" ہم کس دور میں جی رہے ہیں ؟" از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی ۔
ایک انتہائی فکر انگیز تحریر جو آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے تحریر کی گئی ہے۔ اس پر آپ حضرات کی آراء بھی مطلوب ہیں۔
 

ربیع م

محفلین
میرے خیال میں اہم یہ نہیں کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں اہم یہ ہے کہ ہر دور کیلئے منبع رشد وہدایت ایک ہی ہے ، قابل قبول عمل و طریقہ ایک ہی ہے۔

اہم یہ نہیں کہ کہ کیا یہ قرب قیامت کا وقت ہے ، کیونکہ ہر شخص کی موت کے ساتھ ہی اس پر قیامت قائم ہو گئی۔
 
اہم یہ ہے کہ آگہی کے ساتھ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر قیامت کا ذکر کیا گیا ہے ، آخر کیوں ؟
قرآن کریم میں سب سے زیادہ ذکر یہودیوں ہی کا کیوں ہے ؟ جب کہ اسلام کی اولین صدی کے ایک یا دو دہائیوں اور موجودہ صدی کے علاوہ یہودیوں کا مسلمانوں کے ساتھ تقریبا 12 ، 13 صدیوں تک براہ راست کوئی تعلق نہیں رہا۔ یہ موضوع قرآن کریم کی تفکیر و تدبر سے بھی تعلق رکھتا ہے ۔ مسلمان اپنی ذمہ داری اسی وقت پوری کر سکتے ہیں جب ان میں احساس ذمہ داری ہو اور جب احساس آگہی ہی موجود نہ ہو تو احساس ذمہ داری کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔
اگر یہ بات اتنی اہم نہ ہوتی کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں تو قرآن کریم کی آیات اور احادیث میں اس قدر اس دور سے متعلق اشارات نہ پائے جاتے۔
 
Top