فرخ منظور
لائبریرین
ہندوستانی سنیما کا آخری مغل:کمال امروہی (قلم سے فلم تک) مضمون نگار: انیس امروہوی
17جنوری 1918 کو اُتر پردیش کے مردم خیز شہر امروہہ میں ایک زمیندار گھرانے میں کمال امروہی کا جنم ہوا۔ ان کا اصلی نام سیّد امیر حیدر تھا اور پیار سے گھر والے ان کو ’چندن‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ گھر میں سب سے کم عمر ہونے کی وجہ سے کمال امروہی بہت شرارتی، چنچل اور لاڈلے تھے۔ ایک طرح سے وہ خاندان کے بگڑے ہوئے بچے کے روپ میں پہچانے جاتے تھے۔
بچپن سے ہی کمال امروہی حُسن پرست تھے۔ چاہے قدرت کے حسین مناظر ہوں یا قدرت کا بنایا ہوا کوئی حسین چہرہ، وہ ہر طرح کے حُسن کے دلدادہ تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ پڑھائی لکھائی میں ان کا دل کم ہی لگتا تھا۔ بہتر تعلیم کے لیے انھیں دہرہ دون بھیجا گیا جہاں انھوں نے ہائی اسکول تک کی تعلیم مکمل کی۔
ایک بار اُن کے خاندان میں شاید کوئی شادی تھی اور بہت سا حُسن ان کے گھر کے آنگن میں جمع تھا۔ بہت سے مہمان ان کے گھر میں آئے ہوئے تھے۔ کسی بات پر گھر میں دودھ سپلائی کرنے والی خاتون سے کمال کا جھگڑا ہوا اور اس نے کمال کے بڑے بھائی سے شکایت کر دی۔ بڑے بھائی کا گھر میں بڑا رعب تھا کیونکہ وہ پولیس میں ملازم تھے۔ انھوں نے کمال کو اپنے پاس بُلایا اور کہا کہ آپ خاندان کا نام بہت روشن کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک زناٹے دار تھپڑ کمال کے گال پر جڑ دیا۔
بڑے بھائی کا تھپّڑ کھانا تو کمال کے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی، مگر اُس وقت شادی میں آئی ہوئی بہت سی حسین لڑکیوں کے وہ ہیرو بنے ہوئے تھے۔ اس لیے انھوں نے اُن سب کی موجودگی میں اس تھپّڑ کو اپنی بہت بڑی بے عزتی محسوس کی اور اسی وقت گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہی وہ تاریخی فیصلہ تھا جس نے ہندوستانی سینما کو ایک تاریخی شخصیت عطا کی۔
اُسی رات کمال نے اپنی بہن کا سونے کا کنگن غائب کیا اور صبح کو سولہ روپے میں فروخت کرکے لاہور جانے والی گاڑی پکڑ لی۔ دس روپے خرچ کرکے کمال لاہور پہنچ گئے۔ اس وقت کمال کی عمر لگ بھگ سولہ برس کی رہی ہوگی۔
1934عیسوی کے آس پاس کا زمانہ تھا۔ لاہور میں ضمیر علی صاحب کی ایک لانڈری ’ہمدرد لانڈری‘ کے نام سے مشہور تھی۔ ضمیر علی صاحب دوست نواز آدمی تھے۔ مشہور اردو شاعر اخترشیرانی بھی اُن کے دوستوں میں تھے اور مشہور اداکار نواب علی بھی۔ خوب محفلیں جمتی تھیں۔ شعر وشاعری سے لے کر فلم اور سیاست پر خوب بحثیں ہوا کرتی تھیں۔
ضمیر علی صاحب کی ’ہمدرد لانڈری‘ میں دھام پُور ضلع بجنور (یوپی) کا ایک نوجوان لڑکا فراہیم ملازمت کرتا تھا۔ اُس کو بہت سے لوگ ’فرّی‘ کی عرفیت سے پکارتے تھے۔ فرّی کو فلموں میں کام کرنے اور ہیرو بننے کا بڑا شوق تھا۔ وہیں اس کا ایک دوست امیر حیدر بھی اس کے ساتھ رہتا تھا، حالانکہ وہ لانڈری کا ملازم نہیں تھا، مگر فرّی کی دوستی اور فلموں کے شوق کی وجہ سے دونوں ساتھ رہتے تھے۔ شاید اس لیے بھی کہ امیر حیدر گھر سے بھاگا ہوا تھا۔ امیر حیدر کے پاس کچھ کہانیاں تھیں، جن کو وہ اپنے دوستوں میں یہ کہہ کر سنایا کرتا تھا کہ وہ بھی فلموں میں کہانیاں لکھے گا۔ اس وقت لوگ اُس کی اِس بات پر ہنس دیا کرتے تھے۔
اتفاق کی بات ہے کہ ایک بار مشہور فلمساز وہدایت کار سہراب مودی لاہور پہنچے اور اپنے شاعر دوست اخترشیرانی کے یہاں ٹھہرے۔ وہیں سب دوستوں کی محفل جمی ہوئی تھی۔ ضمیر علی صاحب بھی اس محفل میں موجود تھے۔ بات چیت کے دوران انھوں نے سہراب مودی سے کہا کہ جناب ہمارے یہاں دو لڑکوں پر فلموں کا بڑا بھوت سوار ہے۔ اگر آپ ایک بار اُن سے بات کر لیں تو شاید یہ بھوت اُتر جائے۔ مودی صاحب فوراً رضامند ہو گئے اور بولے۔ ’’بُلا لو، اچھا ہے۔۔۔ تھوڑی تفریح ہی سہی۔‘‘
اگلے دن دونوں نوجوان لڑکوں کو مودی صاحب کے سامنے پیش کیا گیا۔ پہلا نمبر فراہیم کا تھا۔
’’تم کیا بننا چاہتے ہو؟‘‘ مودی صاحب نے سوال کیا۔
’’ہیرو۔‘‘ بڑے شرمیلے انداز میں فرّی نے جواب دیا۔
’’کار چلانی آتی ہے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’موٹر سائیکل؟‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ سائیکل چلا لوں گا۔‘‘
فرّی کا جواب سُن کر سب لوگ ہنس پڑے۔ اسی طرح کے کچھ اور سوال کرکے فراہیم کو کمرے سے باہر بھیج دیا گیا۔
اب باری امیر حیدر کی تھی۔ چھوٹے سے قد کا گورا چٹا نوجوان لڑکا جب سہراب مودی جیسی لمبی چوڑی قدآور شخصیت کے سامنے جا کر کھڑا ہوا تو انھوں نے حیران حیران نگاہوں سے اِس خوبصورت لڑکے کی طرف نیچے سے اوپر تک دیکھا اور دِل میں سوچا کہ اتنا کم عمر اور معصوم لڑکا کیا فلموں میں کہانیاں لکھے گا؟ لڑکا مودی صاحب کے دِل کی بات بھانپ گیا اور اِس سے پہلے کہ مودی صاحب کوئی سوال کرتے، اُس نے برجستہ سہراب مودی سے کہا۔
’’مودی صاحب۔۔۔ میں دیکھنے کی نہیں، سننے کی چیز ہوں۔‘‘
چھوٹی سی عمر کے معصوم سے لڑکے کے منہ سے ایسی بڑی بات سُن کر مودی صاحب بہت متاثر ہوئے اور فوراً کہانی سننے کے لیے راضی ہو گئے۔ امیر حیدر نے بھی بغیر ایک لمحہ ضائع کیے ایک کہانی ’جیلر‘ کے عنوان سے مودی صاحب کو اس انداز میں سنائی کہ مودی صاحب نے نہ صرف کہانی پسند کی، بلکہ اس نوجوان کو بھی اپنے ساتھ ممبئی لے جانے کا فیصلہ کر لیا اور اسی وقت جیب سے روپے نکالتے ہوئے بولے۔
’’نوجوان! یہ چار سو روپے رکھو اور بمبئی چلنے کی تیاری کرو۔ ہم وہاں تم کو بتائیں گے کہ اس کہانی کو فلم کے لیے کس طرح لکھا جائے گا۔ اب ہم کشمیر جا رہے ہیں، واپسی میں تم ہمارے ساتھ بمبئی چلوگے۔۔۔ تیار رہنا۔‘‘
چار سو روپے اس وقت اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے اس نوجوان کے دل کی دھڑکن بے قابو ہوئی جا رہی تھی اور ہاتھوں میں کپکپاہٹ ہونے لگی تھی، کیونکہ اب سے پہلے کبھی اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک کہانی کا معاوضہ اتنا بھی ہو سکتاہے۔
امیر حیدر نے فوراً بازار جاکر ایک جوڑی نئے جوتے، دو تین نئے کُرتے، ایک ہولڈال اور ضرورت کا کچھ اور سامان خریدا اور مودی صاحب کی واپسی کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ مودی صاحب بات کے پکّے اور سچّے آدمی تھے۔ انھوں نے واپسی میں امیر حیدر کو بھی اپنے ساتھ لیا اور بمبئی پہنچ گئے۔ بمبئی پہنچ کر امیر حیدر نے ’منروا مووی ٹون‘ کے لیے اُس کہانی کو ’جیلر‘ کے عنوان سے فلمی انداز میں سیّد امیر حیدر کمال کے نام سے لکھا۔
’جیلر‘ کی کامیابی کے بعد سہراب مودی نے اپنی شہرۂ آفاق تاریخی فلم ’پُکار‘ کی کہانی بھی سیّد امیر حیدر کمال سے لکھوائی۔ اس فلم نے کامیابی اور شہرت کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ چاروں طرف کمال کے نام کا ڈنکا بج گیا اور ’’باادب، باملاحظہ ہوشیار۔۔۔‘‘ کی آواز پوری فلم انڈسٹری میں گونجنے لگی۔
کمال امروہی ہندوستانی سینما کے لیے ایک بہت بڑی شخصیت کے روپ میں فلم ’پکار‘ سے اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوئے۔ اُن کو اپنے آپ پر بہت بھروسہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے پہلی بار ایک قلمکار کے روپ میں یہ شرط رکھی کہ ان کا نام فلم کے پردے پر الگ سے ایک فریم میں دیا جائے گا۔
