ہم تابِ آفتاب، فروغِ قمر ہے آج۔مصطفٰی خان شیفتہ

اے شیفتہ نویدِ شبِ غم سحر ہے آج
ہم تابِ آفتاب، فروغِ قمر ہے آج

آہنگِ دل پذیر سے مطرب ہے جاں نواز
آہِ جگر خراش کا ظاہر اثر ہے آج

دل سے کشادہ تر نہ ہو کیوں کر فضائے بزم
تنگیِ خانہ حلقۂ بیرونِ در ہے آج

فانوس میں نہ شمع، نہ شیشے میں ہے پری
ساغر میں جس بہار سے مے جلوہ گر ہے آج

پروانوں کا دماغ بھی ہے آسمان پر
نورِ چراغ میں جو فروغِ قمر ہے آج

ہر سمت جلوہ گر ہیں جوانانِ لالہ رُو
گلزار جس کو کہتے ہیں وہ اپنا گھر ہے آج

سامان وہ کہ آئے نہ چشمِ خیال میں
آ اے رقیب دیکھ کہ پیشِ نظر ہے آج

وہ دن گئے کہ ربطِ سر و سنگ تھا بہم
شکرانے کے سجود ہیں اور اپنا سر ہے آج

اسبابِ عیش یہ جو مہیا ہے شیفتہ
کیا پردہ تم سے، آنے کی اُن کے خبر ہے آج

مصطفٰی خان شیفتہ​
 
Top