عرفان صدیقی ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے

ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے
چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے

اس کو رہتا ہے ہمیشہ مری وحشت کا خیال
میرے گم گشتہ غزالوں کا پتا چاہتی ہے

میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جانِ مراد
خود کو زنجیر صحبت سے رہا چاہتی ہے

چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے
تم سے بڑھ کر تو مجھے موج فنا چاہتی ہے

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن
خیر، یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

ہم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہیں آزاد
گھر کو چلتے ہیں کہ اب شام ہوا چاہتی ہے

ہم نے ان لفظوں کے پیچھے ہی چھپایا ہے تجھے
اور انھیں سے تری تصویر بنا چاہتی ہے
 
Top