اس طرح ایک کہانی کار اور ایک مکالمہ نگار کی الگ سے پہچان کرانے میں کمال امروہی نے اس طرح پہل کی، ورنہ اس سے پہلے کہانی کار اور مکالمہ نگار کا نام فلمی پردے پر بہت سے ناموں کی بھیڑ میں کہیں چھوٹا موٹا سا آجاتا تھا۔ کہانی کار کو فلم انڈسٹری میں منشی کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ فلم ساز یا ہدایت کار کے گھر کا کام اور بچوں کی دیکھ بھال تک کر لیا کرتا تھا۔
کمال امروہی نے پہلی بار فلم ’پکار‘ میں کہانی کار اور مکالمہ نگار کی حیثیت سے پردے پر الگ سے نام دے کر ایک خاص کردار ادا کیا۔ فلم ’پکار‘ اپنے مکالموں کی وجہ سے یہ ثابت کر سکی کہ کوئی فلم مکالموں کی بنیاد پر بھی کامیاب اور مقبول ہو سکتی ہے۔ اس فلم کے مکالمے ہی اس فلم کی خاصیت بن گئے تھے۔
ان ہی دنوں خواجہ احمد عباس نے کمال امروہی کی ایک کہانی ’آہوں کا مندر‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جو بہت مقبول ہوئی۔ عباس نے ہی کمال امروہی کو ’بامبے ٹاکیز‘ کے ہمانشو رائے سے ملوایا اور صرف اُنیس برس کی عمر میں ہی بامبے ٹاکیز کے شعبۂ کہانی (اسٹوری ڈپارٹمنٹ) کے سربراہ کمال امروہی بن گئے۔
ہمانشو رائے کے انتقال کی وجہ سے کمال امروہی کی مشہور کہانی ’آہوں کا مندر‘ پر فلم بنتے بنتے رہ گئی۔ اب بامبے ٹاکیز کا تمام کام اشوک کمار دیکھتے تھے۔ کمال امروہی نے فلم ’محل‘ کی کہانی لکھی اور اس کے ساتھ ہی وہ پہلی بار ہدایت کاری کے میدان میں داخل ہوگئے۔ حالانکہ اس فلم کے تمام معاملات اشوک کمار کے ہاتھ میں تھے، مگر بینر بامبے ٹاکیز کا تھا۔ فلم ’محل‘ (1949) اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم تھی۔ اسی فلم سے ہندوستانی سینما میں سسپنس فلموں کے دور کا آغاز ہوا اور اداکارہ مدھوبالا کی پہلی کامیاب فلم بھی ’محل‘ ہی تھی جس سے مدھوبالاکو پہچان ملی۔ اس فلم کے ایک گانے۔۔۔ ’’آئے گا آنے والا‘‘ سے لتا منگیشکر پر بھی کامیابی کے دروازے کھل گئے۔
ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا۔ وہاں ممتاز نام کی ایک خوبصورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟ اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھوبالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بن گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم ’محل‘ میں مدھوبالا بے حد خوبصورت دکھائی دی ہے اور اعلیٰ درجے کی فلموں کے لیے وہ اسی فلم سے اپنی پہچان بنا سکی۔
اشوک کمار اِس فلم کے ہیرو تھے۔ کمال امروہی کو ان کے مکالموں کی ادائگی پسند نہیں تھی۔ وہ اشوک کمار کو بالکل نئے انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ کمال امروہی نے فلم کی شوٹنگ درمیان میں ہی رُکوا دی اور تین ماہ تک وہ اشوک کمار کے ساتھ فلم کے مختلف مناظر پر اور اُس کہانی میں اشوک کمار کے کردار کے بارے میں بات چیت کرتے رہے۔ آخرکار جب اشوک کمار اس کردار میں پوری طرح اُتر گئے، تب کمال امروہی نے فلم کی شوٹنگ دوبارہ شروع کی اور نو دس ماہ میں ہی فلم مکمل کرکے نمائش کے لیے پیش کر دی۔
اشوک کمار کی انگلیوں میں دبی سگریٹ کا جلتے رہنا اور اُس کے جلنے سے اشوک کمار کا چونکنا اور اشوک کمار کے چلنے کا انداز، یہ سب فلم کی خصوصیات بن گئی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم ’محل‘ ہندوستانی سینما کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوئی۔
فلم ’محل‘ کے ہِٹ ہوتے ہی کمال امروہی کا نام ہندوستانی سینما پر چھا گیا اور پھر 1950 میں انھوں نے جب اپنی ذاتی فلم کمپنی قائم کی تو اس کا نام ’محل پکچرس‘ ہی رکھا۔ 1954 میں انھوں نے اپنی فلم ’دائرہ‘ بنائی جو ناکام ہو گئی۔ یہ فلم ایک ایسی عورت کی کہانی تھی جو غلط فہمی کا شکار ہوکر ایک بوڑھے شخص سے شادی کر لیتی ہے اور پھر شروع ہوتا ہے اس کے استحصال کا سلسلہ۔ اُس وقت یہ فلم ہندوستانی سینماکی پہلی آرٹ فلم کہلائی اور ایک تبصرہ نگار نے فلم ’دائرہ‘ دیکھ کر کہا کہ کمال امروہی نے یہ فلم اپنے وقت سے تیس برس قبل ہی بنا دی ہے۔ مینا کماری اس فلم کی ہیروئن تھیں۔
’محل پکچرس‘ کے قائم ہونے پر کمال امروہی نے ایک بہت خوبصورت فلم ’انارکلی‘ کے نام سے بنانے کا ارادہ کیا۔ اس فلم میں وہ مینا کماری کو ہیروئن لینا چاہتے تھے۔ 1951 میں ایک کار حادثے میں مینا کماری کے بائیں ہاتھ کی ایک انگلی ٹوٹ گئی تھی اور وہ پونا کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھیں۔
کمال امروہی ہاتھوں میں گلدستہ لیے، آنکھوں میں ’انارکلی‘ کا خواب سجائے اور دل میں مینا کماری کی چاہت کا جذبہ لے کر مزاج پُرسی کے لیے اسپتال گئے اور اپنی اردو دانی کا ایسا سکّہ جمایا کہ مینا کماری دل وجان سے کمال پر فدا ہو گئی۔ مینا کماری کے والد علی بخش کو یہ عشق پسند نہیں آیا۔
آخرکار 15فروری 1952 کو مینا کماری نے اپنے والد اور دونوں بہنوں کی مرضی کے خلاف کمال امروہی سے نکاح کر لیا۔ اس طرح کمال امروہی کی ’انارکلی‘ تو نہ بن سکی، مگر مینا کماری ان کے دل کی دھڑکن ضرور بن گئی اور اس کے ساتھ ہی ’دائرہ‘ بن کر فلاپ بھی ہو گئی۔ اس وقت کمال امروہی کی امروہہ والی بیوی محمودی بیگم سے ،دو لڑکے شاندار کمال، تاجدار کمال اور ایک لڑکی رخسار کمال تھے۔
کمال امروہی کی پہلی بیوی کا نام ماہِ رُخ بتول تھا اور وہ بے حد خوبصورت عورت تھیں۔ کمال امروہی پیار سے ان کو ’بابو‘ کہا کرتے تھے۔ شادی کے ایک برس بعد ہی پہلے بچّے کی پیدائش کے وقت ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ کمال امروہی کی دوسری شادی بھی امروہہ میں ہی آلِ زہرہ عرف محمودی بیگم سے ہوئی۔یہ تینوں بچّے ان کی اسی بیوی سے ہیں۔ مینا کماری ان کی تیسری بیوی تھیں اور ان کو کمال امروہی کے تینوں بچّوں سے بے حد پیار تھا۔ بچّے بھی مینا کماری کو بہت چاہتے تھے اور پیار سے چھوٹی امّی کہہ کر پکارتے تھے۔
مینا کماری کے انتقال (1972) اور فلم ’پاکیزہ‘ کی بے پناہ کامیابی کے بعد کمال امروہی نے رامپور کی ایک بہت خوبصورت لڑکی بلقیس سے نکاح کر لیا۔ اُن کی یہ چوتھی بیوی اتنی خوبصورت تھی کہ فلم ’رضیہ سلطان‘ کی شوٹنگ پر جب وہ کمال صاحب کے ساتھ آتی تھیں تو ہیما مالینی کی خوبصورتی بھی ماند پڑ جاتی تھی۔ ’رضیہ سلطان‘ کی ناکامی سے ٹوٹ کر جب کمال امروہی بہت بیمار رہنے لگے تو انھوں نے بلقیس کو ایک بڑی رقم (شاید پچاس لاکھ) دے کر اپنی طرف سے آزاد کر دیا۔
’دائرہ‘ کی ناکامی کے بعد کمال امروہی نے ایک حسین خواب دیکھا اور فلم ’پاکیزہ‘ کی تیاری شروع کر دی۔ کمال امروہی اس فلم کو اپنی زندگی کا ایک شاہکار بنانا چاہتے تھے۔ مینا کماری اس فلم کی ہیروئن بھی تھیں اور کمال امروہی کی بیوی بھی۔ کمال امروہی کے پرسنل سکریٹری باقر علی کو یہ ہدایت تھی کہ مینا کماری کے میک اپ روم میں کسی کو جانے کی اجازت نہ دی جائے۔
اُن دنوں گلزار مشہور فلم ساز و ہدایت کار بمل رائے کے اسسٹنٹ تھے اور شاعری بھی کرتے تھے۔ بمل رائے کے کسی کام سے گلزار مینا کماری سے ملنے اسٹوڈیو گئے تھے اور ان کے مَیک اپ روم میں اپنی نظمیں سنا رہے تھے۔ باقر علی سے اسی بات پر مینا کماری کا جھگڑا ہو گیا اور مینا کماری یہ کہہ کر اپنے بہنوئی مزاحیہ اداکار محمود کے گھر چلی گئی کہ جب کمال امروہی خود اُسے بلانے آئیں گے، تبھی وہ کمال صاحب کے گھر واپس جائے گی۔
کمال صاحب بھی بڑے خوددار انسان تھے۔ لہٰذا ’پاکیزہ‘ کی شوٹنگ درمیان میں ہی رُک گئی۔ کمال صاحب کی بھی ضد تھی کہ مینا کے بغیر ’پاکیزہ‘ مکمل نہیں کریں گے۔ اس درمیان ’پاکیزہ‘ کے ساتھ بھی کئی حادثے ہوئے۔ ایک بار اسٹوڈیو میں آگ لگنے سے تمام کاسٹیوم اور قیمتی سامان جل کر خاک ہو گیا۔
