ہم اسٹیبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو دھاندلی کا مجرم سمجھتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن

جاسم محمد

محفلین
ہم اسٹیبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو دھاندلی کا مجرم سمجھتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 01 جنوری 2021

5fef5b59c5c86.png

مولانا فضل الرحمٰن نے اجلاس کے بعد میڈیا کو آگاہ کیا—فوٹو: ڈان نیوز
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اتحاد پہلے سے زیادہ مضبوط ہے اور قوم کو اس ناجائز حکومت سے خلاصی کے لیے پرعزم ہے اور ہم اسٹبلشمنٹ اور فوج کو دھاندلی کا مجرم سمجھتے ہیں۔

لاہور میں پی ڈی ایم کے طویل اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ تمام مسائل انتہائی سنجیدہ اور گہرے تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئے روز ایک خاص مہم جوئی کے تحت میڈیا پر پی ڈی ایم میں اختلاف کی خبریں پھیلائی جاتی ہیں آج وہ سب دم توڑ چکی ہیں اور پی ڈی ایم پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم مستقبل اس ناجائز حکومت سے قوم کی جان خلاصی کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم نظر آئی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میڈیا سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں ہر طبقہ مظلوم ہیں اور اسی طرح میڈیا بھی مظلوم ہیں اور ہم میڈیا کے مظلوم کے طبقے کے ساتھ کھڑے ہیں اس لیے انہیں بھی احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے اٹھنے والی آواز کو پوری قوت کے ساتھ قوم تک پہنچائے۔

'پی ڈی ایم فیصلہ کرے گی لانگ مارچ اسلام آباد یا راولپنڈی کی طرف ہوگا'
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم پچھلے اجلاس میں کہا تھا کہ 31 دسمبر تمام اراکین اسمبلی اپنے استعفے پارٹی قیادت تک پہنچائیں گے اور سب نے اجلاس میں رپورٹ دی کی سب کے استعفے قیادت تک پہنچ گئے ہیں اور ایک ہدف مکمل ہوگیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے کہا تھا کہ 31 جنوری تک حکومت کو مستعفی ہونے کی مہلت ہے اور آج پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ حکومت کے پاس ایک مہینے کی مدت ہے، اس کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت لانگ مارچ اور اس کی تاریخ کا اعلان کرے گی'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'پی ڈی ایم کی قیادت فیصلہ کرے گی کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کی جائے یا پھر راولپنڈی کی طرف کی جائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو ایک ڈیپ اسٹیٹ بنا کر یہاں کی اسٹبلشمنٹ نے پورے نظام کو یرغمال بنایا ہے اور عمران خان ایک مہرہ ہے جس کے لیے دھاندلی جنہوں نے کی اور جنہوں نے ان کو قوم پر مسلط کیا اور ایک جھوٹی حکومت قائم کی'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم آج واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم اسٹبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو اس کا مجرم سمجھتے ہیں اور ہماری تنقید کا رخ اب ان کی طرف برملا ہوگا اور اب ان کو سوچنا ہے کہ پاکستان کی سیاست پر اپنے پنجے گاڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا اس سے دست بردار ہو کر اپنی آئینی ذمہ داریوں کی طرف جاتے ہیں'۔

'فوج ہماری فوج ہے اور اس کا احترام ہے'
پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ 'ہم بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر رہے ہیں، فوج ہماری فوج ہے، ہم اس کو اپنی فوج سمجھتے ہیں، ہم تمام جرنیلوں کا احترام کرتے ہیں، یہ ہماری دفاعی قوت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر دفاعی قوت اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر سیاست میں مداخلت کرتی ہے اور سیاسی معاملات کو اپنے قبضے میں لیتی ہے تو اس سے الجھنیں پیدا ہوتی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج اگر پاکستان میں آئینی، قانونی، سیاسی اور معاشی بحران ہے تو وہ اس تجاوز کی وجہ سے ہے کہ اپنی حدود سے آگے بڑھ جاتے ہیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'اس حوالے سے تمام جماعتیں متفق ہیں کہ ہم نے صرف ایک مہرے کی طرف تحریک کا رخ نہیں موڑنا بلکہ اس کے پیچھے ان پشتی بانوں کی طرف بھی تحریک کو متوجہ رکھنا ہے اور عوام پر واضح کرنا ہے کہ تمام خرابیوں کی جڑ کون ہے اور کیوں ہے'۔

