قوموں کی اصلاح بہت ضروری ہوتی ہے اور نوجوانوں کی اصلاح اس میں سب سے زیادہ ضروری ہے۔اصلاح کیلئے جن تین چیزوں کی ضرورت ہے، ان میں سب سے پہلی قوت ارادی ہے، یہ قوت ارادی کیا چیز ہے ؟ ہم میں سے بعض کے نزدیک یہ عجیب بات ہوگی کہ قوت ارادی کے بارہ میں کہا جا رہا ہے کہ یہ کیاچیز ہے، اکثر یہ کہیں گے کہ قوت ارادی کے جو اپنے الفاظ ہیں ان سے ہی یہ ظاہر ہے کہ مضبوط ارادے اور اسے انجام دینےکی قوت ہے، یہاں یہ سوال اٹھانے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ قوت ارادی کیا چیز ہے؟ اس بارے میں واضح ہونا چاہئے کہ قوت ارادی کا مفہوم عمل کے لحاظ سے ہر جگہ بدل جاتا ہے، پس یہ بنیادی بات ہمیں اپنے سامنے رکھنی چاہئے اور جب یہ بات اپنے سامنے رکھیں گے تو پھر ہی اس نہج پر سوچ سکتے ہیں کہ دین کے معاملے میں قوت ارادی ایمان کا نام ہے۔آنحضرت ﷺ کے زمانے میں آپ پر ایمان لانے والوں میں عملی کمزوریوں کو دور کرنے اور ایمان میں پختہ ہونے کے حیرت انگیز نمونے ہمیں نظر آتے ہیں۔ ایمان لانے سے قبل ان کی عملی حالت ایسی کمزور تھی کہ ان میں چور ،ڈاکو اور فاسق و فاجر بھی تھے، ان میں ایسے بھی تھے جو ماؤں سے نکاح بھی کر لیتے اور ماؤں کو ورثہ میں بانٹنے والے بھی تھے اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے والے جواری اور شراب خور بھی تھے۔ایک دوسرے پر شراب پینے پر فخر کیا کرتے تھےمگر جب آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے تو ان کی کایا ہی پلٹ گئی اور ایک عظیم انقلاب ان میں پیدا ہوا۔ اور ایمانوں میں ایسی قوتِ ارادی پیدا ہوئی کہ ایک مشہور واقعہ ہے کہ صحابہؓ شراب پیا کرتے تھے ۔ چند صحابہؓ ایک مکان میں بیٹھے ہوئے تھے، دروازے بند تھے اور یہ سب شراب پی رہے تھے اور ابھی شراب کی ممانعت کا حکم اس وقت نازل نہیں ہوا تھا، اور شراب پینے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی نہیں تھی، جتنا جس کا دل چاہتا تھا پیتا تھا، نشے میں بھی آجاتے تھے، شراب کا ایک مٹکا اس مجلس میں بیٹھے لوگوں نے خالی کردیا اور دوسرا شروع کرنے لگے تھے، اتنے میں گلی سے آواز آئی کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ آج سے مسلمانوں پر شراب حرام کی جاتی ہے۔ گلی میں اعلان کرنے والے کی اس آواز کے کانوں تک پہنچنے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی اطاعت میں شراب سے بھرے مٹکے توڑ دیئے گئے اور اس اعلان کے ساتھ ہی مدینہ کے کئی گھروں میں جن میں شراب کی محفلیں جمی ہوئی تھیں اس تیزی سے مٹکے ٹوٹے کہ مدینہ کی گلیوں میں شراب پانی کی طرح بہنے لگی۔صحابہ کرام کی یہ کیسی حیران کن قوّتِ ارادی ہے جو ان کے نشے پر غالب آگئی۔
قوت عِلمی عمل کی کمزوری کو دور کردیتی ہے۔اگر انسان کو عمل کے گناہ اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا صحیح احساس ہوجائے تو وہ گناہ کرنے سے سے بچ سکتا ہے
امریکہ میں ایک زمانے میں کھلے عام شراب کی ممانعت کی کوشش ہوئی جس کیلئے لوگوں نےدوسرا طریقہ استعمال کیا کہ سپرٹ پینے شروع کر دیئے اور سپرٹ پینے کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں اور اس کی وجہ سے لوگ مرنے لگے، ایمان نہیں تھا اس لئے یہ دنیاوی قانون کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی، حکومت نے پھر قانون بنایا کہ اگر ڈاکٹر اجازت دیں تو پھر شراب ملے گی، تو اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ ہزاروں ڈاکٹروں نے اپنی آمدنیاں بڑھانے کیلئے غلط سرٹیفکیٹ جاری کرنے شروع کر دئیے، ایسے ڈاکٹر جن کی پریکٹس نہیں چلتی تھی، اس کی اسی طرح آمدنی شروع ہوگئی، آخر وقت ایسا آیا کہ قانون کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ بہرحال واضح ہو کہ قوت عملیہ کی کمی یا نہ ہونے کے بھی بعض اسباب ہیں، مثلا ایک سبب عادت ہے، ایک شخص میں قوت ارادی بھی ہوتی ہے ، علم بھی ہوتا ہے لیکن عادت کی وجہ سے مجبور ہو کروہ عمل میں کمزوری دکھا رہا ہوتا ہے، یا ایک شخص جانتا ہے کہ خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہوسکتا ہے لیکن مادی اشیاء کیلئے جذبات محبت یا مادی نقصان کے خوف سے جذبات خوف غالب آتے ہیں اور اﷲتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے انسان محروم رہ جاتا ہے، ایسے لوگوں کیلئے اندرونی کے بجائے بیرونی علاج کی ضرورت ہے،اس کیلئے صحیح سہارے کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ تینوں قسم کے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور دنیا میں یہ بیماریاں بھی موجود ہیں، بعض ایسے لوگ ہیں جن کے عمل کی کمزوری کی وجہ ایمان میں کامل نہ ہونا ہے، بعض لوگ ایسے ہیں جن میں عمل کی کمزوری اس وجہ سے ہے کہ ان کا علم کامل نہیں ہے، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایمان اور علم رکھتے ہیں لیکن دوسرے ذرائع سے ان پر ایسا زنگ لگ جاتا ہے کہ دونوں علاج ان کیلئے کافی نہیں ہوتےاور بیرونی علاج کی ضرورت ہوتی ہے، کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)