اسی درمیان بطور فلم ساز کمال امروہی نے کشور ساہو کی کہانی اور اُن ہی کی ہدایت میں فلم ’دل اپنا اور پریت پرائی‘ کی تکمیل کی اور یہ فلم بہت کامیاب ثابت ہوئی۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کے۔ آصف نے اپنی مشہور زمانہ فلم ’مغلِ اعظم‘ کی کہانی سب سے پہلے کمال امروہی سے ہی لکھوائی تھی، اور یہ وہی کہانی تھی جس پر ’انارکلی‘ کے نام سے کمال امروہی خود ایک فلم بنانا چاہتے تھے۔ بعد میں دونوں میں کسی بات پر خیالات کا ٹکراؤ ہو گیا اور کے۔آصف نے تین دوسرے ادیبوں، (وجاہت مرزا چنگیزی، امان اللہ خان اور احسن رضوی) کے ساتھ ہی کمال امروہی کو بھی شامل کرکے ایک ٹیم بنائی اور الگ الگ مناظر اِن ادیبوں سے لکھوائے۔ حالانکہ اس فلم کے مناظر کو سنوارنے اور مکالموں کو بھاری بھرکم بنانے میں کمال امروہی نے سب سے زیادہ محنت کی تھی۔
اسی کے ساتھ مجھے 14مارچ 1974 کا وہ دن یاد آیا جب میں نے کمال امروہی سے ان کے امروہہ والے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ طویل انٹرویو کیا تھا، اور اُس کے بعد بھی بہت سی فلمی اور ذاتی باتیں آؤٹ آف دی ریکارڈ انھوں نے بتائی تھیں۔ فلم ’پاکیزہ‘ زبردست کامیاب ہو چکی تھی، اور وہ اپنی اگلی فلم ’رضیہ سلطان‘ کا خاکہ ذہن میں بنا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان کو ایک اور فکر نے گھیرا تھا، اور وہ یہ کہ کمال امروہی چاہتے تھے کہ ان کی چہیتی بیٹی رُخسار زہرا کی شادی اُن کے وطن امروہہ میں ان کے شایان شان ہونی چاہیے۔ لہٰذا انھوں نے اپنے آبائی مکان کے اُس حصے کو نئے سرے سے تعمیر کرانے کا ارادہ کیا، جو انھوں نے اپنے تایہ زادوں کے پاکستان چلے جانے پر کسٹوڈین سے خریدا تھا، اور یہ تایہ زادے کوئی اور نہیں، بلکہ عالمی شہرت یافتہ رئیس امروہی، جون ایلیا، سید محمد تقی اور سید محمد عباس جیسے جید لوگ تھے،جن کا بچپن اور نوجوانی کا کچھ حصہ اسی گھر کے آنگن میں کھیلتے، کودتے، لکھتے اور پڑھتے ہوئے گزرا تھا۔ کمال امروہی نے اس مکان کو قدیم وجدید طرز تعمیر کے مطابق بنوایا، اور 5جون 1976 کو بڑی دھوم دھام سے اپنے بزرگوں کے مکان کی اُسی ڈیوڑھی سے اپنی دُلاری لاڈلی بیٹی رُخسار زہرا کو رُخصت کیا، جسے پیار سے وہ ’بٹیا‘ کہا کرتے تھے۔ راقم الحروف بھی اس شادی میں شریک تھا۔
اُسی انٹرویو میں کمال صاحب نے اپنے قلم سے لکھے ہوئے چند یادگار مکالمے بھی سنائے تھے جن سے اُن کے قلم کی جادوگری کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
فلم ’مغل اعظم‘ کا ایک منظر، جو آصف صاحب نے فلم میں شامل نہیں کیا، کمال امروہی کو بہت پسند تھا اور فلم میں اس منظر کو شامل نہ کیے جانے کا دُکھ بھی تھا۔ اُنھیں کے الفاظ میں ۔۔۔
فلم ’مغلِ اعظم‘ کا ایک جملہ، جو میں نے لکھا تھا اور مجھے بہت پسند تھا، مگر بدقسمتی سے وہ فلم میں نہیں آیا۔ نہ معلوم کیوں آصف صاحب نے اس کا استعمال نہیں کیا۔ وہ سین کچھ اس طرح تھا۔۔۔
سلیم ایک شہزادہ تھا اور انارکلی ایک کنیز تھی۔ ایک رات سلیم کو نیند نہیں آتی اور اُسی بیقراری کے عالم میں وہ اپنے بستر سے اُٹھ جاتا ہے اور دُرجن سنگھ سے کہتا ہے کہ میں ابھی انارکلی سے ملنے اس کے حجرے میں جا رہا ہوں، جہاں وہ اس وقت موجود ہے۔ دُرجن سنگھ بہت منع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنے بڑے ہندوستان کا شہزادہ کنیزوں اور غلاموں کے گھر جائے گا، یہ مناسب نہیں ہے۔ کل جب یہ بات اکبر اعظم کو معلوم ہوگی تو کتنا افسوس ہوگا۔ سلیم کیوں کہ بڑا ہی ضدّی اور ہٹھیلا تھا، اس لیے نہیں مانتا اور دُرجن سنگھ کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
سلیم کمند ڈال کر اُوپر اٹاری میں پہنچ جاتا ہے۔ نیچے دُرجن سنگھ پہرہ دے رہا ہے۔ سلیم نے دیکھا کہ شمع کی روشنی میں انارکلی سو رہی ہے اور شاید خواب میں سہم رہی ہے اور اس لیے سہم رہی ہے کہ شاید وہ خواب میں شہزادے کو ہی دیکھ رہی ہے اور ساتھ ہی کچھ سمٹ بھی رہی ہے۔ نہ جانے خواب میں کیا ہوا کہ گھبراکر اس کی آنکھ کھُل گئی اور اس نے دیکھا کہ شہزادہ خود اُس پر جھکا ہوا اُسے غور سے دیکھ رہا ہے۔ اس کو یقین نہیں آیا اور وہ سمجھتی رہی کہ یہ شاید خواب ہی ہے اور میں جاگ نہیں رہی ہوں۔
تب اچانک سلیم اس سے کہتا ہے کہ تُم جاگ اُٹھی ہو اور یہ خواب نہیں ہے۔ میں حقیقت میں تمھارے قریب موجود ہوں۔ تب وہ گھبرا کر اُٹھ جاتی ہے اور سوال کرتی ہے۔’’آپ یہاں کیسے آگئے؟ اس وقت اگر آپ کو یہاں دیکھ لیا گیا تو مجھ پر بڑی مصیبت نازل ہوگی۔‘‘
سلیم کہتاہے۔ ’’یہ تو رات کا وقت ہے اور اس اندھیرے میں مجھے یا تمھیں کوئی نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ انارکلی کہتی ہے۔ ’’عالم پناہ کی نگاہیں پتّھر کی دیواروں میں دراڑیں ڈال کر دیکھا کرتی ہیں۔‘‘
یہ سُن کر شہزادہ غصہ میں آجاتا ہے اور انارکلی کو بستر سے اُٹھا لیتا ہے، کہتا ہے۔ ’’کیا تو ہر وقت اکبر اعظم سے سہمتی رہے گی؟ ابھی تک تجھے یہ معلوم نہیں کہ کون تجھ سے محبت کرتا ہے۔۔۔ آ۔۔۔ آج میں تجھے اپنا تعارف کراؤں۔۔۔ وہ صرف اکبر اعظم ہیں اور میں اُن کے ماتھے پر پڑا ہوا وہ نشان ہوں جو شیخ سلیم چشتی کی درگاہ کی چوکھٹ پر رگڑتے رگڑتے پیدا ہوا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ انارکلی کو بستر پر پھینک دیتا ہے اور اس کے حجرے سے باہر نکل آتا ہے۔‘‘
کمال امروہی کے قلم میں جادو تھا۔وہ مکالموں کو اس طرح سجاسنوار کر لکھتے تھے کہ مکالمے اپنا پورا اثر فلم بینوں پر چھوڑتے تھے۔ اسی طرح جب کمال امروہی نے فلم ’بہرام خاں‘ لکھی تو اس کے ایک منظر میں اکبر اعظم کو کسی نے بہکایاکہ بہرام خان آہستہ آہستہ تمھارے نیچے سے تختِ سلطنت کو کھینچ رہا ہے اور اپنے لیے تخت سلطنت کی بنیاد رکھ رہا ہے، جس کی دلیل یہ دی گئی کہ اس کے یہاں اب اولاد بھی ہو گئی ہے (عبدالرحیم خانخانہ)۔ تب اکبر کو یقین آگیا کہ واقعی یہ سب سے بڑا سیاستداں ہے۔ اب اس کے یہاں اولاد بھی ہوگئی ہے اور یہی حکومت کی ریڑھ بھی ہے۔ یہ جب چاہے سلطنتِ مغلیہ کو اُلٹ سکتا ہے۔ یہ خبر بہرام خاں تک بھی پہنچ گئی اور چونکہ وہ انتہائی وفادار تھا، اس لیے اس کو بہت رَنج ہوا اور وہ اپنی صفائی دینے کے لیے خود اکبر کے سامنے حاضر ہوا۔ اپنی صفائی میں اس کے منہ سے ایک ہی جملہ نکلا۔
’’یہ وہ جملہ ہے جو مجھے میرے لکھے ہوئے مکالموں میں بے حد پسند ہے۔‘‘
کمال صاحب یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔
’’بہرام خاں نے کہا تھا۔۔۔ ’’ہاں مہابلی! بہرام باغی ہے۔ وہ بہرام، جس نے سلطنت مغلیہ کی حدود کو دھکیلتے دھکیلتے اور ان سر زمینوں میں اپنا گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے اتنا وقت گزار دیا کہ اس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے جو گرد اُڑی، اس گرد سے اُس کی دلہن کا سر سفید ہو گیا۔۔۔‘‘ یہ سُن کر اکبر بھی رو دیا۔‘‘
کمال صاحب ’پاکیزہ‘ کا ایک مکالمہ جو انھیں بہت پسند تھا، سناتے ہیں۔۔۔ ’’اسی طرح فلم ’پاکیزہ‘ میں جب اشوک کمار اپنی محبوبہ سے باہر کہیں نکاح کرکے اسے اپنے گھر لے کر آتے ہیں، تو ان کے باپ نے کہا۔۔۔ ’’یہ ایک بازاری گالی ہے جو تم ہمارے خاندان کو نہیں دے سکتے۔‘‘
اسی طرح فلم ’رضیہ سلطان‘ میں جب شہزادہ رکن الدین کی عیاشیوں اور مظالم کی خبر سن کر بادشاہ التمش رضیہ کو کمان سونپ کر واپس آتا ہے تو فریادی کی فریاد سن کر تلوار ہاتھ میں لیے شہزادے کی تلاش میں جاتا ہے جو اپنی ماں شاہ ترکان کی پشت کے پیچھے چھپا بیٹھا ہے۔ وہاں بادشاہ اپنی بیوی شاہ ترکان سے کہتا ہے کہ۔۔۔
