ہندوستانی ریاستوں میں سیر و شکار

نواب حافظ سرمحمد احمد خاں /عبدالمجید قریشی

(حصّہ اول)
متحدہ ہندوستان کے وائسرائے لارڈریڈنگ 1926ء میں اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے اختتام پر انگلستان واپس جانے لگے تو انہوں نے اپنی الوداعی پارٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا: میں ہندوستان میں دو چیزیں ایسی چھوڑے جارہا ہوں جو مجھے انگلستان میں تازندگی نصیب نہ ہوں گی، ان میں سے پہلی چیز وائسرائے کی سفید رنگ کی خوبصورت اسپیشل ریلوے ٹرین ہے جس میںآ رام و آسائش کی جملہ سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ دوسری چیز والیانِ ریاست کی جانب سے کیا جانے والا شاہانہ استقبال اور ہمارے اعزاز میں دی جانے والی شاندار ضیافتیں جن میں شکار کی دلچسپ مہمات خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ شکار چھوٹا اور بڑا دونوں قسموں کا ہوتا تھا۔ اور والیانِ ریاست جن میں راجے، مہاراجے اور نواب شامل تھے، کی طرف سے یہ کوشش کی جاتی تھی کہ شکار کی یہ مہمات پوری پوری دلچسپی کی حامل ہوں تاکہ وائسرائے ہند اور دوسرے معزز مہمان ان سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکیں اور اُنہیں میزبانوں سے کسی قسم کا شکوہ شکایت نہ ہونے پائے۔
والیانِ ریاست کے مشاغل اپنی اپنی طبیعتوں کے لحاظ سے مختلف واقع ہوئے تھے، تاہم شکار واحد مشغلہ تھا جو ان سب صاحبان کا مشترکہ تھا۔ شکار کی دنیا سے ان سب کو گہری دلچسپی تھی اور وائسرائے ہند ہو یا کہ صوبے کا گورنر یا کوئی والیٔ ریاست یا کوئی معزز مہمان وہ ان سب کو شکار کی مہمات میں شریک کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ شکار گویا ان کی گھٹی میں پڑاہوا تھا۔ بچپن ہی سے ان کے ہاتھوں میں بندوقیں اور رائفلیں تھمادی جاتی تھیں۔ پھر وہ آہستہ آہستہ مشاق ہوجاتے تھے۔ میں نے کئی مواقع پر دیکھا کہ چونی یا اٹھنّی کا سکہ فضا میں اُچھالا جاتا تھا اور جب وہ نیچے کی طرف آتا تو اس پر چھوٹے بور کی رائفل سے نشانہ لگایا جاتا جو اکثر و بیشتر کامیاب رہتا۔ ہم شکار کی مختلف نوعیتوں اور شکاری مہمات کے متعلق آگے چل کر کچھ تفصیلی گفتگو کریں گے۔ سردست شکار کے موضوع کے علاوہ والیانِ ریاست کی بعض دوسری دلچسپیوں کے متعلق بھی بات چیت ہوجائے۔ والیانِ ریاست میں سے بعض حضرات گھڑ دوڑ کے زبردست شوقین تھے۔ مہاراجہ صاحب راج پیپلا بھی ان میں ایک تھے، ان کے ہاں ایک ایسا گھوڑا بھی موجود تھا جو ڈربی (انگلستان) کی مشہورِ زمانہ گھڑدوڑ میں جیتا ہوا تھا اور ’’ڈربی ونر‘‘ کہلاتا تھا۔ مہاراجہ صاحب بڑو دانے اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے انگلستان سے خطیر رقمیں خرچ کرکے سال سال، دو دو سال کی عمر کے بہت سے بچھیرے خریدے ہوئے تھے اور ان کی اپنے اصطبل میں بڑے اہتمام کے ساتھ پرورش کرکے گھڑدوڑ کے لیے تیار کرتے تھے۔ میں کبھی کبھی بمبئی کے مشہور ریس کورس کے میدان مہالکشمی جاتا تو وہاں زعفرانی رنگ کی جھولوں سے مزین جو شاندار گھوڑے نظر آتے تھے، میں اُن کو فوراً پہچان لیتا کہ یہ گھوڑے مہاراجہ صاحبان کولھا پور، گوالیار اور کشمیر کے سوا اور کسی کے نہیں ہیں۔
یہ گھوڑے نہایت تیز طرار تھے اور ’’کنگ ایمپرزکپ‘‘ اور ایسی ہی دوسری باوقار ٹرافیوں کے حصول کی خاطر گھڑدوڑ کے میدان میں اُترتے تھے۔
