ہمیں کیا خبر ہم کہاں جا رہے ہیں----برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
فلسفی
----------
فعولن فعولن فعولن فعولن
---------------
ہمیں کیا خبر ہم کہاں جا رہے ہیں
جہاں ہے محبّت وہاں جا رہے ہیں
--------
نہیں خود پہ قابو نہ طاقت ہے اس کی
ہاں مانند آبِ رواں جا رہے ہیں
--------
چھپایا نہیں ہے زمانے سے خود کو
نہیں کچھ نہاں ہم عیاں جا رہے ہیں
------------
بہاروں کے چرچے سُنے تھے بہت ہی
مگر ہم تو بن کر خزاں جا رہے ہیں
------------
سبھی کو ہے جانا ،ہاں جانا پڑے گا
جہاں سے ہیں آئے وہاں جا رہے ہیں
----------------
خضر بن کے کوئی یہاں پر نہ آیا
------یا
خضر بن کے جینا تو ممکن نہیں ہے
جو دیکھو تو پیر و جواں جا رہے ہیں
--------------
اگر لوگ پوچھیں کہاں جا رہے ہو
گئے سب جہاں پر وہاں جا رہے ہیں
-----------یا
ہیں آقا جہاں پر وہاں جا رہے ہیں
--------------
مرا وقت جانے کا آیا ہے شاید
تبھی میرے بھی اب تواں جا رہے ہیں
------------
تمہیں یاد آئیں گی ارشد کی باتیں
یہاں دے کے حق کی اذاں جا رہے ہیں
---------------
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ہمیں کیا خبر ہم کہاں جا رہے ہیں
جہاں ہے محبّت وہاں جا رہے ہیں
--------کچھ باتوں کی نشاندہی کر دیتا ہوں تا کہ آگے کام آ سکیں۔ مطلع میں ایطا ہے 'کہاں اور ہاں میں ہاں مشترک ہونے کی وجہ سے

نہیں خود پہ قابو نہ طاقت ہے اس کی
ہاں مانند آبِ رواں جا رہے ہیں
--------لیکن کہاں جا رہے ہیں یہ بات واضح نہیں ہے

چھپایا نہیں ہے زمانے سے خود کو
نہیں کچھ نہاں ہم عیاں جا رہے ہیں
------------عیاں کا اس طرح استعمال درست نہیں ہو گا۔ اور کہاں جا رہے ہیں اس میں بھی واضح نہیں لگ رہا

بہاروں کے چرچے سُنے تھے بہت ہی
مگر ہم تو بن کر خزاں جا رہے ہیں
------------ردیف 'جا رہے ہیں' یہاں بھی بے معنی لگ رہی ہے

سبھی کو ہے جانا ،ہاں جانا پڑے گا
جہاں سے ہیں آئے وہاں جا رہے ہیں
----------------یہ ایک شعر ٹھیک لگ رہا ہے

خضر بن کے کوئی یہاں پر نہ آیا
------یا
خضر بن کے جینا تو ممکن نہیں ہے
جو دیکھو تو پیر و جواں جا رہے ہیں
--------------خضر کے درست تلفظ میں میرا خیال ہے کہ ض ساکن ہے
ردیف یہاں بھی بے معنی لگ رہی ہے۔ کہاں جا رہے ہیں یہ معلوم نہیں

اگر لوگ پوچھیں کہاں جا رہے ہو
گئے سب جہاں پر وہاں جا رہے ہیں
-----------یا
ہیں آقا جہاں پر وہاں جا رہے ہیں
--------------دوسرے مصرع کی پہلی صورت بہتر ہے، اگر یوں کر لیں تو پہلے مصرع سے ربط بن جائے گا
تو کہنا گئے سب جہاں، جا رہے ہیں
مگر اس میں بھی ردیف کار آمد ثابت نہیں ہو رہی

مرا وقت جانے کا آیا ہے شاید
تبھی میرے بھی اب تواں جا رہے ہیں
------------'تواں' لفظ سے میں واقف نہیں۔ شاید ناتواں سے کچھ لفظ ہو مگر اس طرح استعمال درست معلوم نہیں ہو رہا

تمہیں یاد آئیں گی ارشد کی باتیں
یہاں دے کے حق کی اذاں جا رہے ہیں
---------------پہلا مصرعے میں دنیا سے جانے کا ذکر ہوتا تو دوسرا مصرع
کہ دے کر وہ حق کی اذاں جا رہے ہیں، وغیرہ چل سکتا تھا
مگر کہیں جانے کا ذکر نہیں ہے اس لیے ردیف بے معنی ہو جاتی ہے
 
Top