’’یہ تیرے بدچلن بیٹے میرے کسی ایسے ناکردہ گناہ کی سزا ہیں جو شاید اب مجھے بھی یاد نہیں۔‘‘
یہ کمال امروہی کے دل کی آواز تھی جو انھوں نے اپنے قلم کے ذریعے فلمی اسکرین پر رقم کر دی تھی۔
اُردو کے مقبول ترین اور عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے فلم ’پکار‘ دیکھ کر اُن کی زبان اور لہجے کے بارے میں بہت متاثر ہو کر ایک تبصرے میں لکھا تھا۔۔۔ ’’زبان بھی سیّد امیر حیدر کمال کی، اعلیٰ اور پُرجلال زبان۔‘‘
کمال امروہی کی صلاحیتوں کا یہ عالم کہ فلم ’پاکیزہ‘ کے ایک سین میں جب فلم کے ہیرو راجکمار شادی کرنے کے لیے ہیروئن مینا کماری کو لے جا رہے ہیں تو راستے میں ایک اوباش قسم کے شخص سے جھگڑا ہو جاتا ہے اور پولیس فریقین کو تھانے میں لے جاتی ہے، جہاں ایک بزرگ اور شفیق سے تھانیدار صاحب جب راجکمار سے دریافت کرتے ہیں کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ تو جواب میں راجکمار بتاتے ہیں کہ وہ ایک فاریسٹ آفیسر ہیں۔ تھانیدار صاحب کھڑے ہو جاتے ہیں اور بڑے مشفقانہ لہجے میں کہتے ہیں کہ۔۔۔ ’’آپ جیسے بارُتبہ شخص کا اس معاملے میں تھانے میں آنا اچھا نہیں لگا۔ آپ جا سکتے ہیں۔‘‘ کمال صاحب کے قلم کا کمال یہ تھا کہ وہ ایک ہی جملے میں پورے سین کو سمیٹ کر لکھ دیتے تھے۔
’پاکیزہ‘ ابھی ادھوری ہی تھی ، جب مینا کماری، کمال امروہی کا گھر چھوڑکر اپنے بہنوئی مزاحیہ اداکار محمود کے گھر چلی گئی تھیں۔ کمال کی ضد تھی کی وہ ’پاکیزہ‘ کو مینا کے بغیر مکمل نہیں کریں گے۔ لہٰذا کئی برس کے بعد سنیل دت، نرگس، خیام اور چترا کی کوششوں سے مینا کماری اور کمال امروہی کے درمیان ’پاکیزہ‘ کو مکمل کرنے کا سمجھوتہ ہوا اور اس طرح 14برس کے لمبے عرصے کے بعد جب ’پاکیزہ‘ مکمل ہوکر پردۂ سیمیں پر آئی تو اس کی کامیابی دیکھنے کے لیے مینا کماری زیادہ دن زندہ نہ رہ سکیں۔ 4فروری 1972 کو ممبئی میں اور 12فروری 1972 کو پورے ہندوستان میں ’پاکیزہ‘ نمائش کے لیے پیش ہوئی اور 31 مارچ 1972 کو مینا کماری نے اس جہانِ فانی کو الوداع کہا۔
کمال امروہی کی اس فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس کے ساتھ ہی کمال صاحب کے پاس بہت سے فلمسازوں کے آفر آئے، مگر کمال صاحب نے ’رضیہ سلطان‘ کے روپ میں ایک اور حسین خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ ہیما مالینی اور دھرمیندر کو لے کر بڑے عالیشان انداز میں اس فلم کو شروع کیا گیا۔ یہ ایک تاریخی فلم تھی اور اس کی شوٹنگ پر روپیہ پانی کی طرح بہایاجا رہا تھا۔
کمال صاحب بڑی محنت سے یہ فلم بنا رہے تھے۔ اپنے وقت کی اس سب سے مہنگی فلم کو فلم بینوں نے قبول نہیں کیا اور کمال صاحب کو بہت بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ دس برس کی محنت اور لگ بھگ ساڑے چھ کروڑ کی لاگت سے بنی یہ شاندار فلم پہلے ہی ہفتے میں فلاپ ہو گئی۔ اسی درمیان ان کے چھوٹے بیٹے تاجدار امروہی نے کمال امروہی کی کہانی پر ایک چھوٹے بجٹ کی فلم ’شنکر حُسین‘ بنائی، اس فلم کے گیت کافی مقبول ہوئے، مگر فلم نہ چل سکی۔ اس فلم کی ہدایت کمال امروہی کے معاون ہدایت کار یوسف نقوی نے دی تھی اور اس فلم کا موضوع قومی یکجہتی تھا۔
کمال صاحب پرفیکشن (Perfection) کے حامی تھے۔ کتنا ہی پیسہ لگ جائے، کتنا ہی وقت لگ جائے کوئی پرواہ نہیں، مگر سین میں پرفیکشن آنا چاہیے۔ فلم ’رضیہ سلطان‘ کے زمانے میں انھوں نے ایک شاہی دعوت کے سین میں دیسی گھی کے کھانے بنوائے تھے۔ جب لوگوں نے اس بارے میں دریافت کیا کہ کیمرے میں دیسی گھی یا ڈالڈا گھی کے بارے میں کیا پتہ چلے گا؟ تب کمال صاحب نے کہا تھا کہ بادشاہ کی طرف سے دعوت ہو رہی ہے۔ دعوت میں جو لوگ شامل ہیں جب وہ دیسی گھی کے کھانے تناول فرمائیں گے تو اُن کے چہرے کے تاثرات سے پتہ چلے گا کہ وہ کتنا لذیذ کھانا کھا رہے ہیں۔
اسی طرح ’پاکیزہ‘ میں مینا کماری کا جھمکا گلاب سے بھری ہوئی حوض میں گر جاتا ہے اور اس کی کنیز کی بڑی خواہش ہے گلاب کے حوض میں نہانے کی۔ جب وہ جھمکا تلاش کرنے حوض میں کودتی ہے اور باہر نکلتی ہے تو اس کے چہرے کے تاثرات سے پتہ چلتا ہے کہ آج گلاب کے پانی میں نہاکر وہ کتنی خوش ہے۔ اس طرح کمال صاحب آرام آرام سے اپنی مرضی کی فلم بناتے تھے۔ فلم بنانا ان کی مجبوری یا ان کا دھندا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے فلم بناتے تھے۔
فلمی دنیا کے لیے ان کی حیثیت کئی طرح سے قابل قدر ہے۔ وہ جب سہراب مودی کے لیے فلم ’جیلر‘ لکھ رہے تھے تو فلمی ادیبوں میں سب سے کم عمر کے ادیب تھے۔ فلموں میں کہانی کاروں اور مکالمہ نگاروں کی کوئی وقعت کمال امروہی سے پہلے نہیں تھی۔ انھوں نے ادیبوں کو ایک خاص، قابل احترام اور اہم مقام دلانے میں پہل کی۔ فلم ’محل‘ کی ہدایت اور کہانی لکھ کر انھوں نے ہندوستانی سنیما میں سسپنس فلموں کا آغاز کیا۔ اشوک کمار اور مدھوبالا کو نئے انداز میں پیش کرکے معیاری سینما کے لیے ایک خاص حیثیت بخشی۔ اردو زبان کے خوبصورت اور سجے سنورے شاندار، پُروقار مکالموں کی داغ بیل فلم ’پکار‘ سے ڈالی۔ ’دائرہ‘ کے روپ میں ہندوستانی سینما کی پہلی آرٹ فلم بنائی۔ ’آئے گا آنے والا۔۔۔ ‘ گیت ’محل‘ کے لیے گا کر لتا منگیشکر بھی ہندوستانی فلم سنگیت میں اپنا مقام بنا سکیں۔
کمال امروہی نے کہانی کار اور مکالمہ نگار کی حیثیت سے جیلر، پکار، محل، دائرہ، میں ہاری، شاہجہاں، بہرام خاں، رومیو جولیٹ، مزار، پھول، دل اپنا اور پریت پرائی، مغلِ اعظم، بھروسہ، پاکیزہ، شنکر حسین اور ’رضیہ سلطان‘ جیسی فلمیں ہندوستانی سینما کو دیں۔
’رضیہ سلطان‘ کے بعد وہ’آخری مغل‘ نام سے بہادر شاہ ظفر کی زندگی پر ایک فلم بنانا چاہتے تھے، مگر خود ان کی زندگی نے ساتھ نہیں دیا۔ اس کے ساتھ ہی راجیش کھنّہ کے ساتھ فلم ’مجنوں‘ بھی شروع کی تھی، مگر 15لاکھ روپے خرچ کرکے فلم کا شاندار مہورت ہوا اور فلم اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔ کمال صاحب کے کئی خواب ادھورے رہ گئے۔ جھگّی جھونپڑی میں سیکس کے پرابلم کو لے کر بھی وہ ایک فلم بنانا چاہتے تھے۔ مگر ان کی گرتی ہوئی صحت نے اس پروجیکٹ کو بھی آگے نہ بڑھنے دیا۔
انھوں نے اپنی فنی اور تخلیقی زندگی میں اعلیٰ درجے سے کسی قدر کم درجے کی تخلیق سے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔وہ فن اور تخلیقِ فن کی دنیاکے بے حد غیر مطمئن آدمی تھے۔ وہ خود کمال تھے اور انھیں ہر لمحہ کمال کرنے کی جستجو ستاتی رہتی تھی۔
اعلیٰ مرتبے کے تخلیق کار ہمیشہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ اُن کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ ایک مثالیہ پسند، یا آدرش وادی (Idealistic) شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک ادیب اور ایک فنکار کی حیثیت سے ہمیشہ ایک اعلیٰ اور ارفع ادب پارے اور فنی شاہکار کی تلاش اور طلب میں رہتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ یہی خواہش رکھی کہ عوام ان کی سطح تک پہنچیں۔ وہ اردو ادب کی تاریخ اور تہذیب کے شاہکار تھے۔
اردو زبان اور فلموں کو کئی تاج محل، دربار عام، دربار خاص جیسے شاہ کار عطا کرنے والے اس فن کار نے 11فروری 1993 کو دِل کی حرکت بند ہو جانے سے باندرہ، بمبئی کے ایک نرسنگ ہوم میں اِس جہاں فانی کو الوداع کہا۔ اس طرح ہندوستانی سینما کا ایک دَور ختم ہو گیا۔
