہ وہ افیون کیوں کھاتا ہے؟ اس نے جواب دیا میں تیز تیز باتیں کرتا تھا اور لوگوں کو میری باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ میں نے افیون کھانا شروع کی اب ٹھہر ٹھہر کر باتیں کرتا ہوں۔
-
ایک گاوں میں ایک افیونی فوت ہوگیا۔ جب ہم اس کا جنازہ قبرستان کی طرف لئے جا رہے تھے تو بڑی مزے دار بارش ہوئی۔ ایک ماہ بعد ایک اور گاوں میں ایک افیونی فوت ہوگیا۔ جب ہم اس کا جنازہ پڑھ رہے تھے تو سخت حبس تھی۔ اسے دفنانے کے دو گھنٹے بعد ایسی زوردار بارش ہوئی کہ مزہ آگیا۔ دونوں آدمیوں کے لواحقین کہتے تھے "مرنے والا جنتی تھا" ایک افیونی میں اتنی خشکی گرمی ہوتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد خشکی گرمی کا ردعمل ہوتا ہے جو گرمی تری کی شکل میں ہوتا ہے اور پھر تری سردی کی شکل میں۔
روحانیت ، رویے اور ہو میو پیتھک سائنس
 
Top