ہم کو تکیہ تھا استخارے پر

صابرہ امین

لائبریرین
کوئی بھائی یا اس کی بہن اس لڑی کو کھینچ کھانچ کر کم از کم دس صفحات تک لے جائے تو کیا بات ہے!!!
شرم دہشت جھجھک پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتے

کوئی،وہ ، جی مگر یہ سب کیا ہے
آپ وہ نام کیوں نہیں لیتے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
شرم دہشت جھجھک پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتے

کوئی،وہ ، جی مگر یہ سب کیا ہے
آپ وہ نام کیوں نہیں لیتے
صابرہ آپا۔۔۔۔ کھینچاتانی کا کام ہم بھی بخوبی کر سکتے ہیں۔۔۔۔ بس آپ یہ ذمہ داری لے لیجئیے کہ ہمارا سر سلامت رہے تاج پہننے کے لئے۔ :D
 

صابرہ امین

لائبریرین

شکیب

محفلین
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی

السلام علیکم،
آپ سب کی خدمت میں ایک غزل حاضر ہے ۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔

ہم کو تکیہ تھا استخارے پر
یعنی زندہ تھے اک اشارے پر

زندگی لے چلی جہاں ہم کو
ہم بہے آس ہی کے دھارے پر

ہم بجھے، دل بجھا، امید بجھی
بخت کے ڈوبتے ستارے پر

دل دیا اس کو درد کے بدلے
ہم کو ہے ناز اس خسارے پر

وہ طلب گار ہیں ہمارے اب
چشم حیراں ہے اس نظارے پر

ہیں کہاں اب جو دوست کہتے تھے
جان دے دیں گے اک اشارے پر

اذن پرواز دے کے ظالم نے
کاٹ ڈالے ہیں سب ہمارے پر

اپنی منزل تھی سامنے لیکن
ہم بھی ڈوبے تو بس کنارےپر

اس نے پھولوں کو ہاتھ سے مسلا
یا
اس نے جو پھول ہاتھ سے مسلا
جان دی ہم نے استعارے پر
بھئی کیا اچھی غزل ہے، ماشاءاللہ بہت خوب۔
 
Top