******
مانامہ اردو دنیا ،جنوری 2016
17جنوری 1918 کو اُتر پردیش کے مردم خیز شہر امروہہ میں ایک زمیندار گھرانے میں کمال امروہی کا جنم ہوا۔ ان کا اصلی نام سیّد امیر حیدر تھا اور پیار سے گھر والے ان کو ’چندن‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ گھر میں سب سے کم عمر ہونے کی وجہ سے کمال امروہی بہت شرارتی، چنچل اور لاڈلے تھے۔ ایک طرح سے وہ خاندان کے بگڑے ہوئے بچے کے روپ میں پہچانے جاتے تھے۔
بچپن سے ہی کمال امروہی حُسن پرست تھے۔ چاہے قدرت کے حسین مناظر ہوں یا قدرت کا بنایا ہوا کوئی حسین چہرہ، وہ ہر طرح کے حُسن کے دلدادہ تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ پڑھائی لکھائی میں ان کا دل کم ہی لگتا تھا۔ بہتر تعلیم کے لیے انھیں دہرہ دون بھیجا گیا جہاں انھوں نے ہائی اسکول تک کی تعلیم مکمل کی۔
ایک بار اُن کے خاندان میں شاید کوئی شادی تھی اور بہت سا حُسن ان کے گھر کے آنگن میں جمع تھا۔ بہت سے مہمان ان کے گھر میں آئے ہوئے تھے۔ کسی بات پر گھر میں دودھ سپلائی کرنے والی خاتون سے کمال کا جھگڑا ہوا اور اس نے کمال کے بڑے بھائی سے شکایت کر دی۔ بڑے بھائی کا گھر میں بڑا رعب تھا کیونکہ وہ پولیس میں ملازم تھے۔ انھوں نے کمال کو اپنے پاس بُلایا اور کہا کہ آپ خاندان کا نام بہت روشن کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک زناٹے دار تھپڑ کمال کے گال پر جڑ دیا۔
بڑے بھائی کا تھپّڑ کھانا تو کمال کے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی، مگر اُس وقت شادی میں آئی ہوئی بہت سی حسین لڑکیوں کے وہ ہیرو بنے ہوئے تھے۔ اس لیے انھوں نے اُن سب کی موجودگی میں اس تھپّڑ کو اپنی بہت بڑی بے عزتی محسوس کی اور اسی وقت گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہی وہ تاریخی فیصلہ تھا جس نے ہندوستانی سینما کو ایک تاریخی شخصیت عطا کی۔
اُسی رات کمال نے اپنی بہن کا سونے کا کنگن غائب کیا اور صبح کو سولہ روپے میں فروخت کرکے لاہور جانے والی گاڑی پکڑ لی۔ دس روپے خرچ کرکے کمال لاہور پہنچ گئے۔ اس وقت کمال کی عمر لگ بھگ سولہ برس کی رہی ہوگی۔
1934عیسوی کے آس پاس کا زمانہ تھا۔ لاہور میں ضمیر علی صاحب کی ایک لانڈری ’ہمدرد لانڈری‘ کے نام سے مشہور تھی۔ ضمیر علی صاحب دوست نواز آدمی تھے۔ مشہور اردو شاعر اخترشیرانی بھی اُن کے دوستوں میں تھے اور مشہور اداکار نواب علی بھی۔ خوب محفلیں جمتی تھیں۔ شعر وشاعری سے لے کر فلم اور سیاست پر خوب بحثیں ہوا کرتی تھیں۔
ضمیر علی صاحب کی ’ہمدرد لانڈری‘ میں دھام پُور ضلع بجنور (یوپی) کا ایک نوجوان لڑکا فراہیم ملازمت کرتا تھا۔ اُس کو بہت سے لوگ ’فرّی‘ کی عرفیت سے پکارتے تھے۔ فرّی کو فلموں میں کام کرنے اور ہیرو بننے کا بڑا شوق تھا۔ وہیں اس کا ایک دوست امیر حیدر بھی اس کے ساتھ رہتا تھا، حالانکہ وہ لانڈری کا ملازم نہیں تھا، مگر فرّی کی دوستی اور فلموں کے شوق کی وجہ سے دونوں ساتھ رہتے تھے۔ شاید اس لیے بھی کہ امیر حیدر گھر سے بھاگا ہوا تھا۔ امیر حیدر کے پاس کچھ کہانیاں تھیں، جن کو وہ اپنے دوستوں میں یہ کہہ کر سنایا کرتا تھا کہ وہ بھی فلموں میں کہانیاں لکھے گا۔ اس وقت لوگ اُس کی اِس بات پر ہنس دیا کرتے تھے۔
اتفاق کی بات ہے کہ ایک بار مشہور فلمساز وہدایت کار سہراب مودی لاہور پہنچے اور اپنے شاعر دوست اخترشیرانی کے یہاں ٹھہرے۔ وہیں سب دوستوں کی محفل جمی ہوئی تھی۔ ضمیر علی صاحب بھی اس محفل میں موجود تھے۔ بات چیت کے دوران انھوں نے سہراب مودی سے کہا کہ جناب ہمارے یہاں دو لڑکوں پر فلموں کا بڑا بھوت سوار ہے۔ اگر آپ ایک بار اُن سے بات کر لیں تو شاید یہ بھوت اُتر جائے۔ مودی صاحب فوراً رضامند ہو گئے اور بولے۔ ’’بُلا لو، اچھا ہے۔۔۔ تھوڑی تفریح ہی سہی۔‘‘
اگلے دن دونوں نوجوان لڑکوں کو مودی صاحب کے سامنے پیش کیا گیا۔ پہلا نمبر فراہیم کا تھا۔
’’تم کیا بننا چاہتے ہو؟‘‘ مودی صاحب نے سوال کیا۔
’’ہیرو۔‘‘ بڑے شرمیلے انداز میں فرّی نے جواب دیا۔
’’کار چلانی آتی ہے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’موٹر سائیکل؟‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ سائیکل چلا لوں گا۔‘‘
فرّی کا جواب سُن کر سب لوگ ہنس پڑے۔ اسی طرح کے کچھ اور سوال کرکے فراہیم کو کمرے سے باہر بھیج دیا گیا۔
اب باری امیر حیدر کی تھی۔ چھوٹے سے قد کا گورا چٹا نوجوان لڑکا جب سہراب مودی جیسی لمبی چوڑی قدآور شخصیت کے سامنے جا کر کھڑا ہوا تو انھوں نے حیران حیران نگاہوں سے اِس خوبصورت لڑکے کی طرف نیچے سے اوپر تک دیکھا اور دِل میں سوچا کہ اتنا کم عمر اور معصوم لڑکا کیا فلموں میں کہانیاں لکھے گا؟ لڑکا مودی صاحب کے دِل کی بات بھانپ گیا اور اِس سے پہلے کہ مودی صاحب کوئی سوال کرتے، اُس نے برجستہ سہراب مودی سے کہا۔
’’مودی صاحب۔۔۔ میں دیکھنے کی نہیں، سننے کی چیز ہوں۔‘‘
چھوٹی سی عمر کے معصوم سے لڑکے کے منہ سے ایسی بڑی بات سُن کر مودی صاحب بہت متاثر ہوئے اور فوراً کہانی سننے کے لیے راضی ہو گئے۔ امیر حیدر نے بھی بغیر ایک لمحہ ضائع کیے ایک کہانی ’جیلر‘ کے عنوان سے مودی صاحب کو اس انداز میں سنائی کہ مودی صاحب نے نہ صرف کہانی پسند کی، بلکہ اس نوجوان کو بھی اپنے ساتھ ممبئی لے جانے کا فیصلہ کر لیا اور اسی وقت جیب سے روپے نکالتے ہوئے بولے۔
’’نوجوان! یہ چار سو روپے رکھو اور بمبئی چلنے کی تیاری کرو۔ ہم وہاں تم کو بتائیں گے کہ اس کہانی کو فلم کے لیے کس طرح لکھا جائے گا۔ اب ہم کشمیر جا رہے ہیں، واپسی میں تم ہمارے ساتھ بمبئی چلوگے۔۔۔ تیار رہنا۔‘‘
چار سو روپے اس وقت اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے اس نوجوان کے دل کی دھڑکن بے قابو ہوئی جا رہی تھی اور ہاتھوں میں کپکپاہٹ ہونے لگی تھی، کیونکہ اب سے پہلے کبھی اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک کہانی کا معاوضہ اتنا بھی ہو سکتاہے۔
امیر حیدر نے فوراً بازار جاکر ایک جوڑی نئے جوتے، دو تین نئے کُرتے، ایک ہولڈال اور ضرورت کا کچھ اور سامان خریدا اور مودی صاحب کی واپسی کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ مودی صاحب بات کے پکّے اور سچّے آدمی تھے۔ انھوں نے واپسی میں امیر حیدر کو بھی اپنے ساتھ لیا اور بمبئی پہنچ گئے۔ بمبئی پہنچ کر امیر حیدر نے ’منروا مووی ٹون‘ کے لیے اُس کہانی کو ’جیلر‘ کے عنوان سے فلمی انداز میں سیّد امیر حیدر کمال کے نام سے لکھا۔
’جیلر‘ کی کامیابی کے بعد سہراب مودی نے اپنی شہرۂ آفاق تاریخی فلم ’پُکار‘ کی کہانی بھی سیّد امیر حیدر کمال سے لکھوائی۔ اس فلم نے کامیابی اور شہرت کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ چاروں طرف کمال کے نام کا ڈنکا بج گیا اور ’’باادب، باملاحظہ ہوشیار۔۔۔‘‘ کی آواز پوری فلم انڈسٹری میں گونجنے لگی۔
کمال امروہی ہندوستانی سینما کے لیے ایک بہت بڑی شخصیت کے روپ میں فلم ’پکار‘ سے اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوئے۔ اُن کو اپنے آپ پر بہت بھروسہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے پہلی بار ایک قلمکار کے روپ میں یہ شرط رکھی کہ ان کا نام فلم کے پردے پر الگ سے ایک فریم میں دیا جائے گا۔
اس طرح ایک کہانی کار اور ایک مکالمہ نگار کی الگ سے پہچان کرانے میں کمال امروہی نے اس طرح پہل کی، ورنہ اس سے پہلے کہانی کار اور مکالمہ نگار کا نام فلمی پردے پر بہت سے ناموں کی بھیڑ میں کہیں چھوٹا موٹا سا آجاتا تھا۔ کہانی کار کو فلم انڈسٹری میں منشی کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ فلم ساز یا ہدایت کار کے گھر کا کام اور بچوں کی دیکھ بھال تک کر لیا کرتا تھا۔