مہاراجہ صاحب نواں نگر نے جنہیں جام صاحب نواں نگر بھی کہتے تھے کرکٹ کے کھیل میں ’’رنجی‘‘ کے نام سے بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے عزیز دلیپ سنگھ اور نواب صاحب پاٹودی نے بھی کرکٹ میں بڑا نام پایا تھا۔ نواب صاحب نے کئی مرتبہ غیر ممالک میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں میں مہاراجہ صاحب پور بندر کا نام بھی آتا ہے۔ وہ بھی ایک مرتبہ اپنی کپتانی میںہندوستانی کرکٹ ٹیم لے کر انگلستان گئے تھے۔ مہاراجہ بھوپندرا سنگھ آف پٹیالہ اور ان کے صاحبزادے مہاراجہ یا دواندرسنگھ بھی مسلسل دونسلوں تک کرکٹ کے میدانوں میں اندرون اور بیرونِ ملک ناموری حاصل کرتے رہے تھے۔
والیانِ ریاست میں مجھے فٹ بال اور ہاکی کا کوئی بھی کھلاڑی نظر نہیں آتا البتہ وہ ان کھیلوں کی پوری پوری سرپرستی کرتے تھے اور ممتاز کھلاڑیوں کو اپنا ایڈی کانگ تک رکھ لیتے تھے یا پھر محکمۂ پولیس اور فوج میں اعلیٰ عہدوں سے نوازتے تھے۔ جام صاحب نواں نگر کرکٹ کے علاوہ لان ٹینس کے بھی اچھے کھلاڑی تھے، جبکہ مہاراجہ صاحب اوڑچھا اور نواب صاحب جاورہ کا محبوب کھیل گولف تھا۔ ریاست بھوپال اور ریاست جودھپور میں صاف شفاف پانی سے لبریز بڑی بڑی جھیلیں تھیں جن میں موقع بہ موقع چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی دوڑیں ہوتی تھیں اور جیتنے والوں کو بھاری بھرکم انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ مجھے بھی چاندی کا کپ ملتے ملتے رہ گیا لیکن وہ میرے سیکریٹری کے مقدر میں تھا اور وہ اسے لے اُڑا۔ ہوا یوں کہ بھوپال میں ایک دفعہ کشتیوں کی دوڑ کا ہفتہ منایا گیا۔ مقابلے میں شرکت کا دعوت نامہ مجھے بھی ملا لیکن میں نے اپنی ناتجربہ کاری اور نااہلیت کی بنا پر اس مقابلے میں حصہ لینے سے انکار کردیا البتہ میرے سکریٹری نے یہ دعوت نامہ قبول کرلیا اور مقابلے میں شریک ہوگیا سیکریٹری بھی اگرچہ میری طرح نا تجربہ کار اور اناڑی تھا جیسا کہ بعد ازاں معلوم ہوا۔ اُس کو کشتی چلانے سے کوئی سرورکار نہ تھا۔ کشتی چلانے والا تو ایک مقامی تجربہ کار ملاح تھا جس نے بڑی محنت سے کشتی دوڑائی اور مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہا۔ سکریٹری تو کشتی میں صرف بیٹھ جانے کا ذمہ دار تھا یا پھر سلور کیپ جیت لینے کا حق دار!بہرحال مجھے افسوس ضرور ہوا۔ ان جھیلوں پر مرغابیاں ہزاروں کی تعداد میں ملتی تھیں چنانچہ اُن کا شکار بھی اتنی کثیر تعداد میں کیا جاتا تھا کہ رکھنے کو جگہ نہ ملتی تھی اور اس طرح غریبوں اور ملازموں کے مزے ہوجاتے تھے۔ یہاں شکار کا لطف میں نے بھی بارہا اٹھایا۔پولو کے کھیل کے تو والیانِ ریاست ہمیشہ ہی شیدائی رہے۔انہوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں اس کھیل کے لیے وسیع و عریض میدان تیار کرائے ہوئے تھے اور اعلیٰ درجوں کے گھوڑوں کا انتخاب کیا ہوا تھا ۔ اگر چہ راجے، مہاراجے اور نواب صاحبان سب اپنی اپنی جگہ مہارت کی نمائش کرتے تھے تاہم اس کھیل کی تاریخ میں نواب صاحب بھوپال، مہاراجہ صاحب جے پور اور رتلام کے نام نامور کھلاڑیوں کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ مہاراجہ رتلام تو ایک مرتبہ برٹش پولوٹیم کے مشیر اعلیٰ بن کر اس ٹیم کے ہمراہ امریکہ بھی گئے تھے اور وہاں اُنہوں نے کمالِ فن کا جوشان دار مظاہرہ کیا اُسے اس کھیل کے امریکی ماہرین نے بھی تحسین و آفرین کے کلمات سے نوازا تھا۔