'19 جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ ہوگا'
ان کا کہنا تھا کہ '19 جنوری کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کی طرف سے مظاہرہ ہوگا اور ایک شیڈول طے کر رہے ہیں کہ نیب کے دفاتر کے سامنے بھی اس طرح کے مظاہرے کیے جائیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نیب کو احتساب کا ادارہ نہیں سجھتے بلکہ اس کو بھی ہم اس موجودہ نظام کا ایک ایسا نمائندہ ادارہ سمجھتے ہیں جو صرف حزب اختلاف کے لیے استعمال ہونے کو بنایا گیا ہے'۔

پی ڈی ایم کے صدر کا کہنا تھا کہ 'اب انتقام کا سلسلہ نہیں چلے گا، ہم ملک میں انصاف چاہتے ہیں، احتساب سے کوئی بھاگا نہیں ہے، سارے سیاست دان جب بلائے گئے تو احتساب کے لیے آگے بڑھے ہیں لیکن یہ احتساب ثابت ہوگیا کہ احتساب نہیں انتقام ہے اور وہ آن ڈیوٹی صرف حزب اختلاف کے خلاف ایک مہرے کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'خواجہ آصف کی گرفتاری کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے، سیاست دانوں کو آئے روز نوٹسز دینا اور بلانے پر اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس ہوگا تو سخت فیصلے کی طرف جائیں گے'۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہر چیز ہم باہمی مشورے کے ساتھ اور بڑی حکمت عملی کے ساتھ اپنے کارڈز کھیلنا چاہتے ہیں۔

'ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ'
ضمنی انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فیصلہ ہوا ہے کہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ ہوا ہے، اصولی طور پر ہم کسی ادارے کے انتخاب کے خلاف نہیں ہیں اور سینیٹ انتخابات کے لیے ابھی وقت ہے، حالات کو مدنظر رکھا جائے گا اور اجلاس میں فیصلے کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے سی ای سی کے اجلاس کے حوالے سے قانونی اور سیاسی حوالے سے بتایا اور تجاویز مرتب کی ہیں اس پر تفصیل سے بات ہوئی اور متفقہ طور پر آرا قائم کی گئی ہے۔

گرفتاریوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں اب ہم باقاعدہ جیلوں کا رخ کریں اور پورے ملک میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، ہم اس پر پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے پی پی پی کی جانب سے نواز شریف کی واپسی کی شرط کے حوالے سے کہا کہ یہ قیاس آرائیاں ہیں جس پر ہمیں دکھ ہوتا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔

محمد علی درانی سے ملاقات پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے نیشنل ڈائیلاگ کا فلسفہ تھا وہ بیان کیا اور اس کے جواب میں کہا کہ یہ خاج از امکان ہے اور بات ختم ہوئی۔

'ڈیپ اسٹیٹ کا لفظ آتا ہے پاکستان کی مثال دی جاتی ہے'
صحافیوں کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہم اصلاح احوال کے لیے ضروری سمجھ لیا ہے کہ عوام کے سامنے بیان کریں گے کیوں عوام کے معاملات پر مداخلت کی جاتی ہے اور ملکی نظام پر قبضہ کیا جاتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج ہمارے اوپر جب ڈیپ اسٹیٹ کا لفظ آتا ہے تو ہیلری امریکا میں ایک انٹرویو دیتی ہے کہ اس کی مثال جیسے پاکستان، کیوں پاکستان کو دنیا میں بے عزت کیا جارہا ہے یہ ایک جمہوری، آئینی ملک ہے اور اس کو اسی انداز میں چلانا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے بہت موقع دیا ہے اور ہم سجھتے ہیں بس جو کرسی پر بیٹھا ہوا، جو مہرہ اورکٹھ پتلی ہے بس اسی پر بحث کرتے رہے اور پیچھے جو ذمہ داران ہیں اس کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے، میرے خیال میں سیاسی اور ملک معاملہ ہے، ملک کا معاملہ اول ہے اس کے بعد میں ہوں اور کوئی اور ہے'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے صحافیوں سے کہا کہ 'کچھ باتیں ایسی ہیں کہ آپ پوچھتے رہیں گے اور ہم مسکراتے رہیں گے کیونکہ ہم نے بہت سی چیزیں اس لیے بھی چھوڑی ہوتی ہیں کہ آپ لوگ اس پر تبصرے بھی کرتے رہیں گے جبکہ ہم سرپرائز دیتے رہیں گے'۔

تحریک عدم اعتماد سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس پر کوئی فیصلہ ہیں ہوا بحث ہوتی رہے گی لیکن جلدی اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، پیپلزپارٹی کے کوئی تحفظات نہیں ہیں
 

ثمین زارا

محفلین
ہم اسٹیبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو دھاندلی کا مجرم سمجھتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 01 جنوری 2021