کمال امروہی نے پہلی بار فلم ’پکار‘ میں کہانی کار اور مکالمہ نگار کی حیثیت سے پردے پر الگ سے نام دے کر ایک خاص کردار ادا کیا۔ فلم ’پکار‘ اپنے مکالموں کی وجہ سے یہ ثابت کر سکی کہ کوئی فلم مکالموں کی بنیاد پر بھی کامیاب اور مقبول ہو سکتی ہے۔ اس فلم کے مکالمے ہی اس فلم کی خاصیت بن گئے تھے۔
ان ہی دنوں خواجہ احمد عباس نے کمال امروہی کی ایک کہانی ’آہوں کا مندر‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جو بہت مقبول ہوئی۔ عباس نے ہی کمال امروہی کو ’بامبے ٹاکیز‘ کے ہمانشو رائے سے ملوایا اور صرف اُنیس برس کی عمر میں ہی بامبے ٹاکیز کے شعبۂ کہانی (اسٹوری ڈپارٹمنٹ) کے سربراہ کمال امروہی بن گئے۔
ہمانشو رائے کے انتقال کی وجہ سے کمال امروہی کی مشہور کہانی ’آہوں کا مندر‘ پر فلم بنتے بنتے رہ گئی۔ اب بامبے ٹاکیز کا تمام کام اشوک کمار دیکھتے تھے۔ کمال امروہی نے فلم ’محل‘ کی کہانی لکھی اور اس کے ساتھ ہی وہ پہلی بار ہدایت کاری کے میدان میں داخل ہوگئے۔ حالانکہ اس فلم کے تمام معاملات اشوک کمار کے ہاتھ میں تھے، مگر بینر بامبے ٹاکیز کا تھا۔ فلم ’محل‘ (1949) اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم تھی۔ اسی فلم سے ہندوستانی سینما میں سسپنس فلموں کے دور کا آغاز ہوا اور اداکارہ مدھوبالا کی پہلی کامیاب فلم بھی ’محل‘ ہی تھی جس سے مدھوبالاکو پہچان ملی۔ اس فلم کے ایک گانے۔۔۔ ’’آئے گا آنے والا‘‘ سے لتا منگیشکر پر بھی کامیابی کے دروازے کھل گئے۔
ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا۔ وہاں ممتاز نام کی ایک خوبصورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟ اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھوبالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بن گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم ’محل‘ میں مدھوبالا بے حد خوبصورت دکھائی دی ہے اور اعلیٰ درجے کی فلموں کے لیے وہ اسی فلم سے اپنی پہچان بنا سکی۔
اشوک کمار اِس فلم کے ہیرو تھے۔ کمال امروہی کو ان کے مکالموں کی ادائگی پسند نہیں تھی۔ وہ اشوک کمار کو بالکل نئے انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ کمال امروہی نے فلم کی شوٹنگ درمیان میں ہی رُکوا دی اور تین ماہ تک وہ اشوک کمار کے ساتھ فلم کے مختلف مناظر پر اور اُس کہانی میں اشوک کمار کے کردار کے بارے میں بات چیت کرتے رہے۔ آخرکار جب اشوک کمار اس کردار میں پوری طرح اُتر گئے، تب کمال امروہی نے فلم کی شوٹنگ دوبارہ شروع کی اور نو دس ماہ میں ہی فلم مکمل کرکے نمائش کے لیے پیش کر دی۔
اشوک کمار کی انگلیوں میں دبی سگریٹ کا جلتے رہنا اور اُس کے جلنے سے اشوک کمار کا چونکنا اور اشوک کمار کے چلنے کا انداز، یہ سب فلم کی خصوصیات بن گئی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم ’محل‘ ہندوستانی سینما کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوئی۔
فلم ’محل‘ کے ہِٹ ہوتے ہی کمال امروہی کا نام ہندوستانی سینما پر چھا گیا اور پھر 1950 میں انھوں نے جب اپنی ذاتی فلم کمپنی قائم کی تو اس کا نام ’محل پکچرس‘ ہی رکھا۔ 1954 میں انھوں نے اپنی فلم ’دائرہ‘ بنائی جو ناکام ہو گئی۔ یہ فلم ایک ایسی عورت کی کہانی تھی جو غلط فہمی کا شکار ہوکر ایک بوڑھے شخص سے شادی کر لیتی ہے اور پھر شروع ہوتا ہے اس کے استحصال کا سلسلہ۔ اُس وقت یہ فلم ہندوستانی سینماکی پہلی آرٹ فلم کہلائی اور ایک تبصرہ نگار نے فلم ’دائرہ‘ دیکھ کر کہا کہ کمال امروہی نے یہ فلم اپنے وقت سے تیس برس قبل ہی بنا دی ہے۔ مینا کماری اس فلم کی ہیروئن تھیں۔
’محل پکچرس‘ کے قائم ہونے پر کمال امروہی نے ایک بہت خوبصورت فلم ’انارکلی‘ کے نام سے بنانے کا ارادہ کیا۔ اس فلم میں وہ مینا کماری کو ہیروئن لینا چاہتے تھے۔ 1951 میں ایک کار حادثے میں مینا کماری کے بائیں ہاتھ کی ایک انگلی ٹوٹ گئی تھی اور وہ پونا کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھیں۔
کمال امروہی ہاتھوں میں گلدستہ لیے، آنکھوں میں ’انارکلی‘ کا خواب سجائے اور دل میں مینا کماری کی چاہت کا جذبہ لے کر مزاج پُرسی کے لیے اسپتال گئے اور اپنی اردو دانی کا ایسا سکّہ جمایا کہ مینا کماری دل وجان سے کمال پر فدا ہو گئی۔ مینا کماری کے والد علی بخش کو یہ عشق پسند نہیں آیا۔
آخرکار 15فروری 1952 کو مینا کماری نے اپنے والد اور دونوں بہنوں کی مرضی کے خلاف کمال امروہی سے نکاح کر لیا۔ اس طرح کمال امروہی کی ’انارکلی‘ تو نہ بن سکی، مگر مینا کماری ان کے دل کی دھڑکن ضرور بن گئی اور اس کے ساتھ ہی ’دائرہ‘ بن کر فلاپ بھی ہو گئی۔ اس وقت کمال امروہی کی امروہہ والی بیوی محمودی بیگم سے ،دو لڑکے شاندار کمال، تاجدار کمال اور ایک لڑکی رخسار کمال تھے۔
کمال امروہی کی پہلی بیوی کا نام ماہِ رُخ بتول تھا اور وہ بے حد خوبصورت عورت تھیں۔ کمال امروہی پیار سے ان کو ’بابو‘ کہا کرتے تھے۔ شادی کے ایک برس بعد ہی پہلے بچّے کی پیدائش کے وقت ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ کمال امروہی کی دوسری شادی بھی امروہہ میں ہی آلِ زہرہ عرف محمودی بیگم سے ہوئی۔یہ تینوں بچّے ان کی اسی بیوی سے ہیں۔ مینا کماری ان کی تیسری بیوی تھیں اور ان کو کمال امروہی کے تینوں بچّوں سے بے حد پیار تھا۔ بچّے بھی مینا کماری کو بہت چاہتے تھے اور پیار سے چھوٹی امّی کہہ کر پکارتے تھے۔
مینا کماری کے انتقال (1972) اور فلم ’پاکیزہ‘ کی بے پناہ کامیابی کے بعد کمال امروہی نے رامپور کی ایک بہت خوبصورت لڑکی بلقیس سے نکاح کر لیا۔ اُن کی یہ چوتھی بیوی اتنی خوبصورت تھی کہ فلم ’رضیہ سلطان‘ کی شوٹنگ پر جب وہ کمال صاحب کے ساتھ آتی تھیں تو ہیما مالینی کی خوبصورتی بھی ماند پڑ جاتی تھی۔ ’رضیہ سلطان‘ کی ناکامی سے ٹوٹ کر جب کمال امروہی بہت بیمار رہنے لگے تو انھوں نے بلقیس کو ایک بڑی رقم (شاید پچاس لاکھ) دے کر اپنی طرف سے آزاد کر دیا۔
’دائرہ‘ کی ناکامی کے بعد کمال امروہی نے ایک حسین خواب دیکھا اور فلم ’پاکیزہ‘ کی تیاری شروع کر دی۔ کمال امروہی اس فلم کو اپنی زندگی کا ایک شاہکار بنانا چاہتے تھے۔ مینا کماری اس فلم کی ہیروئن بھی تھیں اور کمال امروہی کی بیوی بھی۔ کمال امروہی کے پرسنل سکریٹری باقر علی کو یہ ہدایت تھی کہ مینا کماری کے میک اپ روم میں کسی کو جانے کی اجازت نہ دی جائے۔
اُن دنوں گلزار مشہور فلم ساز و ہدایت کار بمل رائے کے اسسٹنٹ تھے اور شاعری بھی کرتے تھے۔ بمل رائے کے کسی کام سے گلزار مینا کماری سے ملنے اسٹوڈیو گئے تھے اور ان کے مَیک اپ روم میں اپنی نظمیں سنا رہے تھے۔ باقر علی سے اسی بات پر مینا کماری کا جھگڑا ہو گیا اور مینا کماری یہ کہہ کر اپنے بہنوئی مزاحیہ اداکار محمود کے گھر چلی گئی کہ جب کمال امروہی خود اُسے بلانے آئیں گے، تبھی وہ کمال صاحب کے گھر واپس جائے گی۔
کمال صاحب بھی بڑے خوددار انسان تھے۔ لہٰذا ’پاکیزہ‘ کی شوٹنگ درمیان میں ہی رُک گئی۔ کمال صاحب کی بھی ضد تھی کہ مینا کے بغیر ’پاکیزہ‘ مکمل نہیں کریں گے۔ اس درمیان ’پاکیزہ‘ کے ساتھ بھی کئی حادثے ہوئے۔ ایک بار اسٹوڈیو میں آگ لگنے سے تمام کاسٹیوم اور قیمتی سامان جل کر خاک ہو گیا۔