اپنی ریڈینسی کے زیر اہتمام دوچار ریاستوں میں مجھے نیزہ بازی کے کمالات بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طورپر ریاست جو دھپور کے سردار اس فن میں طاق دیکھے، لیکن جن صاحب کی مہارتِ فنّی نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا وہ مہاراجہ صاحب ریاست دیواس تھے۔ مہاراجہ صاحب انتہائی تیز رفتاری سے گھوڑا دوڑاتے ہوئے پھرتی اور صفائی کے ساتھ میخ نکال کر لے جاتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ ایسے موقعوں پر وہ مجھے خاص طور پر مدعو کرتے تھے اور میرے بیٹھنے کے لیے قریبی پہاڑی پر اہتمام کرتے تھے جہاں سے میں دوربین آنکھوںسے لگائے اُنہیں بے اختیار داد دیتا تھا۔
ایک مرتبہ والیٔ بھوپال نواب سرحمید اللہ خاں کا قیام بہ سلسلۂ شکار اپنی ریاست کے بہترین جنگل میں تعمیر شدہ ایک بنگلے میں تھا۔ میں ایک روز اُن کی ریاست میں سے پچاس میل دور ایک دوسری ریاست کا دورہ کرنے کی غرض سے گزررہا تھا۔ اُنہیں میرے پروگرام کا علم ہوا تو انہوں نے مجھے ایک خصوصی پیغام بھیجا کہ میں اُن کے ساتھ لنچ کیے بغیر وہاں سے نہ گزروں۔ میرے پاس اگرچہ وقت بہت ہی محدود تھا لیکن میں نواب صاحب کی محبت سے متاثر ہوکر اُن کی شکارگاہ پہنچا۔ ہم ابھی لنچ کی میز پر ہی تھے کہ نواب صاحب کو قریب ہی ایک شیر کی موجودگی کی خبر ملی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ بھی شکار کی اس مہم میں میرا ساتھ دیں۔ میں نے وقت کی قلت کے پیش نظر معذرت چاہی لیکن وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ وہ مجھے آدھ گھنٹے کے اندر اندر فارغ کردیں گے۔ مجھے یقین تو نہ تھا۔ مجھے شکار کی سابقہ مہمات کا تجربہ تھا کہ وہاں وقت کس طرح آہستہ آہستہ گزرتا جاتا ہے۔ تاہم میں نے اُن کے بے حداصرار پر سرجھکادیا۔ ہم ایک تیز رفتار موٹر کار میںد وچار منٹ میں ایک پہاڑی کے دامن میں پہنچ گئے۔ ہم نے اس عرصے میں کوئی چار سو گز کا فاصلہ طے کیا ہوگا۔ وہاں درختوں کے جھنڈ میں ایک مضبوط مچان بندھی ہوئی تھی۔ ہمارے پہنچتے ہی ہانکا شروع ہوگیا۔ نواب صاحب نے ایک رائفل مجھے بھی تھمادی اور کہا کہ پہل وہ کریں گے۔ ہانکا شروع ہوئے پندرہ منٹ گزر چکے تھے لیکن شیر کا انتظار ہی رہا۔ مایوسی کے ساتھ مجھے وقت گزرنے کا احساس بھی ہورہا تھا۔ اس پریشانی میں اچانک نواب صاحب نے آہستہ سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شیر ہمارے سامنے کی ایک سمت درختوں کی قطاروں کے ساتھ ساتھ ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ ایک لمحے کو ٹھیرتا اور دیکھتا اور سوچتا کہ کدھر جائوں لیکن پھر چل پڑتا۔ اب فاصلہ تیس گز کے قریب رہ گیا تھا۔ میں نے نشانہ لے کر فائر کردیا۔ نشانہ انتہائی کامیاب رہا۔ شیر کچھ دیر دھاڑتا رہا اور پھر دم توڑ گیا۔ ہم نے درندے کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ بڑی عمدہ کھال کامالک ہے۔ ناپا تو ساڑھے نو فٹ نکلا جو بہت معقول تھا۔ کیمرہ بھی موجود تھا۔ ہم نے تصویر کھنچوائی اور نواب صاحب کا شکریہ ادا کرکے رخصت ہوئے۔ گھڑی دیکھی تو اس پوری مہم میں صرف اکتیس (31) منٹ صرف ہوئے یعنی نواب صاحب کے مقرر کردہ وقت( تیس30) منٹ سے صرف ایک منٹ زیادہ!