5fef5b59c5c86.png

مولانا فضل الرحمٰن نے اجلاس کے بعد میڈیا کو آگاہ کیا—فوٹو: ڈان نیوز
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اتحاد پہلے سے زیادہ مضبوط ہے اور قوم کو اس ناجائز حکومت سے خلاصی کے لیے پرعزم ہے اور ہم اسٹبلشمنٹ اور فوج کو دھاندلی کا مجرم سمجھتے ہیں۔

لاہور میں پی ڈی ایم کے طویل اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ تمام مسائل انتہائی سنجیدہ اور گہرے تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئے روز ایک خاص مہم جوئی کے تحت میڈیا پر پی ڈی ایم میں اختلاف کی خبریں پھیلائی جاتی ہیں آج وہ سب دم توڑ چکی ہیں اور پی ڈی ایم پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم مستقبل اس ناجائز حکومت سے قوم کی جان خلاصی کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم نظر آئی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میڈیا سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں ہر طبقہ مظلوم ہیں اور اسی طرح میڈیا بھی مظلوم ہیں اور ہم میڈیا کے مظلوم کے طبقے کے ساتھ کھڑے ہیں اس لیے انہیں بھی احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے اٹھنے والی آواز کو پوری قوت کے ساتھ قوم تک پہنچائے۔

'پی ڈی ایم فیصلہ کرے گی لانگ مارچ اسلام آباد یا راولپنڈی کی طرف ہوگا'
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم پچھلے اجلاس میں کہا تھا کہ 31 دسمبر تمام اراکین اسمبلی اپنے استعفے پارٹی قیادت تک پہنچائیں گے اور سب نے اجلاس میں رپورٹ دی کی سب کے استعفے قیادت تک پہنچ گئے ہیں اور ایک ہدف مکمل ہوگیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے کہا تھا کہ 31 جنوری تک حکومت کو مستعفی ہونے کی مہلت ہے اور آج پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ حکومت کے پاس ایک مہینے کی مدت ہے، اس کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت لانگ مارچ اور اس کی تاریخ کا اعلان کرے گی'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'پی ڈی ایم کی قیادت فیصلہ کرے گی کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کی جائے یا پھر راولپنڈی کی طرف کی جائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو ایک ڈیپ اسٹیٹ بنا کر یہاں کی اسٹبلشمنٹ نے پورے نظام کو یرغمال بنایا ہے اور عمران خان ایک مہرہ ہے جس کے لیے دھاندلی جنہوں نے کی اور جنہوں نے ان کو قوم پر مسلط کیا اور ایک جھوٹی حکومت قائم کی'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم آج واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم اسٹبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو اس کا مجرم سمجھتے ہیں اور ہماری تنقید کا رخ اب ان کی طرف برملا ہوگا اور اب ان کو سوچنا ہے کہ پاکستان کی سیاست پر اپنے پنجے گاڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا اس سے دست بردار ہو کر اپنی آئینی ذمہ داریوں کی طرف جاتے ہیں'۔

'فوج ہماری فوج ہے اور اس کا احترام ہے'
پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ 'ہم بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر رہے ہیں، فوج ہماری فوج ہے، ہم اس کو اپنی فوج سمجھتے ہیں، ہم تمام جرنیلوں کا احترام کرتے ہیں، یہ ہماری دفاعی قوت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر دفاعی قوت اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر سیاست میں مداخلت کرتی ہے اور سیاسی معاملات کو اپنے قبضے میں لیتی ہے تو اس سے الجھنیں پیدا ہوتی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج اگر پاکستان میں آئینی، قانونی، سیاسی اور معاشی بحران ہے تو وہ اس تجاوز کی وجہ سے ہے کہ اپنی حدود سے آگے بڑھ جاتے ہیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'اس حوالے سے تمام جماعتیں متفق ہیں کہ ہم نے صرف ایک مہرے کی طرف تحریک کا رخ نہیں موڑنا بلکہ اس کے پیچھے ان پشتی بانوں کی طرف بھی تحریک کو متوجہ رکھنا ہے اور عوام پر واضح کرنا ہے کہ تمام خرابیوں کی جڑ کون ہے اور کیوں ہے'۔

'19 جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ ہوگا'
ان کا کہنا تھا کہ '19 جنوری کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کی طرف سے مظاہرہ ہوگا اور ایک شیڈول طے کر رہے ہیں کہ نیب کے دفاتر کے سامنے بھی اس طرح کے مظاہرے کیے جائیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نیب کو احتساب کا ادارہ نہیں سجھتے بلکہ اس کو بھی ہم اس موجودہ نظام کا ایک ایسا نمائندہ ادارہ سمجھتے ہیں جو صرف حزب اختلاف کے لیے استعمال ہونے کو بنایا گیا ہے'۔