اسی درمیان بطور فلم ساز کمال امروہی نے کشور ساہو کی کہانی اور اُن ہی کی ہدایت میں فلم ’دل اپنا اور پریت پرائی‘ کی تکمیل کی اور یہ فلم بہت کامیاب ثابت ہوئی۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کے۔ آصف نے اپنی مشہور زمانہ فلم ’مغلِ اعظم‘ کی کہانی سب سے پہلے کمال امروہی سے ہی لکھوائی تھی، اور یہ وہی کہانی تھی جس پر ’انارکلی‘ کے نام سے کمال امروہی خود ایک فلم بنانا چاہتے تھے۔ بعد میں دونوں میں کسی بات پر خیالات کا ٹکراؤ ہو گیا اور کے۔آصف نے تین دوسرے ادیبوں، (وجاہت مرزا چنگیزی، امان اللہ خان اور احسن رضوی) کے ساتھ ہی کمال امروہی کو بھی شامل کرکے ایک ٹیم بنائی اور الگ الگ مناظر اِن ادیبوں سے لکھوائے۔ حالانکہ اس فلم کے مناظر کو سنوارنے اور مکالموں کو بھاری بھرکم بنانے میں کمال امروہی نے سب سے زیادہ محنت کی تھی۔
اسی کے ساتھ مجھے 14مارچ 1974 کا وہ دن یاد آیا جب میں نے کمال امروہی سے ان کے امروہہ والے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ طویل انٹرویو کیا تھا، اور اُس کے بعد بھی بہت سی فلمی اور ذاتی باتیں آؤٹ آف دی ریکارڈ انھوں نے بتائی تھیں۔ فلم ’پاکیزہ‘ زبردست کامیاب ہو چکی تھی، اور وہ اپنی اگلی فلم ’رضیہ سلطان‘ کا خاکہ ذہن میں بنا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان کو ایک اور فکر نے گھیرا تھا، اور وہ یہ کہ کمال امروہی چاہتے تھے کہ ان کی چہیتی بیٹی رُخسار زہرا کی شادی اُن کے وطن امروہہ میں ان کے شایان شان ہونی چاہیے۔ لہٰذا انھوں نے اپنے آبائی مکان کے اُس حصے کو نئے سرے سے تعمیر کرانے کا ارادہ کیا، جو انھوں نے اپنے تایہ زادوں کے پاکستان چلے جانے پر کسٹوڈین سے خریدا تھا، اور یہ تایہ زادے کوئی اور نہیں، بلکہ عالمی شہرت یافتہ رئیس امروہی، جون ایلیا، سید محمد تقی اور سید محمد عباس جیسے جید لوگ تھے،جن کا بچپن اور نوجوانی کا کچھ حصہ اسی گھر کے آنگن میں کھیلتے، کودتے، لکھتے اور پڑھتے ہوئے گزرا تھا۔ کمال امروہی نے اس مکان کو قدیم وجدید طرز تعمیر کے مطابق بنوایا، اور 5جون 1976 کو بڑی دھوم دھام سے اپنے بزرگوں کے مکان کی اُسی ڈیوڑھی سے اپنی دُلاری لاڈلی بیٹی رُخسار زہرا کو رُخصت کیا، جسے پیار سے وہ ’بٹیا‘ کہا کرتے تھے۔ راقم الحروف بھی اس شادی میں شریک تھا۔
اُسی انٹرویو میں کمال صاحب نے اپنے قلم سے لکھے ہوئے چند یادگار مکالمے بھی سنائے تھے جن سے اُن کے قلم کی جادوگری کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
فلم ’مغل اعظم‘ کا ایک منظر، جو آصف صاحب نے فلم میں شامل نہیں کیا، کمال امروہی کو بہت پسند تھا اور فلم میں اس منظر کو شامل نہ کیے جانے کا دُکھ بھی تھا۔ اُنھیں کے الفاظ میں ۔۔۔
فلم ’مغلِ اعظم‘ کا ایک جملہ، جو میں نے لکھا تھا اور مجھے بہت پسند تھا، مگر بدقسمتی سے وہ فلم میں نہیں آیا۔ نہ معلوم کیوں آصف صاحب نے اس کا استعمال نہیں کیا۔ وہ سین کچھ اس طرح تھا۔۔۔
سلیم ایک شہزادہ تھا اور انارکلی ایک کنیز تھی۔ ایک رات سلیم کو نیند نہیں آتی اور اُسی بیقراری کے عالم میں وہ اپنے بستر سے اُٹھ جاتا ہے اور دُرجن سنگھ سے کہتا ہے کہ میں ابھی انارکلی سے ملنے اس کے حجرے میں جا رہا ہوں، جہاں وہ اس وقت موجود ہے۔ دُرجن سنگھ بہت منع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنے بڑے ہندوستان کا شہزادہ کنیزوں اور غلاموں کے گھر جائے گا، یہ مناسب نہیں ہے۔ کل جب یہ بات اکبر اعظم کو معلوم ہوگی تو کتنا افسوس ہوگا۔ سلیم کیوں کہ بڑا ہی ضدّی اور ہٹھیلا تھا، اس لیے نہیں مانتا اور دُرجن سنگھ کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
سلیم کمند ڈال کر اُوپر اٹاری میں پہنچ جاتا ہے۔ نیچے دُرجن سنگھ پہرہ دے رہا ہے۔ سلیم نے دیکھا کہ شمع کی روشنی میں انارکلی سو رہی ہے اور شاید خواب میں سہم رہی ہے اور اس لیے سہم رہی ہے کہ شاید وہ خواب میں شہزادے کو ہی دیکھ رہی ہے اور ساتھ ہی کچھ سمٹ بھی رہی ہے۔ نہ جانے خواب میں کیا ہوا کہ گھبراکر اس کی آنکھ کھُل گئی اور اس نے دیکھا کہ شہزادہ خود اُس پر جھکا ہوا اُسے غور سے دیکھ رہا ہے۔ اس کو یقین نہیں آیا اور وہ سمجھتی رہی کہ یہ شاید خواب ہی ہے اور میں جاگ نہیں رہی ہوں۔
تب اچانک سلیم اس سے کہتا ہے کہ تُم جاگ اُٹھی ہو اور یہ خواب نہیں ہے۔ میں حقیقت میں تمھارے قریب موجود ہوں۔ تب وہ گھبرا کر اُٹھ جاتی ہے اور سوال کرتی ہے۔’’آپ یہاں کیسے آگئے؟ اس وقت اگر آپ کو یہاں دیکھ لیا گیا تو مجھ پر بڑی مصیبت نازل ہوگی۔‘‘
سلیم کہتاہے۔ ’’یہ تو رات کا وقت ہے اور اس اندھیرے میں مجھے یا تمھیں کوئی نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ انارکلی کہتی ہے۔ ’’عالم پناہ کی نگاہیں پتّھر کی دیواروں میں دراڑیں ڈال کر دیکھا کرتی ہیں۔‘‘
یہ سُن کر شہزادہ غصہ میں آجاتا ہے اور انارکلی کو بستر سے اُٹھا لیتا ہے، کہتا ہے۔ ’’کیا تو ہر وقت اکبر اعظم سے سہمتی رہے گی؟ ابھی تک تجھے یہ معلوم نہیں کہ کون تجھ سے محبت کرتا ہے۔۔۔ آ۔۔۔ آج میں تجھے اپنا تعارف کراؤں۔۔۔ وہ صرف اکبر اعظم ہیں اور میں اُن کے ماتھے پر پڑا ہوا وہ نشان ہوں جو شیخ سلیم چشتی کی درگاہ کی چوکھٹ پر رگڑتے رگڑتے پیدا ہوا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ انارکلی کو بستر پر پھینک دیتا ہے اور اس کے حجرے سے باہر نکل آتا ہے۔‘‘
کمال امروہی کے قلم میں جادو تھا۔وہ مکالموں کو اس طرح سجاسنوار کر لکھتے تھے کہ مکالمے اپنا پورا اثر فلم بینوں پر چھوڑتے تھے۔ اسی طرح جب کمال امروہی نے فلم ’بہرام خاں‘ لکھی تو اس کے ایک منظر میں اکبر اعظم کو کسی نے بہکایاکہ بہرام خان آہستہ آہستہ تمھارے نیچے سے تختِ سلطنت کو کھینچ رہا ہے اور اپنے لیے تخت سلطنت کی بنیاد رکھ رہا ہے، جس کی دلیل یہ دی گئی کہ اس کے یہاں اب اولاد بھی ہو گئی ہے (عبدالرحیم خانخانہ)۔ تب اکبر کو یقین آگیا کہ واقعی یہ سب سے بڑا سیاستداں ہے۔ اب اس کے یہاں اولاد بھی ہوگئی ہے اور یہی حکومت کی ریڑھ بھی ہے۔ یہ جب چاہے سلطنتِ مغلیہ کو اُلٹ سکتا ہے۔ یہ خبر بہرام خاں تک بھی پہنچ گئی اور چونکہ وہ انتہائی وفادار تھا، اس لیے اس کو بہت رَنج ہوا اور وہ اپنی صفائی دینے کے لیے خود اکبر کے سامنے حاضر ہوا۔ اپنی صفائی میں اس کے منہ سے ایک ہی جملہ نکلا۔
’’یہ وہ جملہ ہے جو مجھے میرے لکھے ہوئے مکالموں میں بے حد پسند ہے۔‘‘
کمال صاحب یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔
’’بہرام خاں نے کہا تھا۔۔۔ ’’ہاں مہابلی! بہرام باغی ہے۔ وہ بہرام، جس نے سلطنت مغلیہ کی حدود کو دھکیلتے دھکیلتے اور ان سر زمینوں میں اپنا گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے اتنا وقت گزار دیا کہ اس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے جو گرد اُڑی، اس گرد سے اُس کی دلہن کا سر سفید ہو گیا۔۔۔‘‘ یہ سُن کر اکبر بھی رو دیا۔‘‘
کمال صاحب ’پاکیزہ‘ کا ایک مکالمہ جو انھیں بہت پسند تھا، سناتے ہیں۔۔۔ ’’اسی طرح فلم ’پاکیزہ‘ میں جب اشوک کمار اپنی محبوبہ سے باہر کہیں نکاح کرکے اسے اپنے گھر لے کر آتے ہیں، تو ان کے باپ نے کہا۔۔۔ ’’یہ ایک بازاری گالی ہے جو تم ہمارے خاندان کو نہیں دے سکتے۔‘‘
اسی طرح فلم ’رضیہ سلطان‘ میں جب شہزادہ رکن الدین کی عیاشیوں اور مظالم کی خبر سن کر بادشاہ التمش رضیہ کو کمان سونپ کر واپس آتا ہے تو فریادی کی فریاد سن کر تلوار ہاتھ میں لیے شہزادے کی تلاش میں جاتا ہے جو اپنی ماں شاہ ترکان کی پشت کے پیچھے چھپا بیٹھا ہے۔ وہاں بادشاہ اپنی بیوی شاہ ترکان سے کہتا ہے کہ۔۔۔