شکار کی ایک دوسری مہم میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی کبھی ایک شیر دوسرے مردہ شیر کا گوشت بھی کھالیتا ہے۔ ہوا یوں کہ کچھ عرصے پہلے ہم نے ایک کٹڑاباندھا جو مارا گیا۔ شیر نے اُس کا کچھ حصہ کھایا اور باقی کو گھاس میںچھپا کر چلا گیا۔ ہمیں معلوم ہوا تو ہم نے قریب ہی مچان بندھوائی اور اُس پر بیٹھ گئے۔ شیر مغرب سے کچھ پہلے آگیا۔ ہمارے رفیقِ شکار نے گولی چلائی۔ نشانہ کامیاب رہا اور شیر گرگیا۔ ہم شیر کو چھوڑ کر چلے گئے۔ صبح آئے تو دیکھا کہ یہ شیر بھی نرتھا اور نوفٹ دس انچ ناک سے دم تک تھا۔ وہاں دوسرے شیر کے پائوں کے نشانات بھی تھے۔ یہ زندہ شیر رات کو مردہ شیر کو اُٹھاکر پرے لے گیا تھا۔ قیاس یہ ہے کہ رات کو کسی وقت دوسرا شیر آیا تو اوّل بھوک میں مردہ شیر کا گوشت کھایا اورجو کچھ بچا اُسے لے کر چل دیا۔انسان شیر سے ضرور ڈرتا ہے مگر شیر بھی انسان سے کچھ کم نہیں ڈرتا۔چنانچہ قریب سے آمنا سامنا ہوجائے تو برابر اُس کی طرف دیکھتے رہنا چاہیے پھر شیر کو حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی لیکن منہ موڑ کر بھاگنے سے اُسے ہمت ہوجاتی ہے کہ یہ ڈرگیا ہے، اور وہ حملہ کر بیٹھتا ہے۔ اس لیے اگرپیچھے ہٹ جانا ہی پڑجائے تو ایک ایک قدم آہستہ آہستہ ہٹنا چاہیے لیکن نظرشیر پر رہے۔ اگر شیر حملہ آور ہو تو جو چیز آپ کے پاس ہو اُس کی جانب پھینک دینی چاہیے مثلاً کوٹ، ٹوپی، چادر وغیرہ، تو شیر کا حملہ پہلے اُس پر ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بچانے یا گولی چلانے کے لیے موقع مل جاتا ہے۔ سوائے آدم خور شیر کے جم کاربٹ عام طور پر ہر شیر کو نہیں مارتے تھے البتہ سینماکے لیے تصویر ضرور لیتے رہتے تھے۔
اس سلسلے میں نواب صاحب نے کرنل جم کاربٹ کا ایک واقعہ اس طرح تحریر کیا ہے کہ کمایوں میں ایک شیر مردم خور ہوگیا۔ یہ اُس کی تلاش میں نکلے لیکن باوجود کئی شیر مارے جانے کے یہ موذی بچ جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ایک روز وہ اس کی تلاش میں سرگرداں تھے اور ایک خشک پہاڑی نالے سے اُتررہے تھے۔
(جاری ہے)
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/39994
 
سر محمد احمد خاں/ عبدالمجید قریشی​

(دوسرا اور آخری حصہ)
انہوں نے دیکھا کہ چند گز کے فاصلے پر ایک شیر دائوں کرتا ہوا آرہا ہے۔ جوں ہی انہوں نے پلٹ کر دیکھا شیر رُک گیا۔ وہ اس بات کا منتظر تھا کہ اُن کی نگاہ کسی طرف کو پھرے اور وہ اُن پر جست کرے۔ کاربٹ صاحب نے آہستہ آہستہ بندوق کاندھے سے ہٹا کر نشانہ لگایا۔ نشانہ کامیاب رہا اور یہ شیر جس طرح کھڑا ہوا تھا وہیں ڈھیر ہوگیا۔ یہ اُن کی خوش نصیبی تھی کہ وہ پلٹ پڑے اور شیر کے مقابل ہوگئے۔ اگر وہ دو تین سیکنڈ متوجہ نہ ہوتے تو شکاری خود شکار ہوجاتا۔
