ہم پہ اترے ہیں الم اور طرح کے (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن)

نوید ناظم

محفلین
زندگی دیتی ہے غم اور طرح کے
جبکہ فطرت میں ہیں ہم اور طرح کے

اب خدائی کے تقاضے وہ نہیں تھے
سو تراشے ہیں صنم اور طرح کے

تم سمجھ پاؤ یہ ممکن بھی نہیں ہے
ہم پہ اترے ہیں الم اور طرح کے

مجھ کو درپیش سفر بھی تو الگ تھا
ہیں جو پاؤں میں ورم اور طرح کے

کربلا ہی سے تعلق ہے ہمارا
ہم پہ ہوتے ہیں کرم اور طرح کے

ہم نکلتے بھی تِری زلف سے کیسے
زلفِ پیچاں کے ہیں خم اور طرح کے

اب ستانے کی نئی راہ نکالو
اب کرو ہم پہ ستم اور طرح کے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ ۔ اس شعر میں"تھے" مجھے کچھ درست نہیں لگ رہا۔

اب خدائی کے تقاضے وہ نہیں تھے
سو تراشے ہیں صنم اور طرح کے
"نہ رہے وہ" کیسا رہے گا؟
 

نوید ناظم

محفلین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ ۔ اس شعر میں"تھے" مجھے کچھ درست نہیں لگ رہا۔

اب خدائی کے تقاضے وہ نہیں تھے
سو تراشے ہیں صنم اور طرح کے
"نہ رہے وہ" کیسا رہے گا؟
بہت شکریہ سر،
کیا خوبصورت تجویز ہے۔۔۔ مصرع اسی کے مطابق کر دیا۔

"اب خدائی کے تقاضے نہ رہے وہ"
 
Top