’’یہ تیرے بدچلن بیٹے میرے کسی ایسے ناکردہ گناہ کی سزا ہیں جو شاید اب مجھے بھی یاد نہیں۔‘‘
یہ کمال امروہی کے دل کی آواز تھی جو انھوں نے اپنے قلم کے ذریعے فلمی اسکرین پر رقم کر دی تھی۔
اُردو کے مقبول ترین اور عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے فلم ’پکار‘ دیکھ کر اُن کی زبان اور لہجے کے بارے میں بہت متاثر ہو کر ایک تبصرے میں لکھا تھا۔۔۔ ’’زبان بھی سیّد امیر حیدر کمال کی، اعلیٰ اور پُرجلال زبان۔‘‘
کمال امروہی کی صلاحیتوں کا یہ عالم کہ فلم ’پاکیزہ‘ کے ایک سین میں جب فلم کے ہیرو راجکمار شادی کرنے کے لیے ہیروئن مینا کماری کو لے جا رہے ہیں تو راستے میں ایک اوباش قسم کے شخص سے جھگڑا ہو جاتا ہے اور پولیس فریقین کو تھانے میں لے جاتی ہے، جہاں ایک بزرگ اور شفیق سے تھانیدار صاحب جب راجکمار سے دریافت کرتے ہیں کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ تو جواب میں راجکمار بتاتے ہیں کہ وہ ایک فاریسٹ آفیسر ہیں۔ تھانیدار صاحب کھڑے ہو جاتے ہیں اور بڑے مشفقانہ لہجے میں کہتے ہیں کہ۔۔۔ ’’آپ جیسے بارُتبہ شخص کا اس معاملے میں تھانے میں آنا اچھا نہیں لگا۔ آپ جا سکتے ہیں۔‘‘ کمال صاحب کے قلم کا کمال یہ تھا کہ وہ ایک ہی جملے میں پورے سین کو سمیٹ کر لکھ دیتے تھے۔
’پاکیزہ‘ ابھی ادھوری ہی تھی ، جب مینا کماری، کمال امروہی کا گھر چھوڑکر اپنے بہنوئی مزاحیہ اداکار محمود کے گھر چلی گئی تھیں۔ کمال کی ضد تھی کی وہ ’پاکیزہ‘ کو مینا کے بغیر مکمل نہیں کریں گے۔ لہٰذا کئی برس کے بعد سنیل دت، نرگس، خیام اور چترا کی کوششوں سے مینا کماری اور کمال امروہی کے درمیان ’پاکیزہ‘ کو مکمل کرنے کا سمجھوتہ ہوا اور اس طرح 14برس کے لمبے عرصے کے بعد جب ’پاکیزہ‘ مکمل ہوکر پردۂ سیمیں پر آئی تو اس کی کامیابی دیکھنے کے لیے مینا کماری زیادہ دن زندہ نہ رہ سکیں۔ 4فروری 1972 کو ممبئی میں اور 12فروری 1972 کو پورے ہندوستان میں ’پاکیزہ‘ نمائش کے لیے پیش ہوئی اور 31 مارچ 1972 کو مینا کماری نے اس جہانِ فانی کو الوداع کہا۔
کمال امروہی کی اس فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس کے ساتھ ہی کمال صاحب کے پاس بہت سے فلمسازوں کے آفر آئے، مگر کمال صاحب نے ’رضیہ سلطان‘ کے روپ میں ایک اور حسین خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ ہیما مالینی اور دھرمیندر کو لے کر بڑے عالیشان انداز میں اس فلم کو شروع کیا گیا۔ یہ ایک تاریخی فلم تھی اور اس کی شوٹنگ پر روپیہ پانی کی طرح بہایاجا رہا تھا۔
کمال صاحب بڑی محنت سے یہ فلم بنا رہے تھے۔ اپنے وقت کی اس سب سے مہنگی فلم کو فلم بینوں نے قبول نہیں کیا اور کمال صاحب کو بہت بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ دس برس کی محنت اور لگ بھگ ساڑے چھ کروڑ کی لاگت سے بنی یہ شاندار فلم پہلے ہی ہفتے میں فلاپ ہو گئی۔ اسی درمیان ان کے چھوٹے بیٹے تاجدار امروہی نے کمال امروہی کی کہانی پر ایک چھوٹے بجٹ کی فلم ’شنکر حُسین‘ بنائی، اس فلم کے گیت کافی مقبول ہوئے، مگر فلم نہ چل سکی۔ اس فلم کی ہدایت کمال امروہی کے معاون ہدایت کار یوسف نقوی نے دی تھی اور اس فلم کا موضوع قومی یکجہتی تھا۔
کمال صاحب پرفیکشن (Perfection) کے حامی تھے۔ کتنا ہی پیسہ لگ جائے، کتنا ہی وقت لگ جائے کوئی پرواہ نہیں، مگر سین میں پرفیکشن آنا چاہیے۔ فلم ’رضیہ سلطان‘ کے زمانے میں انھوں نے ایک شاہی دعوت کے سین میں دیسی گھی کے کھانے بنوائے تھے۔ جب لوگوں نے اس بارے میں دریافت کیا کہ کیمرے میں دیسی گھی یا ڈالڈا گھی کے بارے میں کیا پتہ چلے گا؟ تب کمال صاحب نے کہا تھا کہ بادشاہ کی طرف سے دعوت ہو رہی ہے۔ دعوت میں جو لوگ شامل ہیں جب وہ دیسی گھی کے کھانے تناول فرمائیں گے تو اُن کے چہرے کے تاثرات سے پتہ چلے گا کہ وہ کتنا لذیذ کھانا کھا رہے ہیں۔
اسی طرح ’پاکیزہ‘ میں مینا کماری کا جھمکا گلاب سے بھری ہوئی حوض میں گر جاتا ہے اور اس کی کنیز کی بڑی خواہش ہے گلاب کے حوض میں نہانے کی۔ جب وہ جھمکا تلاش کرنے حوض میں کودتی ہے اور باہر نکلتی ہے تو اس کے چہرے کے تاثرات سے پتہ چلتا ہے کہ آج گلاب کے پانی میں نہاکر وہ کتنی خوش ہے۔ اس طرح کمال صاحب آرام آرام سے اپنی مرضی کی فلم بناتے تھے۔ فلم بنانا ان کی مجبوری یا ان کا دھندا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے فلم بناتے تھے۔
فلمی دنیا کے لیے ان کی حیثیت کئی طرح سے قابل قدر ہے۔ وہ جب سہراب مودی کے لیے فلم ’جیلر‘ لکھ رہے تھے تو فلمی ادیبوں میں سب سے کم عمر کے ادیب تھے۔ فلموں میں کہانی کاروں اور مکالمہ نگاروں کی کوئی وقعت کمال امروہی سے پہلے نہیں تھی۔ انھوں نے ادیبوں کو ایک خاص، قابل احترام اور اہم مقام دلانے میں پہل کی۔ فلم ’محل‘ کی ہدایت اور کہانی لکھ کر انھوں نے ہندوستانی سنیما میں سسپنس فلموں کا آغاز کیا۔ اشوک کمار اور مدھوبالا کو نئے انداز میں پیش کرکے معیاری سینما کے لیے ایک خاص حیثیت بخشی۔ اردو زبان کے خوبصورت اور سجے سنورے شاندار، پُروقار مکالموں کی داغ بیل فلم ’پکار‘ سے ڈالی۔ ’دائرہ‘ کے روپ میں ہندوستانی سینما کی پہلی آرٹ فلم بنائی۔ ’آئے گا آنے والا۔۔۔ ‘ گیت ’محل‘ کے لیے گا کر لتا منگیشکر بھی ہندوستانی فلم سنگیت میں اپنا مقام بنا سکیں۔
کمال امروہی نے کہانی کار اور مکالمہ نگار کی حیثیت سے جیلر، پکار، محل، دائرہ، میں ہاری، شاہجہاں، بہرام خاں، رومیو جولیٹ، مزار، پھول، دل اپنا اور پریت پرائی، مغلِ اعظم، بھروسہ، پاکیزہ، شنکر حسین اور ’رضیہ سلطان‘ جیسی فلمیں ہندوستانی سینما کو دیں۔
’رضیہ سلطان‘ کے بعد وہ’آخری مغل‘ نام سے بہادر شاہ ظفر کی زندگی پر ایک فلم بنانا چاہتے تھے، مگر خود ان کی زندگی نے ساتھ نہیں دیا۔ اس کے ساتھ ہی راجیش کھنّہ کے ساتھ فلم ’مجنوں‘ بھی شروع کی تھی، مگر 15لاکھ روپے خرچ کرکے فلم کا شاندار مہورت ہوا اور فلم اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔ کمال صاحب کے کئی خواب ادھورے رہ گئے۔ جھگّی جھونپڑی میں سیکس کے پرابلم کو لے کر بھی وہ ایک فلم بنانا چاہتے تھے۔ مگر ان کی گرتی ہوئی صحت نے اس پروجیکٹ کو بھی آگے نہ بڑھنے دیا۔
انھوں نے اپنی فنی اور تخلیقی زندگی میں اعلیٰ درجے سے کسی قدر کم درجے کی تخلیق سے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔وہ فن اور تخلیقِ فن کی دنیاکے بے حد غیر مطمئن آدمی تھے۔ وہ خود کمال تھے اور انھیں ہر لمحہ کمال کرنے کی جستجو ستاتی رہتی تھی۔
اعلیٰ مرتبے کے تخلیق کار ہمیشہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ اُن کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ ایک مثالیہ پسند، یا آدرش وادی (Idealistic) شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک ادیب اور ایک فنکار کی حیثیت سے ہمیشہ ایک اعلیٰ اور ارفع ادب پارے اور فنی شاہکار کی تلاش اور طلب میں رہتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ یہی خواہش رکھی کہ عوام ان کی سطح تک پہنچیں۔ وہ اردو ادب کی تاریخ اور تہذیب کے شاہکار تھے۔
اردو زبان اور فلموں کو کئی تاج محل، دربار عام، دربار خاص جیسے شاہ کار عطا کرنے والے اس فن کار نے 11فروری 1993 کو دِل کی حرکت بند ہو جانے سے باندرہ، بمبئی کے ایک نرسنگ ہوم میں اِس جہاں فانی کو الوداع کہا۔ اس طرح ہندوستانی سینما کا ایک دَور ختم ہو گیا۔
******
مانامہ اردو دنیا ،جنوری 2016