کرنل جم کاربٹ مردم خور شیروں کی کہانیاں نواب صاحب کو بہت سناتے تھے۔ اُن کا ایک تجربہ یہ بھی تھا کہ شیر اگرکسی جنگل میں ہو تو اس کا حملہ ہمیشہ اُس طرف سے ہوگا جدھر کوہوا جارہی ہو۔ اس کے برعکس حملہ کرنے کی صورت میں جنگلی جانور اُس کی بو سونگھ لیتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔ شیر کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ حضرتِ انسان اپنے مصنوعی اور غیر فطری طرزِ زندگی کی بدولت سونگھنے کی اُس قوت کو کھوچکا ہے جو جانوروں میں ابھی تک موجود ہے۔ لہٰذا انسان پر حملہ کرتے وقت بھی وہ اسی اصول کو پیش نظر رکھتا ہے۔ کرنل صاحب یہ بھی کہتے تھے کہ اکثر زخمی شیر یا شیرنی مردم خور ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ زخموں کی تاب نہ لاکر پڑے پڑے کمزور ہوجاتے ہیں اور جانوروں کا شکار نہیں کرسکتے۔ لہٰذا بھوک سے بے تاب ہوکر آدمی پر حملہ کر بیٹھتے ہیں اور جب اُنہیں یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ یہ شکار اتنا آسان ہے تو پھر عادی ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست نے جنہوں نے کرنل جم کاربٹ کی کتاب’’کمایوں کا آدم خور‘‘ پڑھی تھی اُن سے دریافت کیا کہ کیا واقعی کاربٹ صاحب نے شیر کو آواز سے بلاکر مارلیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھے یقین ہے یہ بات بالکل درست تھی۔ ایک روز ایسا ہوا کہ میں اور کاربٹ صاحب شکار کی مہم پر نکلے ہوئے تھے۔ سورج غروب ہوا ہی تھا کہ پہاڑ کی طرف سے ایک شیر کے دھاڑنے کی آواز کچھ فاصلے سے آئی۔ جم کہنے لگے کہ یہ شیرنی ہے اور وہ اس جنگل کے شیروں کو اپنی آواز کے ساتھ پہاڑ کی طرف لیے جارہی ہے۔ہمارا شکار خراب ہوجائے گا لیکن میں اُسے واپس بلاتا ہوں۔ مجھے حیرت ہوئی مگر میں نے کہا کہ اگر ممکن ہو تو بلائیے۔ انہوں نے میرے سامنے شیرنی کی طرف منہ کرکے اور دونوں ہاتھوں سے اپنے منہ کے گردائرہ بناکر بالکل شیر کی سی آواز نکالی۔ شیرنی اس آواز کو سن کر بجائے آگے جانے کے ہم سے قریب آکر بولی۔ جم نے پھر آواز دی تو اُس نے اور قریب آکر جواب دیا۔ تیسری بار وہ ہم سے سو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر آکر بولی۔ اس کے بعد میں نے اُس کو یہ کہہ کر منع کردیا کہ اب ختم کیجئے۔ اگر سڑک پر آکر اس لیڈی نے دیکھا کہ ہم دونوں اس سے مذاق کررہے ہیں تو یقینا وہ ناخوش ہوگی، چپراسی کے ہاتھ میں صرف مرغ مارنے کا سامان ہے۔ مجھے یہ نظارہ دیکھ کر آج بھی حیرت ہے کہ ایک انسان کے گلے سے ایسی زبردست اور خوفناک آواز کیوں کر نکلی۔میں جوانی میں اڑتے ہوئے پرندوں پر بھی نشانہ لگالیتا تھا۔ بہت سے کارتوس ضائع کرنے کے بعد میں نے دوبار اُڑتے ہوئے کبوتر پر جو طاقتور پرندہ ہے، کامیاب نشانہ لگایا۔ اگر کاری چوٹ نہ لگی تو باوجود زخمی ہونے کے کبوتر اُڑ ہی جاتا ہے۔ تیسرے اکثر مرغابی فاصلے سے گزرتی ہے اور جب تک چھرّا اس تک پہنچے وہ اپنی رفتار کی وجہ سے کچھ آگے نکل چکی ہوتی ہے۔ اکثر شکاریوں کی رائے ہے جس سے مجھے بھی اتفاق ہے کہ اگر مرغابی چالیس گز کے فاصلے سے گزر رہی ہو اور اس کو گولی لگ جائے تو یہ نشانہ نہیں صرف اتفاق ہوتا ہے۔ ہرن کا شکار تو ایک واقعے کی وجہ سے ترک ہی کردیا تھا۔ ایک بار میں مرغابی کے شکار کی غرض سے ’’پلاکستری‘‘ کی جھیل کو جارہا تھا۔ اُس زمانے میں موٹروں کا اتنا رواج نہ تھا۔ چنانچہ جہاں تک پختہ سڑک تھی میں گاڑی میں گیا اور کچا راستہ بیلوں کے تانگے میں طے کیا۔ اس راستے میں ایک بڑا میدان پڑتا تھا جہاں تین ہرنیاں اور ایک کالا ہرن ہمارے تانگے کے سامنے سے گزرے۔ میں نے اُتر کر گولی چلائی جو کالے ہرن کے لگی اور وہ گرگیا۔ میں رائفل ہاتھ میں لیے اس کی طرف بھاگا، جب قریب پہنچا تو ہرن نے میری طرف گردن اُٹھا کر دیکھا۔ میں کیا کہوں ان خاموش نگاہوں نے مجھ سے کیا کہا۔ اُن میں مجھے خوف سے زیادہ ملامت محسوس ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی میرا ذہن کلام پاک کی اس آیت بایّی ذنبٍ قُتِلَتْ (اُسے کس گناہ کے عوض قتل کیا گیا) کی طرف گیا۔ میں بے حد نادم تھا لیکن تلافی ناممکن تھی۔ ہرن کے زخم کاری لگا تھا اور اُس کا بچنا محال تھا۔ میں نے اپنا رُخ تانگے کی طرف کیا مگر دل میں عہد واثق کرلیا کہ اب کبھی ہرن پر بندوق نہیں چلائوں گا۔
شیر کا شکار میں نے ضلع بجنور کے جنگلوں میں کھیلا تھا۔ اس مقصد کے لیے ہم نے رات کو شیروں کی گزرگاہوں پر کٹڑے(بھینس کے بچے) بندھوائے مگر صبح معلوم ہوا کہ شیر نے کوئی کٹڑا نہیں مارا۔ لنچ کے بعد ہم لوگ ہاتھیوں پر سوار ہوکر جنگل میں گھومنے نکلے۔ عصر کے وقت تک پھرتے رہے مگر کوئی جانور نظر نہ آیا۔ واپسی کے وقت برابرکے جنگل سے چیتل کے بولنے کی آواز آئی۔ چیتل جب شیر یا گلدار کو دیکھتی ہے تو جنگل کے جانوروں کو متنبہ کرنے کے لیے ایک خاص آواز نکالتی ہے۔
اسی طرح سانبھر، کاکڑا اور بندر بھی شیر یا گلدار کو دیکھ کر آواز دیتے ہیں۔ ہم نے ہاتھیوں کو اس طرف بڑھایا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک گلدار سور کے چند بچوں کی تاک میں گھوم رہا ہے لیکن بڑے سور اسے حملے کا موقع نہیں دیتے تھے۔ہمارے آنے پر گلدار برابر کے گھاس کے جنگل میں چلاگیا۔ ہم نے ہاتھی اسی طرف کو بڑھادئیے۔ اب آفتاب غروب ہوچکا تھا میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھی سے کوئی اسّی گز کے فاصلے پر گلدار جارہا ہے۔ میں نے گولی چلائی تو وہ تیزی سے بھاگا۔ میرے ہاتھی پر میرے دوست عالمگیر خان بھی بیٹھے تھے، اُن کی گولی بھی چلی۔ میراخیال ہے کہ اُن کی گولی لگی اور چند گز دوڑ کر گلدار گرگیا۔
