ہم پسِ زندانِ تنہائی رہے تو کیا ہوا

ہم پسِ زندانِ تنہائی رہے تو کیا ہوا
اَن گنت ویرانے دل میں آ بسے تو کیا ہوا

خارزارِ زندگی میں ہم کو چلنا ہے ضرور
پھٹ پڑے ہیں پاؤں کے یہ آبلے تو کیا ہوا

اس نے ہی دی ہیں ہمیں انساں کی ساری رفعتیں
عظمتِ انساں کے قدموں میں گرے تو کیا ہوا

ہم فقیروں سے ہیں قائم اسکی ساری رونقیں
ہم اگر کوچے میں تیرے آ گئے تو کیا ہوا

تیری آنکھیں ڈھونڈتی رہتی تھیں جن کو ہر جگہ
آ گئے ہیں وہ اچانک سامنے تو کیا ہوا

یہ بدن تو پیرہن ہے اپنی نازک جان کا
وقت نے کچھ درد اس کو دے دیئے تو کیا ہوا

دور منزل ہے ابھی اور راستہ بھی ہے کٹھن
دو گھڑی گر سائے میں سستا لئے تو کیا ہوا

ہم نے گھبرا کے ذرا احسان اس رفتار سے
آنکھ میں ہیں بھر لئے گزرے سمے تو کیا ہوا

احسان الٰہی احسان
 
Top