(خدا کا ایک بندہ)
 
بہت اچھا سلسلہ شروع کیا آپ نے خالد بھائی۔ جزاک اللہ خیراً :)
میں نے ذاتی طور پر اچھی اور بری صحبت میں لوگوں کے سنورتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔
میرے خیال میں جو لوگ واقعی سدھرنا چاہتے ہیں انکو اچھی صحبت تلاش کرنی چاہئے۔
اور قوت ارادی مضبوط کرنے کے لئے ضبط نفس کی تربیت بہترین چیز ہے۔
 
بہت اچھا سلسلہ شروع کیا آپ نے خالد بھائی۔ جزاک اللہ خیراً :)
میں نے ذاتی طور پر اچھی اور بری صحبت میں لوگوں کے سنورتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔
میرے خیال میں جو لوگ واقعی سدھرنا چاہتے ہیں انکو اچھی صحبت تلاش کرنی چاہئے۔
اور قوت ارادی مضبوط کرنے کے لئے ضبط نفس کی تربیت بہترین چیز ہے۔
جزاک اللہ خیراً
 

جاسمن

لائبریرین
سب مسائل دکھاتے ہیں۔ مصنف،شاعر،ادیب،صحافی،اینکر پرسن،پروڈیوسر،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم۔۔ طلباء سے کہتے ہیں کہ اپنے حصے کا کام کیجیے۔ اپنے حصے کی شمع روشن کریں۔ میں ٹھیک ہوں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔آؤ ہم خود کو سنواریں۔ہم سچ بولیں تو سب سچ بولیں گے۔ ہم ایمان دار ہوں گے تو سب ایمان دار ہو جائیں گے۔ہم سنور گئے تو سب سنور جائے گا۔۔۔۔ایسے ہی کتنے ۔۔کتنے ۔۔۔کتنے خواب!!!!!!!
کبھی کبھی ایک عجیب سی مایوسی طاری ہوتی ہے۔اپنا کہا سب ایک فریب ،ایک نہ پُورا ہونے والا سپنا لگتا ہے۔خُود اپنے آپ کو دیا جانے والا دھوکا لگتا ہے۔
ایک قنوطیت طاری ہے۔دوسروں کو امیدوں کا درس دینے والے کب تعبیر کا چڑھتا سورج دیکھیں گے؟ کیا یہ زندگی بس خوابوں اور خیالوں میں ہی گذر جائے گی؟ ہم اپنے بچوں کے لئے کیسا پاکستان چھوڑ کے جائیں گے؟ ہمارے جانے کے بعد پاکستان کیسا ہو گا؟
یہ اور اس جیسے بیسیوں سوال اپنی نوکیں ذہن میں گاڑے رکھتے ہیں۔ریڑھی والا بھی بے ایمانی پہ زندہ ہے تو بڑے سے عہدے والا بھی۔داڑھی والا بھی اور کلین شیو بھی۔ نماز والا بھی اور بے دین بھی۔ سارے اخبارات خوفناک خبروں سے بھرے ہیں۔یہ ہمارے معاشرے کا چہرہ ہے۔اس قدر خوفناک!
سارے اینکر پرسن ہاتھ میں ہنٹر لئے کسی نہ کسی کے دوالے ہیں۔
ہے کہیں کوئی جو ان خوابوں کی تعبیر کی نوید دے؟
کہاں ہو تُم؟ ایمان کی نوید۔ روشنی کی کرن۔کدھر ہو؟ آنکھیں بینائی سے محروم ہیں تو تُمہاری پہچان کیسے ہو؟
 
Top