رات کو پھر ہم نے کٹڑے بندھوائے لیکن صبح یہی اطلاع ملی کہ شیر نے کوئی کٹڑا نہیں مارا۔صبح ہمارا پروگرام یہ تھا کہ شیر گارا کرلے تو پھر اگلی رات کو قریب ہی مچان بندھوا کر اس کا شکار کیا جائے لیکن ہماری یہ توقع تو پوری ہی نہ ہوئی۔ بہرحال ہم گھومنے پھرنے کو صبح ہی چل دئیے۔ راستے میں شیر کے پائوں کے تازہ نشانات ملے جو ایک گھاس کے جنگل کی طرف چلے گئے تھے۔ ہم نے ہاتھیوں کا رُخ اسی طرف کردیا۔ کچھ ہی دیر بعد میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھی سے تقریباً سوگز کے فاصلے پر ایک شیرجارہا ہے۔ وہ رکا اور مڑ کر ہماری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے گولی چلائی اور اس کے دو سیکنڈ بعد عالمگیر خان کی گولی چلی۔ مجھے یقین ہے کہ میری گولی نے خطا کی کیونکہ شیر نے مطلق حرکت نہ کی لیکن جب عالمگیر خان کی گولی چلی تو شیر کے اعصاب میں کھنچاوٹ سی محسوس ہوئی اور اُس نے بھاگنے کی کوشش کی مگر بھاگ نہ سکا پھر وہ ہماری طرف پلٹا اور ہاتھی پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ میں نے پھر گولی چلائی۔ یہ گولی نشانے پر لگی۔ شیر زور سے دھاڑا اور گر کر تڑپنے لگا۔ یہ ایک نرشیر تھا اور میرا پہلا شکار تھا۔
ایک بار میں دہلی میںسرجرمی ریز مین (متحدہ ہندوستان کے مشہور انگریز فنانس ممبر) کے ہاں لنچ پر مدعو تھا۔ لیڈی ریز مین کہنے لگیں کہ انہوں نے جنگل میںکبھی شیر نہیں دیکھا۔ اس پر سرجرمی نے کہا کہ واقعی ہم اتنے عرصے ہندوستان میں رہے مگر اس کی حسرت ہی رہی کہ جنگل کے بادشاہ کو جنگل میں گھومتے پھرتے دیکھتے۔سرجرمی ریز مین کافی عرصے ہندوستان کے فنانس ممبر رہے اور اب عنقریب ہی سبکدوش ہوکر پنشن پر جانے والے تھے۔ میں نے اُنہیں جواب دیا کہ اس دسمبر میںد و چار روز کے لیے شکار کوآئیے،اگر تقدیر میں ہے تو یہ آرزو پوری ہوجائے گی۔ اس پر اُن کانو دس برس کا لڑکا کہنے لگا: ’’میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی شیر کو دیکھوں۔‘‘ لیڈی ریزمین بولیں ’’میں سنیما کا کیمرہ لے کر چلوں گی اور شیر کی تصویر لوں گی۔‘‘ میں اخلاقاً ہاں ہاں کہتا رہا مگر دل میں یہ خیال تھا کہ یہ لوگ سرکس کے شیر اور شیر نیستاں کا فرق نہیں جانتے۔ اتنا سدھا ہوا شیر جنگل میں تو ملنا آسان نہیں جو ایک پورے خاندان کو اپنی زیارت بھی کرائے اور سنیمااسٹار بھی بنے۔​
ربط​
 

قیصرانی

لائبریرین
زبردست شیئرنگ ہے۔ آپ کے پاس کے بی حاکم الدین یعنی خان بہادر حاکم الدین کی ضخیم کتاب موجود ہے؟ اس کے کاپی رائٹ ختم ہو چکے ہوں گے۔ اس پر کام کر سکتے ہیں
جم کاربٹ Cine یعنی وڈیو فلم بناتے تھے، صاحبِ مضمون نے اسے غلطی سے سینما کے لئے فوٹوگرافی بنا دیا ہے :)
 
زبردست شیئرنگ ہے۔ آپ کے پاس کے بی حاکم الدین یعنی خان بہادر حاکم الدین کی ضخیم کتاب موجود ہے؟ اس کے کاپی رائٹ ختم ہو چکے ہوں گے۔ اس پر کام کر سکتے ہیں
جم کاربٹ Cine یعنی وڈیو فلم بناتے تھے، صاحبِ مضمون نے اسے غلطی سے سینما کے لئے فوٹوگرافی بنا دیا ہے :)
کتاب کے بارے میں مجھے علم نہیں
کیا آپ کے پاس موجود ہے؟
 
Top