حسرت موہانی ہم کیا کریں اگر نہ تری آرزو کریں؟

(غزل)​
(مولانا حسرت موہانی)​
کیا کہیئے آرزو ئے دلِ مبتلا ہے کیا
جب یہ خبر بھی ہو کہ وہ رنگیں ادا ہے کیا
کافی ہیں مرے بعد پشیمانیاں تری!
میں کشتہء وفا ہوں مرا خوں بہا ہے کیا
وقتِ کرم نہ پوچھے گا لطفِ عمیمِ یار
رِندِ خراب حال ہے کیا پارسا ہے کیا
دیکھو جسے ہے راہِ فنا کی طرف رواں
تیرے محل سرا کا یہی راستا ہے کیا
ہم کیا کریں اگر نہ تری آرزو کریں
دنیا میں اور کوئی بھی تیرے سوا ہے کیا
یوں شکر جور کرتے ہیں تیرے ادا شناس
گویا وہ جانتے ہی نہیں ہیں گلا ہے کیا
رونے لگے ابھی سے کہ ہے ابتدائے حال
تم نے ابھی فسانہء حسرت سنا ہے کیا
 

طارق شاہ

محفلین
کافی ہیں مرے بعد پشیمانیاں تری!
میں کشتہء وفا ہوں مرا خوں بہا ہے کیا
وقتِ کرم نہ پوچھے گا لطفِ عمِیمِ یار
رِندِ خراب حال ہے کیا پارسا ہے کیا
یوں شکرِ جور کرتے ہیں تیرے ادا شناس
گویا وہ جانتے ہی نہیں ہیں گلا ہے کیا
رونے لگے ابھی سے کہ ہے ابتدائے حال
تم نے ابھی فسانۂ حسرت سُنا ہے کیا
بہت ہی خوب کیا کہنے
مزمل صاحب اس انتخاب پر بہت سی داد قبول کیجئے
مطلع کے مصرع ثانی میں غلطی سے، بجائے' کہ'
کے ٹائپ ہوگیا ہے، درست کردیںگے، تو کیا بات ہے
تشکّر ایک بار پھر سے
 
کافی ہیں مرے بعد پشیمانیاں تری!
میں کشتہء وفا ہوں مرا خوں بہا ہے کیا
وقتِ کرم نہ پوچھے گا لطفِ عمِیمِ یار
رِندِ خراب حال ہے کیا پارسا ہے کیا
یوں شکرِ جور کرتے ہیں تیرے ادا شناس
گویا وہ جانتے ہی نہیں ہیں گلا ہے کیا
رونے لگے ابھی سے کہ ہے ابتدائے حال
تم نے ابھی فسانۂ حسرت سُنا ہے کیا
بہت ہی خوب کیا کہنے
مزمل صاحب اس انتخاب پر بہت سی داد قبول کیجئے
مطلع کے مصرع ثانی میں غلطی سے، بجائے' کہ'
کے ٹائپ ہوگیا ہے، درست کردیںگے، تو کیا بات ہے
تشکّر ایک بار پھر سے

شکریہ جناب.

مطلع کے بارے میں میں آپ کا اشارہ نہیں سمجھ سکا. وضاحت فرما دیجئے جناب.
شکریہ اک بار پھر. پسندیدگے کے لئے
 

طارق شاہ

محفلین
کہ کی جگہ آپ سے کے رقم ہو گیا ہے
مصرع یوں ہونا چاہیے:
"جب یہ خبر بھی ہو کہ وہ رنگیں ادا ہے کیا"
 

طارق شاہ

محفلین
اسی زمین میں حسرت موہانی صاحب کی ایک اور غزل

ہم بندگانِ درد پہ مشقِ وفا ہے کیا
دل جوئیِ وفا کا یہی مُقتَضا ہے کیا

محرومیوں نے گھیر لِیا ہے خیال کو
اے عشقِ یار تیری یہی اِنتہا ہے کیا

شوقِ لقائے یارکہاں، میں حزیں کہاں
اے جانِ بیقرار تجھے یہ ہُوا ہے کیا

ہو جائے گی کبھی نہ کبھی جان نذرِ یار
بیمارِعشق ہم ہیں ہماری شِفا ہے کیا

لاکھوں کو جس نے صبْر سے بیگانہ کردیا
کیا کہئیے آہ، وہ نگہِ آشنا ہے کیا

گِروِیدہ اِس قدر ہے جومحرومیوں سے دل
اے درد یار! تیری اسی میں بقا ہے کیا

سودائےعشق یار، ملامت کی جا نہیں
حسرت کو، پیرعقل یہ سمجھا رہا ہے کیا

حسرت موہانی
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
دیکھو جسے ہے راہِ فنا کی طرف رواں
تیرے محل سرا کا یہی راستا ہے کیا
بہت عمدہ انتخاب مزمل بھائی
 
Top