پی ڈی ایم کے صدر کا کہنا تھا کہ 'اب انتقام کا سلسلہ نہیں چلے گا، ہم ملک میں انصاف چاہتے ہیں، احتساب سے کوئی بھاگا نہیں ہے، سارے سیاست دان جب بلائے گئے تو احتساب کے لیے آگے بڑھے ہیں لیکن یہ احتساب ثابت ہوگیا کہ احتساب نہیں انتقام ہے اور وہ آن ڈیوٹی صرف حزب اختلاف کے خلاف ایک مہرے کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'خواجہ آصف کی گرفتاری کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے، سیاست دانوں کو آئے روز نوٹسز دینا اور بلانے پر اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس ہوگا تو سخت فیصلے کی طرف جائیں گے'۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہر چیز ہم باہمی مشورے کے ساتھ اور بڑی حکمت عملی کے ساتھ اپنے کارڈز کھیلنا چاہتے ہیں۔

'ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ'
ضمنی انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فیصلہ ہوا ہے کہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ ہوا ہے، اصولی طور پر ہم کسی ادارے کے انتخاب کے خلاف نہیں ہیں اور سینیٹ انتخابات کے لیے ابھی وقت ہے، حالات کو مدنظر رکھا جائے گا اور اجلاس میں فیصلے کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے سی ای سی کے اجلاس کے حوالے سے قانونی اور سیاسی حوالے سے بتایا اور تجاویز مرتب کی ہیں اس پر تفصیل سے بات ہوئی اور متفقہ طور پر آرا قائم کی گئی ہے۔

گرفتاریوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں اب ہم باقاعدہ جیلوں کا رخ کریں اور پورے ملک میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، ہم اس پر پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے پی پی پی کی جانب سے نواز شریف کی واپسی کی شرط کے حوالے سے کہا کہ یہ قیاس آرائیاں ہیں جس پر ہمیں دکھ ہوتا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔

محمد علی درانی سے ملاقات پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے نیشنل ڈائیلاگ کا فلسفہ تھا وہ بیان کیا اور اس کے جواب میں کہا کہ یہ خاج از امکان ہے اور بات ختم ہوئی۔

'ڈیپ اسٹیٹ کا لفظ آتا ہے پاکستان کی مثال دی جاتی ہے'
صحافیوں کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہم اصلاح احوال کے لیے ضروری سمجھ لیا ہے کہ عوام کے سامنے بیان کریں گے کیوں عوام کے معاملات پر مداخلت کی جاتی ہے اور ملکی نظام پر قبضہ کیا جاتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج ہمارے اوپر جب ڈیپ اسٹیٹ کا لفظ آتا ہے تو ہیلری امریکا میں ایک انٹرویو دیتی ہے کہ اس کی مثال جیسے پاکستان، کیوں پاکستان کو دنیا میں بے عزت کیا جارہا ہے یہ ایک جمہوری، آئینی ملک ہے اور اس کو اسی انداز میں چلانا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے بہت موقع دیا ہے اور ہم سجھتے ہیں بس جو کرسی پر بیٹھا ہوا، جو مہرہ اورکٹھ پتلی ہے بس اسی پر بحث کرتے رہے اور پیچھے جو ذمہ داران ہیں اس کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے، میرے خیال میں سیاسی اور ملک معاملہ ہے، ملک کا معاملہ اول ہے اس کے بعد میں ہوں اور کوئی اور ہے'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے صحافیوں سے کہا کہ 'کچھ باتیں ایسی ہیں کہ آپ پوچھتے رہیں گے اور ہم مسکراتے رہیں گے کیونکہ ہم نے بہت سی چیزیں اس لیے بھی چھوڑی ہوتی ہیں کہ آپ لوگ اس پر تبصرے بھی کرتے رہیں گے جبکہ ہم سرپرائز دیتے رہیں گے'۔

تحریک عدم اعتماد سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس پر کوئی فیصلہ ہیں ہوا بحث ہوتی رہے گی لیکن جلدی اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، پیپلزپارٹی کے کوئی تحفظات نہیں ہیں
جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا ۔ ۔
 

شمشاد

لائبریرین
پرانے ڈاکو متحد (پی ڈی ایم) میں بہت سارے ایسے ہیں جن کا سافٹویر اپڈیٹ ہونے والا ہے۔ جن میں سر فہرست مولانا ہیں۔
 
Top