ہم لوگ ہیں خوشبو، پھیلیں گے

رباب واسطی

محفلین
مقتل سے اپنی یاری ہے !! اب دار پرانا لگتا ہے
صدیوں سے کٹنا عادت ہے ! ہر وار پرانا لگتا ہے
تم لاکھ اٹھاؤ دیواریں !! ہم لوگ ہیں خوشبو پھیلیں گے
یہ طوق و سلاسل زیور ہیں !! منجدھار پرانا لگتا ہے
اس کھیل میں اپنی عمر کٹی !! حیرت کو بھی حیرت ہے ہم پر
ہر دُشمن دیکھا بھالا ہے ہر یار پُرانا لگتا ہے

شاعر نا معلوم
 

رباب واسطی

محفلین
ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں
تہمتیں , بدنامیاں , رسوائیاں
زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں , مجبوریاں , تنہائیاں

کیا زمانے میں یونہی کٹتی ہے رات
کروٹیں ، بے تابیاں ، انگڑائیاں

کیا یہی ہوتی ہے شام انتظار
آہٹیں ، گھبراہٹیں ،پرچھائیاں

میرے دل کی دھڑکنوں میں رہ گئیں
چوڑیاں ، موسیقیاں ، شہنائیاں

دیدہ و دانستہ ان کے سامنے
لغزشیں ، ناکامیاں ، پسپائیاں

رہ گئیں اک طفل مکتب کے حضور
حکمتیں ، آگاہیاں ، دانائیاں

زخم دل کے پھر ہرے کرنے لگیں
بدلیاں ، برکھا رتیں ، پروائیاں

کیفؔ، پیدا کر ؛سمندر کی طرح
وسعتیں ، خاموشیاں ، گہرائیاں
 

الف عین

لائبریرین
ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں
تہمتیں , بدنامیاں , رسوائیاں
زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں , مجبوریاں , تنہائیاں

کیا زمانے میں یونہی کٹتی ہے رات
کروٹیں ، بے تابیاں ، انگڑائیاں

کیا یہی ہوتی ہے شام انتظار
آہٹیں ، گھبراہٹیں ،پرچھائیاں

میرے دل کی دھڑکنوں میں رہ گئیں
چوڑیاں ، موسیقیاں ، شہنائیاں

دیدہ و دانستہ ان کے سامنے
لغزشیں ، ناکامیاں ، پسپائیاں

رہ گئیں اک طفل مکتب کے حضور
حکمتیں ، آگاہیاں ، دانائیاں

زخم دل کے پھر ہرے کرنے لگیں
بدلیاں ، برکھا رتیں ، پروائیاں

کیفؔ، پیدا کر ؛سمندر کی طرح
وسعتیں ، خاموشیاں ، گہرائیاں
کیف بھوپالی
 
Top