میر ہم کوئے مغاں میں تھے، ماہِ رمضاں آیا ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
ہم کوئے مغاں میں تھے، ماہِ رمضاں آیا
صد شکر کہ مستی میں جانا، نہ کہاں آیا

گو قدر محبت میں تھی سہل مری لیکن
سستا جو بکا میں تو مجھ کو بھی گراں آیا

رسم اٹھ گئی دنیا سے اِک بار مروّت کی
کیا لوگ زمیں پر ہیں، کیسا یہ سماں آیا

یہ نفع ہوا نقصاں چاہت میں کیا جی کا
کی ایک نگہ اُن نے، سو جو کا زیاں آیا

بلبل بھی تو نالاں تھی پر سارے گلستاں میں
اِک آگ پھکی میں جب، سر گرمِ فغاں آیا

طائر کی بھی رہتی ہے پھر جان چمن ہی میں
گل آئے جہاں، وہ بھی جوں آبِ رواں آیا

خلوت ہی رہا کی ہے مجلس میں تو یوں اس کی
ہوتا ہے جہاں یک جا میں میر جہاں آیا

(میر تقی میر)
 
Top